حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات؛ کیا برف پگھل رہی ہے؟

موجودہ عمل نے فریقین کو مکالمے کی میز پر واپس بٹھایا ہے


شاہد کاظمی January 19, 2025

پاکستانی سیاست بنیادی طور پر تنازعات کے ایسے دیو قامت پلرز پہ کھڑی ہے کہ جو ہمیشہ زلزلے کی زد میں رہتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ ان تنازعات کو ہی کامیابی کی ضمانت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ان تنازعات کو ختم کرنے کے بجائے ان کو مختلف بیانات، نعروں اور فیصلوں سے نا صرف ہوا دی جاتی ہے بلکہ سلگتے انگاروں پہ پنکھا جھلا جاتا ہے کہ آگ بھڑکے نہیں تو پاکستان کی سیاست میں مزا نہیں آتا۔ کچھ ایسا ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حالیہ مذاکرات کے درمیان دیکھنے میں آیا۔ 


پاکستان کی سیاست میں 16 جنوری 2025 ایک اہم دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جب حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ یہ مذاکرات ایک عرصے سے جاری ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی امید کے ساتھ ہورہے ہیں، جہاں ملک کی دونوں بڑی قوتوں کے درمیان کشیدگی نے عوام کو مایوسی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ عوام کےلیے یہ خبریں کسی راحت سے کم نہیں تھیں، کیونکہ سیاسی استحکام کی طرف کوئی بھی قدم ملک کو درپیش معاشی اور سماجی چیلنجز کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس مثبت پیش رفت کے باوجود، سیاسی میدان میں احتیاط کا دامن چھوڑنا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ ماضی میں ایسی کوششیں بارہا ناکام ثابت ہوچکی ہیں۔

پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے تحریری صورت میں رکھے، جو بلاشبہ ماضی کے واقعات کی تحقیقات اور انصاف کے حصول کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان مطالبات میں خاص طور پر 9 مئی 2024 کے واقعات، مظاہرین پر طاقت کے استعمال، اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن جیسے معاملات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ گرفتار کارکنوں اور ان پر ہونے والے تشدد کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ میڈیا پر ممکنہ سنسر شپ اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے الزامات کی تحقیقات کی درخواست بھی سامنے آئی۔ یہ مطالبات سننے میں جمہوری اصولوں کے عین مطابق معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایک سیاسی پہلو بھی منسلک ہے جو سوال اٹھاتا ہے کہ ان مطالبات کے پیچھے مقاصد کتنے حقیقی ہیں؟

حکومت نے مذاکرات کے دوران کسی بھی قسم کی سختی یا غیر لچکدار رویہ اپنانے کے بجائے مثبت انداز اپنایا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے نہ صرف پی ٹی آئی کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا بلکہ یہ عندیہ بھی دیا کہ ان نکات پر مزید مشاورت کے لیے اپنی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ حکومتی رویہ اس بار نرم اور دانشمندانہ محسوس ہوا، جو موجودہ حالات میں بہت ضروری تھا۔ ماضی کی سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی نے سیاسی فریقین کے درمیان ایک وسیع خلا پیدا کر دیا تھا، اور اسے کم کرنے کے لیے ایسی ہی عملی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے اس نرمی نے عوامی حلقوں میں امید کی کرن پیدا کی ہے کہ شاید اب صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔

ایک اور بڑی پیش رفت تب ہوئی جب بانی تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پہلے انکار اور پھر اقرار کی صورت میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ یہ بیان کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کے علاوہ دیگر سطحوں پر بھی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ ملاقات اس بات کا اشارہ ہو سکتی ہے کہ معاملات کو بہتر سمت میں لے جانے کی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم، اس انکشاف کے بعد عوامی اور سیاسی حلقوں میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں۔

اس سوال کا جواب مکمل طور پر مثبت تو نہیں دیا جا سکتا، لیکن مذاکرات کے موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ برف پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی ایک مشکل لیکن ممکنہ عمل ہے، اور موجودہ حالات میں جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ اس اعتماد سازی کی جانب پہلا قدم ہو سکتی ہے۔ اگر یہ پیش رفت جاری رہی اور مذاکرات کے دوران اخلاص کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ بحران کا حل نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، اگر کوئی بھی فریق اپنی سیاسی برتری کے لیے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے نتائج مزید پیچیدگی پیدا کریں گے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ موجودہ مذاکراتی عمل مکمل طور پر محاذ آرائی کو ختم کر دے گا۔ ماضی میں بھی دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا، لیکن وہ جلد ہی بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ تاہم، موجودہ حالات میں دونوں طرف سے نرمی کا مظاہرہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کا اعتماد ان پر کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اگر موجودہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اس کا منفی اثر دونوں پر پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی فلاح کے لیے کام کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے مطالبات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان کے نزدیک انصاف صرف ان کے کارکنوں کے لیے محدود ہے؟ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے، لیکن کیا اس میں اس بات کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ مظاہروں کے دوران عوامی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار کون تھے؟ اگر واقعی انصاف کی بات کی جا رہی ہے تو اسے مکمل طور پر غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ یہ حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو نہ صرف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں بلکہ عوام کو یہ پیغام بھی دیں کہ قانون سب کےلیے برابر ہے۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات میں پی ٹی آئی کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اکثر اوقات اپنی ہی باتوں سے انحراف کیا۔ اگر موجودہ مذاکرات کو کامیاب بنانا ہے تو دونوں طرف سے اس بات کا مظاہرہ ضروری ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے۔ عوام نے دونوں سیاسی جماعتوں سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اگر وہ ایک بار پھر مایوس ہوئے تو اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔

حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ان مذاکرات کو کامیاب بناتے ہوئے ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جائے۔ موجودہ مذاکرات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہوگا کہ کیا حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے کر ایک جامع حکمت عملی اختیار کرے گی؟ اگر تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس بحران سے نکلنے کی کوشش کریں تو اس کا فائدہ پورے نظام کو ہوگا۔ تاہم، اگر یہ عمل صرف حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان محدود رہا تو اس کے اثرات محدود ہو سکتے ہیں۔

موجودہ حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ مذاکرات مکمل طور پر کامیاب ہوں گے یا نہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ موجودہ عمل نے دونوں فریقین کو مکالمے کی میز پر واپس بٹھایا ہے۔ اگر دونوں جانب سے مثبت رویہ برقرار رہا اور سیاسی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی گئی، تو موجودہ بحران کا حل ممکن ہے۔ سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک مزید محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ہر لمحہ جو ضائع ہو رہا ہے، وہ عوام کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔

یہ وقت ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اپنی سیاسی حکمت عملیوں سے بالاتر ہو کر عوامی مسائل پر توجہ دیں۔ عوام ایک طویل عرصے سے اس سیاسی محاذ آرائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو اس بحران سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ یہ فیصلہ کن لمحہ ہے، اور اگر دونوں فریقین نے موقع سے فائدہ اٹھایا تو یہ دن پاکستان کی تاریخ میں مثبت تبدیلی کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں