کچھوے سمندری ایکو سسٹم کےلیے ضروری ہیں

کچھووں کی تین اقسام اتنی نایاب ہیں کہ وہ پاکستان کے علاوہ مشکل سے دو یا تین ممالک میں ہوں گی


امبرین سکندر January 18, 2025

آٹھ کلومیٹر پر پھیلا کراچی کے ہاکس بے اور سینڈز پٹ ساحل کا علاقہ دنیا کے ان چند مقامات میں شمار کیا جاتا ہے، جسے ہرے سمندری کچھوے اپنی افزائش نسل کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ کراچی کے ان ساحلوں پر ویسے تو ہرے سمندری کچھوے انڈے دینے پورا سال ہی آتے رہتے ہیں، مگر جون سے دسمبر تک جب سمندر چڑھا ہوا ہو تو یہ ان کے انڈوں کا سیزن سمجھا جاتا ہے.

کچھووں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کےلیے ہم نے محکمہ وائلڈ لائف کے افسر اشفاق علی میمن سے رابطہ کیا، جنھوں نے بتایا کہ دنیا میں کچھووں کی سات اقسام پائی جاتی ہیں، جب کہ ان میں سے 5 اقسام کے کچھوے 1970 سے پاکستان آتے تھے۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ اب صرف دو ہی اقسام پاکستان میں موجود ہیں جس میں ہرے اور کالے کچھوے شامل ہیں۔ گرین ٹرٹل اور اولو ریڈلی۔

اولو ریڈلی کا ٹریک پاکستان میں موجود ہے، تاہم اس کی تلاش جاری ہے اور ہمیں وہ ابھی ملا نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی افزائش نسل جون اور جولائی میں ہوتی ہے اور یہ اسی دوران دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور ہمیں امید ہے کہ رواں سال جون اور جولائی میں افزائش نسل کے دوران ہم انہیں ٹریک کرکے اس کے انڈوں کی حفاظت کرکے انہیں بچاسکیں۔ فی الحال اس وقت صرف گرین ٹرٹل ہی پاکستان کے ساحلوں پر پائے جاتے ہیں اور ان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

ہرے کچھوے پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں کنڈ ملیر تک پائے جاتے ہیں اور جہاں جہاں تک پاکستان کی ساحلی پٹی پھیلی ہے، یہ کچھوے پائے جاتے ہیں۔ منوڑہ، ہاکس بے، سینڈز پٹ وغیرہ ان جگہوں میں شامل ہیں۔

ہرے کچھووں کو عموماً نرم زمین یا مٹی پسند ہوتی ہے اور وہ ایسی ہی جگہوں پر انڈے دیتے ہیں۔ یہ کچھوے نمکین یا کھارے پانی میں رہتے ہیں، کیوں کہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے اور یہ اسی پانی میں رہتے ہیں۔ ان کے رنگ کی وجہ سے انھیں گرین ٹرٹل کہا جاتا ہے، یہ ہربی ورس ہوتے ہیں اور گھاس وغیرہ کھاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اندر کولیسٹرول جمع ہوتا ہے اور ان کا رنگ ہرا ہوتا ہے۔

کچھووں کا سائز تقریباً ساڑھے چار فٹ لمبائی اور ساڑھے 3 فٹ چوڑائی ہے۔ عموماً اس کا سائز تین سے ساڑھے تین فٹ ہوتا ہے۔ تاہم بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ کھچوے 4 فٹ سے سوا 4 فٹ لمبے بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک عام کچھوے کا وزن 178 کلو گرام ہوتا ہے، جو 90 کلو گرام سے شروع ہوتا ہے۔ تاہم یہ وزن ان کے جسم کے سائز کے اعتبار سے ہوتا ہے۔

یہ ایک غلط تاثر ہے کہ کچھوے ہزاروں سال تک زندہ رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ ایک عام کچھوا 70 سے 90 سال تک کی عمر تک باآسانی زندہ رہ سکتا ہے اور کبھی یہ 100 سال تک بھی زندہ رہتے ہیں۔

مادہ کچھوے سال میں دو بار افزائش نسل کےلیے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم اس کےلیے ضروری نہیں کہ گزشتہ سال پاکستان کے ساحلوں کا رخ کرنے والے مادہ کچھوے دوبارہ ان ہی ساحلوں کا رخ کریں۔ یہ سراسر موسمی حالات پر منحصر ہوتا ہے۔

پاکستان میں افزائش نسل کا یہ عمل اگست سے شروع ہوکر 15 فروری تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران ان کا ساحلوں کی جانب آنا بھی ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم اگست سے فروری کے دوران بڑی تعداد میں گرین ٹرٹل پاکستانی ساحلوں کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔ وائلڈ لائف حکام کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس سیزن میں صرف سینڈزپٹ پر 500 سے زائد کچھووں کی آمد ہوئی ہے، تاہم کچھووں کی ایک بڑی تعداد ساحلوں پر ہونے والی سرگرمیوں کے باعث انڈے دینے سے قاصر رہی۔

مادہ کچھووں کو انڈے دینے کےلیے ایک ایسی جگہ کی تلاش ہوتی ہے، جہاں شور ہنگامہ یا گہماگہمی نہ ہو اور اسے سکون میسر آسکے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف 150 کے قریب ہی مادہ کھچوے انڈے دے سکیں۔ جس کے بعد ساڑھے 12000 سے 13 ہزار تک کچھووں کے انڈوں کو محفوظ کرکے افزائش نسل کےلیے ہیچری میں لگا دیا گیا ہے۔

ایک کچھوا اوسطًا 90 سے 100 تک انڈے دیتا ہے، یہ تعداد کبھی 130 تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ہرے کچھوے کی مادہ ساحل پر گڑھا کھود کر اس میں ایک وقت میں 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے، جس کے بعد وہ سمندر میں واپس چلی جاتی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق ان میں سے صرف ایک یا دو ہی زندہ بچ پاتے ہیں۔

 

کچھوے کہاں کہاں اسمگل ہوتے ہیں؟

کالے کچھوے جنہیں بلیک پاؤنڈ بھی کہا جاتا ہے، ان کی بیرون ممالک مانگ بہت زیادہ ہے۔ یہ میٹھے پانی کے کچھوے ہیں اور میٹھے پانی میں ہی زندہ رہتے اور پائے جاتے ہیں۔ اس کچھوے کی سب سے زیادہ طلب چین میں ہے اور یہ کچھوا سب سے زیادہ چین میں اسمگل ہوکر جاتا ہے۔ ان کچھووں کو ڈالرز میں بیچا جاتا ہے، اس لحاظ سے ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

دیگر ممالک میں کچھووں کو مختلف کاموں کےلیے اسمگل کیا جاتا ہے، جس میں کھانے کےلیے، دوا سازی، خوش قسمتی کی علامت کےلیے، گھروں میں رکھنے کے رواج کےلیے بھی انہیں بڑی تعداد میں دیگر ممالک اسمگل کیا جاتا ہے۔
 
عالمی ادارے ورلڈ کنزرویشن یونین (آئی یو سی این) نے ہرے سمندری کچھوے کو 2004 سے ناپید جانداروں کی ریڈ لسٹ میں شامل کرکے ان کی دنیا بھر میں 86 سے 96 ہزار تک آبادی کا تخمینہ لگایا ہے۔

پاکستان میں کچھووں کی افزائش نسل سے متعلق انہوں نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں 1970 سے اس حوالے سے کام ہورہا ہے۔ 1960- 1970 کی دہائی میں ہاکس بے کے ساحل پر انسانی سرگرمیاں اور ہٹس نہ ہونے کے برابر تھے اور یہی وجہ تھی کہ بہترین ماحول میسر آنے پر ان کی افزائش نسل تیزی سے ہورہی تھی، تاہم ساحل سمندر پر بڑھتی انسانی سرگرمیوں نے جہاں سمندری آلودگی میں اضافہ کیا، وہیں آبی حیات خاص کر معدوم ہوتی نسل کےلیے مزید مشکلات بڑھا دی ہیں۔

ستر کی دہائی میں کچھووں کی تعداد کا یہ عالم تھا کہ اس وقت کوئی دیوار نہیں ہوا کرتی تھی اور کچھوے اکثر مرکزی سڑک تک آجایا کرتے تھے، تاہم بعد ازاں انہیں سڑک پر آنے سے روکنے اور کسی بھی حادثے سے بچانے کےلیے یہاں ایک باؤنڈری دیوار بنادی گئی تھی۔

محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے مطابق 1970 سے لے کر اب تک ان ساحلوں پر آنے والے 8 لاکھ 70 ہزار ننھے کچھووں کو بحفاظت سمندر میں روانہ کرچکے ہیں۔ اس سال ان کے انڈوں کی تعداد 13 ہزار تک پہنچی ہے، جب کہ اگلے سال تک ہم 50 سے 70 ہزار تک کا ٹارگٹ سیٹ کرچکے ہیں۔ جس کےلیے عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ہٹ انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ وہاں رات اور شام کے اوقات میں سرگرمیوں کو محدود کیا جائے تاکہ کچھووں کو بہترین ماحول میسر آسکے۔

ہٹ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم نے صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ شام سے صبح کے اوقات میں وہاں لوگوں کی آمدو رفت کو بھی روکا جائے۔ جس سے گرین ٹرٹل کی افزائش نسل میں تیزی لائی جاسکے گی۔

انہوں نے ہمیں بتایا کہ صرف انسان اور جانور ہی نہیں، پھیلائی گئی آلودگی، گندگی اور ماہی گیروں کا مچھلیوں کے شکار کےلیے استعمال ہونے والا جال بھی ان کچھووں کےلیے اکثر اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ان جالوں میں پھنسنے سے کچھوؤں کے ہاتھ پاؤں کٹ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساحل سمندر آنے والے افراد شیشے، پلاسٹک اور دیگر اشیا پھینک کر چلے جاتے ہیں، جو بہتی لہروں کے ذریعے سمندر میں جاتے ہیں اور کچھوے اسے غذا سمجھ کر کھانے کی کوشش میں مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رات گئے ساحل سمندر پر چلنے والی گاڑیاں بھی ان کچھووں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہیں، کیوں کہ رات کے اوقات میں کچھووں کو ریت میں دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔

سینڈز پٹ کے ساحل پر کئی سال کے دوران تعمیر ہونے والے تفریحی ہٹس میں آنے والے لوگوں کی جانب سے کھانے پینے کی اشیا پھینکنے کی وجہ سے اس علاقے میں کتوں، کووں اور دیگر شکاری جانوروں اور پرندوں کی بہتات ہے۔ یہ شکاری جانور ہرے کچھوے کے انڈوں والے گڑھوں کو کھود کر انڈوں کو پی جاتے ہیں، اس لیے محکمہ جنگلی حیات سندھ نے ہرے کچھوے سمیت دیگر سمندری کچھووں کے انڈوں کی حفاظت کےلیے میرین ٹرٹل کنزرویشن سینٹر یا مرکز برائے تحفظ سمندری کچھوے قائم کیا ہے۔

سی ٹرٹلز اور دیگر کچھووں کی حفاظت کےلیے جنگلی حیاتیات و نباتات کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ یہ جاننے کےلیے ہم نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے آفیسر معظم خان سے رابطہ کیا، جو کچھووں سے متعلق وسیع معلومات اور تجربہ رکھتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا کبھی ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے کچھووں کے انڈے دینے کے سیزن پر ساحل پر ہونے والی انسانی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی اقدام اٹھایا، کہ وہ نیسٹنگ کے سیزن میں ساحل سمندر پر لوگوں کی آمد کو روکے یا محدود کرے؟ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ تمام تر کارروائیاں سندھ حکومت کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ ہماری جانب سے جس حد تک ہوسکتا ہے ہم اس لیول پر جاکر کچھووں کےلیے کام کرتے ہیں۔ مگر یہ ایک ایسا سیزن ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرنے سے نہیں روک سکتے۔

کراچی کا ساحل 20 کلومیٹر سے زائد کے رقبے پر مشتمل ہے۔ دوسری بات یہ کہ لوگوں میں اب اچھی خاصی آگاہی آگئی ہے کہ وہ انڈوں کے سیزن میں کچھووں کو تنگ نہیں کرتے۔ سندھ حکومت کچھووں کو بچانے کےلیے اقدامات کررہی ہے، ہمارا کام صرف واقعات کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی کچھووں سے متعلق سرگرمی کا مشاہدہ یا جانچ کےلیے ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جو صوبائی حکومت کےلیے کام کرتی ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی جانب سے کچھووں کو بچانے یا عوام میں ان سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کےلیے ادارہ گاہے بہ گاہے ایسے ایونٹ کا انعقاد کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے اگر آپ کچھووں کو دیکھنا یا ان کی نیسٹنگ کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ڈبلیو ڈبلیو ایف سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا انعقاد ہاکس بے یا سینڈز پٹ پر کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے بہت ہی اہم علاقے دریائے جیوانی میں کچھووں کے انڈے بچانے کےلیے اور بچوں کو واپس پانی میں بھیجنے کےیلے کام کیا گیا ہے۔ یہ کام ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے 2008 سے 2010 تک جاری رہا، جس کے بعد مقامی این جی او کی مدد سے اب یہ کام بھی باقاعدہ سے جاری ہے۔ اسی طرح کچھووں کے انڈے دینے کےلیے ایک اور جگہ دریافت کی گئی، اس علاقے کو کچھووں کےلیے اہم قرار دلانے میں بھی ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا جو سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس سے قبل لوگوں کو یہ علم نہیں تھا کہ کھلے سمندر میں کچھوے کون سے ہوتے ہیں، کہاں ملتے ہیں، اور کہاں کم ملتے ہیں، کتنی تعداد اور کب ہوتے ہیں، اور انہیں مچھلی کے جال میں پھنسنے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے مؤثر اور تفصیلی ریسرچ کی گئی ہے۔

پاکستان کے کھلے سمندر (سندھ، بلوچستان اور فیڈرل گورنمنٹ کا سمندری علاقہ) میں 2012 سے قبل 28000 ایڈلی اولو کچھوے، جب کہ 4800 کے قریب گرین کچھوے ہوتے تھے، جو جالوں میں پھنستے تھے۔ پاکستان کے ساحل پر آنے والے کچھووں میں ایڈلی اولو کچھووں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے 2012 سے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے پروگرام شروع کیا کہ جو 3 سے 4 فیصد کے قریب کچھوے جالوں میں پھنسنے سے مر جاتے تھے، ان کو کیسے بحفاظت واپس پانی میں بھیجا جائے؟

یہ اس وجہ سے ہوتا تھا کہ کچھوے کچھ جال میں پھنسنے کے بعد نکالنے کے دوران مر جاتے تھے، یا ماہی گیروں کو اس بات کی آگاہی نہیں تھی کہ وہ کچھووں کو کیسے احتیاط سے نکالیں، یا پھر اس طریقے سے جال کو پانی میں ڈالیں کہ وہ کچھووں کےلیے مشکل کا باعث نہ بنے۔

اس سلسلے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 100 سے زائد ماہی گیروں کی تربیت کی۔ جس میں انہیں بتایا گیا کہ کس طرح کی مہارت سے جال میں پھنس جانے والے کچھووں کو نکال کر دوبارہ پانی میں چھوڑا جاسکتا ہے۔ اس تربیت کا فائدہ یہ ہوا کہ ماہی گیر کھلے سمندروں میں جالوں کو پھینکنے میں احتیاط کرنے لگے اور اب یہ بات بھی تصدیق شدہ ہے کہ اس ٹریننگ نے اتنا فائدہ دیا کہ اب کھلے سمندر کے پانی میں ڈالے جانے والے جالوں میں کچھوے نہیں پھنستے۔

معظم خان کے مطابق یہ اس ادارے کی اتنی بڑی کامیابی تھی کہ اس کے بعد ان کچھووں کی نسل میں اضافہ ہونے لگا۔ یہ کچھوے ہرے کھچووں کے مقابلے میں 4 گناہ زیادہ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ یہ اتنی بڑی تعداد میں اولف ویڈلی کہاں نیسٹنگ کرتی ہے؟ اس پر معظم خان کا کہنا تھا کہ شاید یہ ممکن ہے کہ ایسٹ کوسٹ انڈیا کی جانب یہ کچھوے چلے جاتے ہیں اور وہاں انڈے دیتے ہیں۔


پاکستان میں 5 قسم کے کچھوے پائے جاتے ہیں، جس میں گرین کچھوے، ایڈلی اولو، یہ کھلے سمندر میں ہوتے ہیں۔ گرین کچھوے سب سے عام ہیں، کیوں کہ اس کی چربی گرین ہوتی ہے مگر اس کا رنگ گرین نہیں ہوتا۔ دیگر 3 اقسام اتنی نایاب ہیں کہ وہ پاکستان کے علاوہ مشکل سے کسی دو یا تین ممالک میں ہوں گی۔ ہاکسبل کھچوے، لیدر بیک، لوگر ہیڈ بہت زیادہ خطرے میں ہے۔

ایک اور بات جو نہایت اہم ہے کہ جو مادہ کچھوے انڈے دینے کےلیے پاکستان کے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں سمندری گھاس کی ضرورت ہوتی ہے، جو عموماً پاکستانی سمندری علاقوں میں نہیں ملتی۔ تو جن علاقوں میں انہیں یہ سمندری گھاس ملتی ہے جیسے بھارت میں گجرات کا علاقہ، خلیج فارس کا ساحل، ریڈ سی میں صومالیہ مصر کا ساحل ان کی آماجگاہ ہے۔ مادہ کچھوے پاکستانی ساحل پر انڈے دینے کے بعد ان جگہوں کا رخ کرتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان میں اب بھی کچھووں کو اسمگل کیا جاتا ہے؟ جس پر معظم خان کا کہنا تھا کہ یہ پہلے ہوتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے، سمندری کچھووں کے بارے میں یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ قانون سخت ہونے پر اب یہ ممکن نہیں رہا۔ ہاں اِکا دُکا واقعات ایسے رپورٹ ہوئے تھے جس میں ہمیں پتا چلا تھا کہ لوگوں نے کچھووں کو اسمگل کرنے کی ناکام کوشش کے دوران انہیں سڑک پر ہی پھینک کر فرار ہوگئے تھے۔ یہ غالباً 2014 کا واقعہ ہے، جب بڑی تعداد میں نامعلوم ملزمان کراچی میں شہید ملت روڈ کے کنارے کچھووں کو ہھینک کر فرار ہوگئے تھے، ہمیں جب اطلاع ملی تو ہم نے وائلڈ لائف کی مدد سے ان کچھووں کو سکھر میں قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا تھا۔

میٹھے پانی کے کچھوے کے کیسز اِکا دُکا آجاتے ہیں مگر سمندری کچھووں کے کیسز اب نہیں آتے۔ ایسے کیسز میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور انھیں وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت سزائیں دی گئیں۔ 1973 سے سمندری کچھووں کی اسمگلنگ پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے، کیوں کہ یہ معدوم ہونے والی نسل میں شامل ہیں۔

ایسی جگہیں جہاں مادہ کچھوے انڈے دیتے ہیں وہاں اگر درجہ حرارت زیادہ ہو تو مادہ کچھوے پلاننگ سے انڈے دیتے ہیں۔ اگر فرض کریں کہ مادہ کچھوا ایسی جگہ موجود ہے جہاں درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہے تو مادہ کچھوے جتنے بھی انڈے دے گی وہ تمام کے تمام فیمیل ہوں گے۔ تاہم عام حالات میں یہ قدرت کا ایک عمل ہے کہ نارمل موسم میں یہ تناسب ایک میل اور ایک فیمیل کے حساب سے ہوتا ہے۔ مگر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں تمام انڈے فیمیل ہوتے ہیں۔ اور اگر زیاہ درجہ حرارت سے آنے والے دنوں میں تمام فیمیل کھچوے پیدا ہونے لگے تو پھر یہ نظام متاثر ہوگا۔

اسی لیے جب کچھووں کے انڈوں کو بریڈنگ کےلیے مٹی میں رکھا جائے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہاں بہت زیادہ درجہ حرارت نہ ہو اور انہیں قدرتی درجہ حرارت میں رکھا جائے۔ تاہم فوری طور پر ان کا اندازہ نہیں لگایا جاتا کیوں کہ وہ سب بہت چھوٹے ہوتے ہیں، بچوں کے تھوڑا بڑے ہونے پر یہ پھر واضح ہوجاتا ہے یا پھر جینیٹک تجزیہ کریں جو کہ بہت مہنگا طریقہ ہے۔

 

کچھوے سمندری ایکو سسٹم کےلیے اہم کیوں؟

ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ سمندری ماحولیاتی نظام (ایکوسسٹم) کو دوام بخشنے میں کچھووں کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ سمندری نظام کو تقویت دینے میں آبی مخلوقات ایک لڑی کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور سمندر میں انواع و اقسام کی مخلوقات کی موجودگی سے یہ نظام برقرار ہے۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں کچھووں کا عالمی دن 23 مئی کو منایا جاتا ہے، جب کہ 16 جون کو عالمی سطح پر سمندری کھچووں کی حالت زار سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں