ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ جیتنے کا مجرب نسخہ!

تمام ٹیموں سے ٹیسٹ میچز ملتان میں کھیلے جائیں


ویب ڈیسک January 20, 2025
فوٹو فائل

(تحریر: سہیل یعقوب)

پاکستان بہت آسانی سے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ جیت سکتا ہے۔ آپ یقیناً یہ سوال پوچھنا چاہیں گے کہ کیسے؟ اس کا جواب بہت ہی آسان ہے لیکن جواب پر آنے سے پہلے میں آپ کو ایک لطیفہ پڑھوانا چاہوں گا۔

لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب ایک بچے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے والدین کیا کام کرتے ہیں؟ بچہ جواب دیتا ہے کہ اس کی والدہ دلہن تیار کرتی ہیں۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ اچھا ان کا بیوٹی پارلر ہے اور والد؟ اس پر بچہ کہتا ہے کہ وہ دلہا تیار کرتے ہیں۔ اس پر وہ صاحب کہتے ہیں کہ اچھا کیا ان کا بھی بیوٹی پارلر ہے؟ بچہ کہتا ہے کہ نہیں وہ حکیم ہیں۔

آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس لطیفے کا ورلڈ چیمپئن شپ سے بھلا کیا تعلق؟ امید ہے کہ تحریر کے اختتام تک یہ تعلق نہ صرف قائم ہوجائے گا بلکہ آپ اسے سمجھ بھی جائیں گے۔

اب ہم اپنی تحریر کے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان کیسے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ جیت سکتا ہے؟ بہت ہی سادہ اور آسان سی ترکیب ہے کہ تمام ٹیموں سے ٹیسٹ میچز ملتان میں کھیلے جائیں۔ تمام ٹیسٹ ڈھائی سے تین دن میں ختم ہوجائیں گے اور ایک دو مہینے میں ہی ہماری قومی ٹیم اتنے پوائنٹ حاصل کرلے گی کہ کوئی اس کا مقابلہ ہی نہ کرپائے گا اور یوں ہم فائنل میں پہنچ جائیں گے۔ میچ کا طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اتنے رن بنا لیں کہ دوسری دفعہ باری کی نوبت ہی نہ آئے اور ہم مخالف ٹیم کو دو دفعہ آؤٹ کرلیں اور اگر تھوڑے بہت رن بنانے کی نوبت آئی بھی تو ہمارے شروع کے کھلاڑی نہ سہی آخر والے تو وہ رن بنا ہی دیتے ہیں۔

ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر دفعہ ٹاس ہم ہی جیتیں؟ لیکن آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں ہمارے پاس اس کا بھی حل ہے۔ امیتابھ بچن اور شعلے کے رمیش سپی کے پاس وہ دونوں طرف ہیڈ (سر) والا سکہ ویسے بھی فارغ پڑا ہے، ہم اسے ٹاس کےلیے استعمال کریں گے تاکہ ہر دفعہ ٹاس جیتا جاسکے۔ آپ پریشان نہ ہوں دنیا کو اس کی عادت ہے کیونکہ جب بھی کوئی بڑی طاقت اپنی بات منوانا چاہتی ہے تو اقوام متحدہ کو سکے کی طرح استعمال کرتی ہے اور ہر دفعہ اس پر وہی رخ آتا ہے جو بڑی طاقت چاہتی ہے اور دیگر ممالک دھرمیندر کی طرح بغیر سکہ دیکھے بات قبول کرلیتے ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کا ذکر آنے سے بات خوامخواہ سیاسی ہوگئی۔ کیا کریں ہمارے خون میں ہی سیاست ہے۔ اس تحریر سے پہلے میں نے سوچا کہ خون تبدیل کروا لوں لیکن ایک تو اس ملک میں غیر سیاسی خون ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور ویسے بھی اگر نئے خون کے ساتھ لسانی، علاقائی اور برادری کے جراثیم آگئے تو نئی مشکل ہوگی۔ ہمارے ملک میں ویسے بھی ہم کھیل کو سیاست کی طرح کھیلتے ہیں اور سیاست کو کھیل کی طرح، اسی لیے ملک کا یہ حال ہے۔

آپ نے دیکھا کہ پھر بات اِدھر اُدھر چلی گئی۔ ہم دوبارہ موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ ایک دن میں دو ٹیسٹ کرواتے ہیں، ایک ٹیم کے ساتھ صبح اور دوسری کے ساتھ شام کو، مگر پھر ارادہ بدل دیا کہ ہوسکتا ہے کہ آئی سی سی کو اس پر اعتراض ہو اور دوسرا یہ بھی کہ ایک ٹیسٹ کےلیے ٹیم کی فٹنس اتنی مشکل سے حاصل ہوتی ہے تو دو ٹیسٹ ایک ساتھ سے کہیں پوری ٹیم اسپتال میں ہی نہ پہنچ جائے، اس لیے تجویز بدل دی۔

آخر میں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل ملتان ہی میں کھیلا جائے۔ ملتان شہر ویسے بھی گیلانی صاحب کی حکومت کے بعد سے دلہن کی طرح تیار اور خوبصورت ہے اور باقی گراؤنڈ کے پچ کیوریٹر تو ہے ہی۔ وہ گراؤنڈ اور ہماری ٹیم کو دلہا تیار کرنے والے کی طرح شادی کےلیے، میرا مطلب ہے ٹیسٹ اور میچ کےلیے تیار کردیں گے اور اب ہمیں ٹیسٹ چیمپئن شپ جیتنے سے آئی سی سی کیا، پوری اے بی سی ڈی میں سے بھی کوئی نہیں ہرا سکتا۔ امید ہے کہ یہ پڑھنے کے بعد آپ کو ٹیسٹ چیمپئن شپ اور لطیفے میں تعلق نظر آگیا ہوگا۔

اگر اس تجویز کے عوض پی سی بی فدوی کو کوئی انعام، اعزاز یا ایوارڈ دینا چاہے تو میں واشگاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کرنا چاہوں گا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس اب جلد از جلد اس ترکیب پر عمل ہوجانا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ترکیب پڑھ کر کوئی اور ملک ہماری حکومت سے ملتان اسٹیڈیم ہی خرید لے۔ کیونکہ آج کل ہماری حکومت نجکاری کے نام پر سب کچھ بیچنے کو تیار ہے اور اگر کسی اور ملک نے ملتان اسٹیڈیم خرید کر اس ترکیب کے ذریعے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن جیت لی تو فدوی پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔