کامل سکوت
منافقت کا جو طاقتور کلچر ضیاء الحق نے خود سینچا تھا آج وہ تناور درخت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے۔
دانشور اپنے معاشرے کا اجتماعی شعور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے دائرہ میں اَن گنت لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ عام لوگ تو اپنا ذہن ان کی فکر کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ کئی بار تو ان کی زندگی کا دھارا تک تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ کسی بھی شخصیت یا واقعہ کو کوئی بھی خاص رنگ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کے قلم کی نوک تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور لافانی ہوتی ہے۔
اگر اس نوک پر ذاتی مفاد کی سیاہی چڑھ جائے تو یہ سماجی، سیاسی اور دینی بگاڑ کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ ایک بار، صرف ایک بار، آپ عصمتِ قلم پر کسی قسم کی مالی منفعت کا رنگ چڑھا لیں تو آپ بے تاثیر ہو جاتے ہیں اور بڑی حد تک بے توقیر بھی۔ ہمارا ملک اس طرح کی منفی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے برعکس بے شمار ایسے لکھاری اور اہل نظر بھی موجود ہیں جنکی حرمتِ قلم کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ اس طرح کے لوگوں کا اثر انتہائی غیر معمولی ہوتا ہے۔ یہ اپنے اپنے معاشروں کے فکری قائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مگر یہیں سے، ایک اور سنجیدہ مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ جہاں ہمارا معاشرہ ایک ذہنی جمود کا شکار ہے اور نئی بات سننے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے، وہاں ہمارے اہل قلم کی واضح اکثریت ایک فکری خاموشی کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ لوگ معاشرہ کی عمومی سوچ کے سیلِ رواں کے ساتھ چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کا کام ہر وہ بات لکھنا اور کہنا ہے، جس سے کسی قسم کا کوئی ارتعاش پیدا نہ ہو۔ میرے ذہن میں ہر وقت، آپ یقین فرمائیے، ہر وقت، صرف یہ خیال رہتا ہے کہ وہ لکھنے اور بولنے والے کہاں گئے، جو طوفان کھڑا کر دیتے تھے۔
جنھیں سننے کے بعد زبانیں گنگ ہو جاتی تھیں۔ اور جب آپ ان کی حقیقت پسندی کے جادو کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو انکو دھکے مار مار کر Y.M.C.A کے ہال سے نکال دیتے تھے۔ انھیں ہر مشکل کے پُل صراط سے گزارا جاتا تھا۔ وہ راندہ درگاہ علمی مسافر، ذلتوں کے قافلوں میں مسلسل سفر کرتے رہتے تھے۔ مگر وقت کی گرد ہٹنے پر وہی اہل صفا اور بے توقیر لوگ ملکوں کی اصل پہچان نظر آتے تھے۔ ہماری قوم کو ان جواہر نایاب کی پہچان کافی مدت کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم لوگ ہر نئی سوچ اور فکر سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مگر ان کا اس مختصر کالم میں احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ میں بلا خوف تردید یہ ضرور عرض کرونگا کہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں۔
اس کا اُن بڑے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں جو حقیقت میں اس کے معمار تھے۔ یہ سرسید اور محمد علی جناح کا پاکستان تو ہرگز نہیں ہے۔ میں سیاست کے طالبعلم کی حیثیت سے یہ کہونگا کہ یہ دراصل ضیاء الحق کا پاکستان ہے۔ اس شخص نے ہمارے ملک کی سوچ کے ساتھ بالکل وہی سلوک کیا، جو ریلوے کے انجینئر چلتے ہوئے ریلوے انجن کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ مشرق کی طرف جاتے ہوئے مضبوط انجن کو ریلوے یارڈ میں لیجا کر اسے مخالف سمت میں روانہ کر دیتے ہیں۔ انجن ایک گول چکر لگا کر خاموشی سے اس مخالف سمت کو اپنی منزل بنا لیتا ہے۔ کیا یہ بات فکر انگیز نہیں کہ آج ہمارے بیشتر طاقتور سیاستدان یا حکمران طبقات ضیاء الحق کے عملی مریدوں میں سے ہیں!
یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ منافقت کا جو طاقتور کلچر ضیاء الحق نے خود سینچا تھا آج وہ تناور درخت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمارے اہل علم بھی ان حادثات سے بچ نہیں پائے۔ سرکاری سطح پر ان لوگوں کو آگے لایا گیا جو داستان گوئی اور مبالغہ سے بھر پور حکایات کو سچ بنا کر عوام کے سامنے لا سکتے تھے۔ آج عمومی طور پر ان مخصوص طرز ِفکر کے لوگوں کی باتوں کو سچ سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ آپ کو ذرا سی بات پر خارج از دائرہ دین بھی کر سکتے ہیں۔ آپکی زندگی کو جہنم بھی بنا سکتے ہیں۔ ان کی شخصیات کے ارد گرد ایک کرخت پارسائی کا جعلی ہیولہ موجود رہتا ہے۔ جو لوگوں میں اعتماد کے بجائے خوف پھیلانے کا مرتکب رہتا ہے۔ نتیجہ ہم سے کے سامنے ہے! جتنا کم بولا جائے، اتنا ہی بہتر ہے!
نقیب محفوظ مصر میں1911ء میں پیدا ہوا۔ اس کا نام اس ڈاکٹر کے نام پر رکھا گیا جسکے ہاتھوں میں اس نے جنم لیا تھا۔ اس کا خاندان انتہائی مذہبی لگاؤ رکھتا تھا۔ اس کے سات بہن بھائی تھے۔ یہ تمام بچے ایک نہایت اعلیٰ درجے کے اسلامی ماحول میں پرورش پاتے رہے۔ نقیب محفوظ کئی جگہ لکھتا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دینی گھرانے میں ایک لکھاری جنم لیگا۔ اس کا تمام بچپن اَل جمالیا اور اَل عباسیہ جیسے رہائشی علاقوں میں بسر ہوا۔ اَل عباسیہ ُاس وقت قاہرہ کے مضافاتی علاقوں میں شمار ہوتا تھا۔ محفوظ کے والد ایک سرکاری ملازم تھے۔
اس کی والدہ اسے قاہرہ کے تمام عجائب گھروں میں لیجاتی تھی اور اسے مصری تاریخ کا سبق دیا کرتی تھی۔ یہی تاریخ اور عجائب گھر، محفوظ کے عظیم کام کی بنیاد بنے۔ وہ اوائل عمری میں حافظ نجیب اور طہٰ حسین سے متاثر تھا۔1919ء کے مصری انقلاب نے محفوظ پر بہت زیادہ اثر ڈالا۔ اس وقت اس کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اس نے برطانوی سپاہیوں کو سیاسی مظاہرین کو بے دریغ قتل کرتے دیکھا۔ اس دن سے آخری عمر تک وہ ایک انتہائی غیر محفوظ شخصیت کا مالک بن گیا۔
اس نے فہد یونیورسٹی سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم ختم کرنے کے بعد اس نے اَل رسالہ نام کے جریدہ میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ وہ اَل اہرام اور اَل ہلال میں بھی طبع آزمائی کرتا رہا۔ وہ کئی سال سائنس، زندگی، فلسفہ اور دین کے متعلق گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔ اس دور میں اس پر سلاماموسیٰ کا گہرا اثر رہا۔ وہ تیس برسوں تک مختلف سرکاری محکموں میں کام کرتا رہا۔ مگر ان تمام دہائیوں میں وہ ہر وقت تخلیقی جذب میں سرشار رہا۔
محفوظ نے34 ناول،350 کہانیاں، درجنوں فلموں کے مکالمے اور ڈرامے تحریر کیے۔ اس کا لکھنے کا عرصہ تقریباً ستر سال پر محیط تھا۔ اس نے مصر کی سوسائٹی، کلچر، تہذیب، وطن پرستی اور سماجی منافقت پر بے لاگ لکھا۔ اس نے کئی ایسے موضوعات بھی منتخب کیے جس پر لکھنا شجر ممنوعہ تھا۔ مصر میں کئی موضوعات پر اظہار خیال پر سرکاری پابندی تھی۔ مگر وہ مسلسل بے خوف لکھتا رہا۔ اس نے محسوس کیا کہ مصری معاشرہ پر مغربی تہذیب کی بہت گہری چھاپ ہے۔ وہ مصر کی پرانی تہذیب کو پسند کرتا تھا مگر وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرنے کا خواہش مند تھا۔
ابتدائی دور میں مغربی ممالک میں اسکو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس کے تمام کردار قاہرہ کے رہنے والے عام آدمی تھے جو مغربی تہذیب سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ قدیم اور جدید عہد کے درمیان تقسیم شدہ انسان تھے۔ محفوظ نے ان تمام کرداروں کو اپنے قلم سے لافانی بنا دیا۔ اس نے1950ء میں ایک عجیب ناول لکھا۔ یہ ایک امیر انسان اَل سید احمد عبدل گوارہ اور اس کے خاندان کے متعلق تھا۔ اس ناول کا نام "Cairio Triology' تھا۔ محفوظ نے لکھا کہ اس شخص کی تین نسلیں جو ایک ساتھ اور ایک ہی شہر میں رہ رہیں ہیں، ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہیں۔ ان میں کوئی بھی عنصر یکساں نہیں ہے۔
مصر کے حاکم فاروق کی حکومت ختم ہونے کے بعد محفوظ نے جمال عبدالناصر سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھیں تھیں۔ مگر وہ پوری نہ ہو سکیں۔ اس نے محسوس کیا کہ فاروق اگر ایک طرح کا بادشاہ تھا تو جمال عبدالناصر بھی ایک اور طرح کی ملوکیت پروان چڑھا رہا ہے۔ وہ بہت جلد ناصر کی پالیسیوں کا نقاد بن گیا۔ اس کا شہرہ آفاق ناول1959ء میں شایع ہوا۔ اس کا نام "Children of Gebelawi" تھا۔ اس کی شہرت کا سفر اس ناول سے شروع ہوا۔
اس کے بعد میں شایع ہونے والے ناولوں میں انسانیت، انسان کا تخلیقی سفر اور اس کے اندر کی آواز پر خصوصی زور دیا گیا۔ مگر ان تمام تحریروں میں ایک قدر مشترک تھی۔ یہ تمام اپنے اندر سیاسی رنگ رکھتی تھیں۔ محفوظ کہتا تھا کہ وہ اپنی تحریروں میں ہر اَمر سے صرفِ نظر کر سکتا ہے مگر وہ اس میں ملکی سیاست ضرور شامل کرتا ہے۔ اس نے مذہب شدت پسندی کے خلاف بھی قلم اٹھایا۔ وہ لکھتا رہا کہ شدت پسندی مصر کے معاشرہ کو تباہ کر دیگی۔ اس سوچ کے بالکل برعکس ایک زمانے میں محفوظ کے"سیدقطب" سے بہت اچھے مراسم تھے۔ مگر اپنے ناولوں میں اس نے "سیدقطب" کے خلاف کافی کچھ تحریر کیا۔
1988ء میں محفوظ کو ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ نوبل پرائز اسے نہیں ملا بلکہ پوری عرب دنیا اور بالخصوص اس کے ملک مصر کو ملا ہے۔ پیرانہ سالی کی بدولت، وہ نوبل پرائز ملنے کی تقریب میں شامل نہیں ہو سکا۔ اس کے متعلق نیوز ویک نے لکھا کہ محفوظ نے قاہرہ کی گلیاں، مساجد اور محلات کو مشہور برطانوی لکھاری ڈکنز کی مانند اَمر کر دیا ہے۔ چارلس ڈکنز نے لندن کے عام لوگوں، گلیوں اور عمارتوں پر بے انتہا جادوئی طرز پر لکھا ہے۔
انتہا پسندی کے خلاف مسلسل لکھنے پر وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر تھا۔ اس کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ایک دہشت گرد نے اس کی گردن پر خنجر سے وار کیا۔ اس وقت محفوظ کی عمر82 برس کی تھی۔ اس حملہ میں اس کے دائیں بازو کی رگوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اور وہ مسلسل لکھنے سے معذور ہو گیا۔ مگر اس کے باوجود وہ اب بولتا تھا اور اس کا نائب لکھتا جاتا تھا۔ مرتے دم تک کسی قسم کے ڈر یا خوف کا سایہ تک محفوظ کے نزدیک نہیں پھٹکا۔ محفوظ نے ہر دشوار سے دشوار سماجی عنوان پر لکھا۔
میں محفوظ کی لکھی ہوئی کئی باتوں سے مکمل اختلاف کرتا ہوں۔ اپنی تحریروں سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہچانی چاہیے۔ مگر اس عظیم قلمکار نے مصر کے فکری جمود کو پارا پارا کر ڈالا! میں جب اپنے ملک کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ایک ہنگامہ خیز خاموشی نظر آتی ہے۔ لکھنے کی آزادی تو بڑے دور کی بات ہے۔ یہاں تو سوچ پر بھی صدیوں کے تالے لگے ہوئے ہیں! بہت کم لوگ ہیں جو آزادیِ فکر کی مشکل گزرگاہ پر چلنے کی ہمت رکھتے ہیں! اکثریت وہی لگے بندھے تاریخی واقعات اور کہانیوں میں سے اپنا خیالی ہیرو تراشنے میں مصروف ہیں! کوئی بھی قلم کا نشتر لے کر سماج کے تہہ خانے کے پوشیدہ پہلوؤں پر لکھنے اور بولنے کی ہمت نہیں رکھتا! مجھے تو دور دور تک پاکستان میں کوئی نقیب محفوظ نظر نہیں آتا! شائد اب ہم فکری طور پر بنجر ہوچکے ہیں! ہر طرف کامل سکوت ہے!