یہ دنیا ہمیشہ سے ہی اعدادوشمار کے کھیل کی دیوانی رہی ہے۔ ترقی اور خوشحالی کے دعوے ہمیشہ ایسے ہی خشک اعداد کے سہارے کیے گئے ہیں جو بظاہر خوشنما لگتے ہیں لیکن حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اور عالمی ادارے جنھیں ہم ترقی کے پیمانے مانتے ہیں ہمیں بارہا یہ سمجھاتے ہیں کہ گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ یعنی جی ڈی پی کا بڑھنا ایک ملک کی خوشحالی کا مظہر ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ملک کی مجموعی معیشت کی تصویر پیش کرتے ہیں مگر اس تصویر کے پیچھے چھپے اندھیرے دکھ اور عدم مساوات کے داغ دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
جی ڈی پی کا مطلب ایک ملک کی مجموعی پیداوار سے ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ایک خاص وقت میں ملک نے کتنے معاشی وسائل پیدا کیے۔ یہ بڑے بڑے نمبر بلند و بانگ دعوے اور موٹے الفاظ کے ہیر پھیرکا نتیجہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اصل میں یہ ترقی ہے یا محض سراب۔ سوال یہ ہے کہ اگر معیشت بڑھ رہی ہے تو کیا ہر شخص کی حالت بہتر ہو رہی ہے؟ کیا یہ ترقی ان لوگوں تک پہنچ رہی ہے جو دن بھر محنت کرتے ہیں لیکن رات کو خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں؟
ہماری سڑکیں چوڑی ہو رہی ہیں شاپنگ مالز تعمیر ہو رہے ہیں اور کاروباری مراکز چمک رہے ہیں، لیکن اس چمک دمک کے نیچے گلیوں اور بستیوں میں بھوک مفلسی اور ناانصافی کے اندھیرے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ جی ڈی پی ان لوگوں کے آنسو نہیں گنتی جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ ان والدین کی چیخیں نہیں سنتی جو اپنے بچوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر خودکشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جی ڈی پی کے گراف میں ان بچوں کے نام نہیں ہوتے جو کم عمری میں مزدور بن جاتے ہیں نہ ہی ان ماؤں کے آنسو شامل ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیتی ہیں۔
جب ہم جی ڈی پی کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک بڑی تصویر دیکھتے ہیں مگر یہ تصویر صرف اوپری سطح کی ہے۔ اس تصویر میں وہ لوگ پوشیدہ رہتے ہیں جن کے کندھوں پر یہ نظام کھڑا ہے۔ ایک مزدور جو اپنی ہڈیوں کا گودا نکال کر دن رات مشقت کرتا ہے وہ جی ڈی پی میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ایک خاتون جو گھروں میں جھاڑو پونچھا کرتی ہے وہ ان اعداد و شمار میں غائب رہتی ہے۔ کسان جو زمین سے فصل اگاتا ہے لیکن خود فاقہ پر مجبور ہے، اس کی کہانی بھی ان گرافوں میں پوشیدہ ہے۔
اصل ترقی وہ نہیں ہوتی جو اشرافیہ کے محلوں کو سجائے بلکہ وہ ہوتی ہے جو ہر انسان کو عزت کے ساتھ جینے کا حق دے۔ معاشی ترقی کا مطلب صرف یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کے خزانے بھر رہے ہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر انسان کی زندگی بہتر ہو رہی ہے۔ اگر ملک کا جی ڈی پی بڑھ رہا ہے لیکن عوام کی حالت مزید خراب ہو رہی ہے تو پھر یہ ترقی کا کیسا جھوٹا خواب ہے؟
ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسے کئی خواب دیکھے ہیں جو جھوٹے نکلے، لیکن ایک خواب ایسا ہے جو ہمیشہ سچا رہے گا۔ یہ خواب ہے ایک ایسے سماج کا جہاں کوئی بھوکا نہ سوئے کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو اور کوئی ماں اپنی اولاد کی بھوک کی وجہ سے آنسو نہ بہائے۔ یہ خواب ایک ایسے سماج کا ہے جہاں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو جہاں غربت کو صرف اعداد و شمار کے گراف سے نہیں بلکہ حقیقت میں مٹایا جائے۔
ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی کو ان لوگوں تک پہنچائے جنھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے معاشی ماڈل کی ضرورت ہے جو صرف بڑے کاروباری اداروں اور اشرافیہ کو فائدہ نہ پہنچائے بلکہ غریب اور متوسط طبقے کی زندگیوں کو بدل دے۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو انسان کو اعداد و شمار سے بڑھ کر سمجھے جو انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے اور جو ہر شہری کو عزت سکون اور خوشحالی کا حق دے۔
یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ جب تک عدم مساوات ختم نہیں ہوگی ترقی کا کوئی بھی ماڈل مکمل نہیں ہوگا۔ سماج تبھی ترقی یافتہ کہلائے گا جب اس کے تمام افراد کو مساوی مواقع ملیں جب ہر شخص کو روٹی کپڑا اور مکان مہیا ہو اور جب ہر بچہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں حاصل کر سکے۔
ترقی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ چند لوگوں کے لیے دنیا جنت بن جائے اور باقی لوگوں کے لیے جہنم۔یہ باتیں صرف خواب نہیں ہیں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جنھیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اگر ہم خود کو بدلنے کا عزم کریں۔ ہمیں اپنے معاشی ماڈلز کو انسانی بنیادوں پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ ترقی صرف بلند عمارتوں بڑی سڑکوں اور جدید ٹیکنالوجی کا نام ہے۔ ترقی تبھی حقیقی ہوگی جب یہ ہر انسان کو فائدہ پہنچائے گی جب یہ ہر غریب کو بھوک سے نجات دلائے گی اور جب یہ ہر والدین کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہونے سے بچائے گی۔
یہ بات واضح ہے کہ جی ڈی پی اور دیگر معاشی اشارے ہماری اصل ترقی کو نہیں دکھا سکتے۔ اصل ترقی وہ ہے جو انسان کی روح کو سکون دے جو اس کے پیٹ کی بھوک مٹائے اور جو اس کے دل سے خوف کو نکال دے۔ ہمیں خواب دیکھنا ہوگا ایک ایسے سماج کا جہاں کسی کو بھوکا نہ سونا پڑے جہاں کوئی ماں اپنے بچوں کے لیے فکر مند نہ ہو اور جہاں کوئی باپ خودکشی کرنے پر مجبور نہ ہو۔ یہ خواب ہمارا حق ہے اور ہمیں اسے حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ معاشی ترقی کا مطلب صرف اعداد و شمار کی چمک دمک نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کی خوشحالی ہے۔ اگر ہم ایک ایسا سماج بنا سکیں جہاں کوئی بھوکا نہ ہو کوئی بے گھر نہ ہو، اور کوئی مایوس نہ ہو، تو ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حقیقی ترقی حاصل کی ہے۔ یہ ہمارا خواب ہے اور یہ خواب سچا ہو سکتا ہے اگر ہم سب مل کر کوشش کریں۔