دو راستے، فیصلہ آپ کا

اکثر انسانوں کا ایسا ماننا ہے کہ صرف کٹھن راہوں کی منزل ہی کامیابی ہوتی ہے


سیدہ شیریں شہاب January 18, 2025

مجموعی طور پر انسانوں کی اکثریت اپنی زندگی میں مشکلات کے مقابلے میں آسانیوں کو ترجیح دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے اس بات کا اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے کیونکہ کوئی انسان اگر محنت پسند نہ ہو تو بھی دنیا کے سامنے ’’ محنت میں عظمت ہے‘‘ کا راگ الاپنا بطورِ انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔

ہر انسان کو دنیا کی سرزمین پر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑنے کے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ بہ نسبت جسمانی مشقت انسان کے اعصاب کو زیادہ متاثرکرتی ہے۔ انسان کی طاقت کا سارا انحصار اُس کے اعصاب پر منحصر ہوتا ہے، اعصابی طور پرکمزور انسان کو کسی صورت طاقتور تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اپنی پیدائش سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک زندگی کے تمام ادوار میں انسان کے قابلِ توجہ ہر ادھورے کام کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے کے لیے دو طرح کے راستے اُس کے منتظر ہوتے ہیں، ایک آسان تو دوسرا تندہی کا تقاضا کرنے والا۔

اکثر انسانوں کا ایسا ماننا ہے کہ صرف کٹھن راہوں کی منزل ہی کامیابی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب اُن کا کوئی مقصد یا مطلوبہ شے باآسانی حاصل ہو جائے تو اُنھیں اُس کو پانے کے عمل پر ہی شک ہونے لگتا ہے۔ دراصل قومِ انسانی کی بڑی تعداد کا دشواریوں سے پاک راستوں کی منزل کو ناکامی کی دلدل سمجھنا ایک غلط سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 آسان اور مشکل راستے آگے قدم بڑھاتے ہوئے صحیح اور غلط میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح اور غلط یا اچھے اور برے راستوں کے کئی معنی نکلتے ہیں، ہر انسان کا صحیح اور غلط کے حوالے سے اپنا ایک الگ نظریہ ہوتا ہے جب کہ یہاں اخلاقی اعتبار سے کیا اچھا اورکیا برا ہے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انسان بن کر زندگی جینا، انسانی حدود کی خلاف ورزی سے گریز کرنا، اپنے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کے حقوق کو ہرگز پامال نہ کرنا، انسانیت کی عالمگیر تعریف ہے۔ صحیح اور غلط دراصل ہر اچھائی اور برائی کی بنیاد بنتے ہیں، وجود کی خوبصورتی اور بدصورتی کا سارا دارومدار اُس کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔

صحیح اور غلط راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے، اس معاملے میں دوسرے کا دخل بالکل حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ انسان اپنی زندگی قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنا چاہے تو راہوں کے کنکر بے معنی ہو جاتے ہیں، لیکن اگر وہ خاردار جھاڑیوں سے اپنے وجود کو زخمی کرنے پر تُلا ہو تو اُسے کوئی روک بھی نہیں سکتا ہے۔

انسان اپنی عادتوں کا غلام ہے، انسان کی عادات ہی اُس کی فطرت کو تشکیل دیتی ہیں۔ اچھی اور بری عادتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں اور ہر ایک قسم میں شدت کے اعتبار سے کمی اور زیادتی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

صحیح اور غلط راستوں کو اچھے اور برے میں منتقل کرنے کی پہلی سیڑھی سچ اور جھوٹ ہے اور یہی دونوں انسانی زندگی میں رمق یا افلاس لانے کا باعث بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سچ زندگی میں ہمیشہ خیر لاتا ہے، ہمارے دینِ اسلام میں سچ کہنا اور سچائی کا ساتھ دینا فرض قرار دیا گیا ہے۔

تلخ سچ محض آغاز میں انسان کے لیے دقت پیدا کرتا ہے مگر بعد میں راحت ہی راحت پہنچاتا ہے جب کہ جھوٹ صرف وقتی طور پر مصیبت سے بچاتا ہے لیکن زندگی بھر بے چینی اور بے سکونی اعصاب پر سوار رکھتا ہے۔ جس انسان کو جھوٹ کا سہارا لینے کی لت پڑ جائے تو وہ نادانستہ بات بہ بات بِلا ضرورت غلط بیانی کرتا پھرتا ہے۔

ایک جھوٹ سو جھوٹ کی وجہ بنتا ہے اور زندگی سے خیرکو رخصت کرتا ہے ساتھ کئی دوسری برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ سچ اور جھوٹ جب اپنی حدوں سے تجاوزکر جائیں تو وہ انسان کی فطرت کو ایمانداری یا بے ایمانی کا چوغہ پہنا دیتے ہیں۔ سچائی کے در سے گزرکر جب انسان ایمانداری کے اصول کو دل و جان سے اپناتا ہے تو اُس کے وجود پر ہمہ وقت سکون کا ڈیرا اور زندگی میں روشنی کا راج رہتا ہے۔

دوسری جانب جھوٹ کا کم مدتی سحر کب بے ایمانی کے اندھیرے میں ضم ہو جاتا ہے انسان کو معلوم ہی نہیں چلتا ہے اور جب اُسے ہوش آتا تب تک وہ اندھیرا وحشت ناک ذہنی اذیت میں بدل چکا ہوتا ہے۔

روشنی اور اندھیرے کی یہ جنگ ستائش اور حسد کی خلق کی وجہ بنتی ہے۔ ستائش کی شروعات رشک سے ہوتی ہے جو خالصتاً ایک مثبت احساس ہے۔ ستائش، رشک، سراہنا اور دوسروں کی خوشیوں میں مسرور ہونا انسانیت کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے جب کہ حسد انسان کا منتخب کیا گیا ہیجان خیز تجربہ ثابت ہوتا ہے جو اُس کے وجود میں آگ کو سُلگائے رکھتا ہے، دماغ میں آتش فشاں کو مسلسل دہکتا ہے اور وہ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔

اپنے ذات سے ہٹ کر ارد گرد کے لوگوں کی امنگوں کو اہمیت دینا انسان کے ظاہر و باطن کو معطر کرتا ہے، اس کے برعکس اپنا محل تیارکرنے کے چکر میں دوسروں کے مسکن کو تباہ و برباد کرنا خوشنما ظاہرکو بھی بدنما بنا دیتا ہے۔

 قرآنِ پاک میں خالقِ کائنات انسانوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’ اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ محبوبِ ربِ جہاں اور خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچ اور جھوٹ سے متعلق ارشادِ گرامی ہے، ’’ نیکی اور سچائی جنت میں لے جانے والی چیزیں ہیں جب کہ برائی اور جھوٹ جہنم میں لے جانے والی چیزیں ہیں۔‘‘

عظیم صوفی بزرگ، عالمی شہرتِ یافتہ فارسی شاعر اور مذہب اور فقہ کے بڑے عالم جلال الدین رومی کا جزوی و ابدی استراحت کے بارے میں ایک سنہری قول ہے، ’’ دنیا حاصل کرنا کوئی برائی نہیں لیکن جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے تو پھر سراسر خسارہ ہی ہے۔‘‘ حضرت رومی آسودگی اور دشواری کے موضوع پر شاعری کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اے! تیری ملاقات ہر سوال کا جواب

بے شک تجھ سے ہر مشکل حل ہوتی ہے

مولانا رومی اچھائی اور برائی کے تضاد کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں

بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہا

مختلف شکلوں کے صحیح و غلط کا درمیانی فرق اور اُن سے منسوب راحت و دشواری کی مثبت و منفی طبیعت جو زندگی میں اُجالے یا تاریکی لانے کا اصل فیصلہ کرتی ہے جس کی بدولت انسان کو کلی راحت یا اضطراب نصیب ہوتا ہے۔

انسان کو زندگی میں قدم قدم پر سیاہ اور سفید کی پہچان کروائی جاتی ہے، فائدے اور نقصان سے روبروکیا جاتا ہے، پھولوں کی نرمی اور کانٹوں کی چبھن کو محسوس کروایا جاتا ہے اور بار بارگرنے پر اُٹھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ جنت کی آرائش کے سامنے جہنم کی تپش کا انتخاب کرے تو اُس کی عقل پر ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں