القادر یونیورسٹی کیس کا فیصلہ تین بار مؤخر ہونے کے بعد بالآخر سنادیا گیاجس میں بانی پی ٹی آئی کو چودہ سال قید کی سزااوراُن کی زوجہ بشریٰ بی بی کوسات سال قید کی سزا سنادی گئی۔اس کیس سے متعلق حکومت اورپی ٹی آئی دونوں کا مؤقف ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔
پی ٹی آئی والوں کی نظر میں یہ ایک سیدھاسادہ کیس ہے اوراس معاملے میں کوئی کرپشن نہیں کی گئی ہے۔ ان کے مطابق برطانوی ایجنسی نے فیصلہ کرتے ہوئے اسے خفیہ رکھنے کو کہاتھااور190 ملین پاؤنڈز حکومت پاکستان کے حوالے کردیے تھے ۔ اس کے بعد یہ اب اس وقت کی حکومت کی صوابدید تھی کہ وہ اس پیسے کو کہاں کہاں استعمال کرے۔ اس وقت کی بھولی بھالی حکومت نے یہ سارا کاسارا پیسہ سپریم کورٹ میں جمع کروادیا۔پی ٹی آئی والوں کے خیال میں یہ کوئی بددیانتی نہیں ہے۔
مگر دوسرے فریق یعنی موجودہ حکومت نے اس کیس میں مؤقف یہ اختیار کیاہے کہ یہ پیسہ پاکستان کے عوام کا ہے اوراسے پاکستان کی حکومت کو ملنا چاہیے۔کہنے کو یہ رقم سپریم کورٹ یعنی پاکستان کو ہی ملی ہے لیکن عملاً اس کا فائدہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی اور ان کے ساتھیوں نے اٹھایا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے یہ کام کیوں کیا۔ حالانکہ وہ حکومت جو دن رات کرپشن کے خلاف بیانات دیاکرتی تھی ، اس نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی قوم سے چھپاکربلکہ اپنی کابینہ سے بھی چھپاکریہ کام کیا۔
خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کا نعرہ ہی کرپشن کے خلاف ہے اور وہ اب تک اس قسم کی ہی باتیں کرتے ہیں۔ اب اس معاملے میں وہ براہ راست فریق بنے ہوئے ہیں اور آخرکار فیصلے کا نتیجہ سب کے سامنے آ ہی گیا ہے اور انھیں سزا سنا دی گئی ہے جو کہ واضح ہے۔ یہ کیس بالکل صاف اورواضح ہے۔اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے،مگر جس طرح کوئی ملزم یامجرم مرتے دم تک اپنی غلطی یاجرم تسلیم نہیں کرتا یہاں بھی ویسے ہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ انھوں نے کوئی بددیانتی نہیںکی۔ یہ پی ٹی آئی کی پرانی پالیسی ہے کہ جو کچھ بھی ہو جائے، انھوں نے سچ کو تسلیم نہیں کرنا اور پراپیگنڈے کے محاذ پر سرگرم رہنا ہے۔
190 پاؤنڈز ملین کوئی معمولی رقم نہ تھی ۔ساٹھ ستر ارب پاکستانی روپے ایک بہت بڑی رقم تھی جو اگر قومی خزانے میں ڈالی جاتی تو اس قوم کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوسکتی تھی۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں نے یہاں بھی مذہبی اوراسلامک ٹچ کا سہارا لیا اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے نام پر القادرٹرسٹ بناکر خود کو اور اپنی شریک حیات کو اس کاٹرسٹی نامزد کردیا۔پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناجائز طریقوں اور پیسوں سے حاصل کر کے لوگ فلاحی کام شروع کر دیتے ہیں۔
اب اس معاملے میں بہتر فیصلہ تو اللہ کی ذات ہی کر سکتی ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ اگر کوئی اچھا کام ناجائز طریقے سے کیا جائے تو اسے بھی اچھا کہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص ساری زندگی ناجائز کام کرتارہے اورہرسال عمرہ اورحج پراسی پیسوں سے جاتارہے۔کیا وہ خود کو نیک اورپارسا یا صادق اورامین کہلانے کا حقدار سمجھ سکتا ہے۔
یہ فیصلہ اب اگلی کورٹ یعنی ہائیکورٹ میں پیش کیاجائے گا،اس کے بعد سپریم کورٹ میں، یعنی حتمی فیصلہ ہونے تک دوسے ڈھائی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس دوران سیاسی صورتحال تبدیل ہوجائے اورآج کے ملزم یا مجرم معصوم اوربے گناہ قراردے دیے جائیں۔ اس ملک میں ایسا ہونا ہرگز ناممکن یابعید از قیاس نہیں ہے۔
ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن فی الحال جسے سزا سنائی گئی ہے وہ اس وقت حکومتی تحویل اورقید میںہے۔صورتحال کے بدلے جانے کاامکان اُن مقتدر حلقوں پر ہے جن سے بات چیت کے لیے بانی پی ٹی آئی پہلے دن سے متمنی ہیں اورخواہش مند ہیں۔ وہ آج بھی حکومت سے مذاکرات کرنے کے بجائے اسی فریق سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ویسے بھی سیاسی فریقوں کے بیچ ہونے والے مذاکرات تو لگتا ہے صرف دکھاؤا ہے۔ دونوں فریق جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان مذاکرات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں دکھاؤے کے طورپر وہ یہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ اندرون خانہ تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدالت نے تو فیصلہ حقائق اور ثبوت کی بنیاد پر دینا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دونوں فریقوں کے کچھ لوگ ان مذاکرات کے حوالے سے نا اُمیدی پرمبنی اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک بانی پی ٹی آئی پابند سلاسل رہیں گے وہ سکون واطمینان کے ساتھ حکومت کرتی رہے گی، وہ اگر آزاد ہوگئے تو پھروہ یقینا مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔
یہ فیکٹر پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی اس حکومت کاساتھ نبھانے پرمجبور کیے ہوئے ہے۔بانی کی رہائی کے بعد ملک میںفساد اورانتشار کا بھی قوی امکان ہے۔ جن معاشی کامیابیوں کاذکر آج ہورہا ہے وہ سب کچھ معدوم ہوجائے گا اگر خان صاحب باہرآگئے۔ رہائی کے فوراً بعد وہی ہنگامہ آرائی پھرسے شروع ہوجائے گی جو اس ملک میںگزشتہ چار سالوں سے ہورہی تھی۔ ایک دن اورایک لمحہ بھی سکون سے نہیں گزرے گا۔
سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کابموجب بن جائے گااور قوم ایک بار پھرڈیفالٹ اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف کھانے لگے گی۔جو تھوڑی بہت اُمید معیشت کے حوالے سے آج بنی ہوئی ہے وہ ختم اورناپید ہوجائے گی ۔ ایسی صورت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے معاملے میں کسی لچک کا مظاہرہ نہ کرے اور قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔
بانی پی ٹی آئی کے بارے میں ہم وثوق اوریقین سے کہہ سکتے ہیں کہ رہاہوکر وہ چین سے ہرگز نہیں بیٹھے گا۔ان کی ماضی کی سیاست اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے ہر معاملے میں یو ٹرن لیا ہے۔انھوں نے پہلے نواز شریف حکومت کی ناک میں دم کیے رکھا اور اس کے بعد جب خود حکومت میں آئے تب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ناک میں دم کیے رکھا۔ اب بھی اگر وہ رہا ہوئے تو ماضی کی روایت پر عمل کریں گے اور اس حکومت کی ناک میں دم کر دیں گے۔ جس روز سے وہ سیاست میں مشہور اورمعروف ہوئے ہیں یعنی 2011 سے انھوں نے نے ایک دن بھی آرام سے نہیں گزارا۔ ہرروز کوئی بیان یا تقریر، کوئی لانگ مارچ یاجلوس اور ریلی ان کا مشغلہ رہا ہے۔
مسلسل احتجاجی سیاست ان کاوطیرہ رہا ہے، وہ اگر حکومت ہو یا حکومت میں نہ ہو، ڈی چوک ہی ان کا اصل ٹارگٹ ہے۔ 126دنوں کے کامیاب دھرنے کی وجہ سے وہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی اس ملک میں احتجاجی سیاست کرسکتے ہیں۔لہٰذا حکومت بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ اگرباہر آگئے تو وہ اس کاجینا دوبھر کردیں گے۔اب اگر مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں کسی کو غلط فہمی ہے تو اس سے باہر نکل آئے۔
نہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کی میز پروہ ساری بازی ہارجائے اورنہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ صورتحال جوں کی توں رہے۔ اس کے تمام مطالبات اگر مان بھی لیے جائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت ازخود رخصت ہوجائے اورخان صاحب دوبارہ برسراقتدار آجائیں۔ ایساصرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پس پردہ تیسرا فریق اس پرراضی اوررضامند ہوجائے جو فی الحال دکھائی نہیںدیتا۔آنے والے دنوں یا حالات کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ویسے بھی اس ملک میں سیاست سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا یا پیش گوئی کرنا قطعاً ناممکن ہے۔