طالبان کے سینیئر رہنما اور وزارت خارجہ کے نائب وزیر برائے سیاسی امور شیر محمد عباس ستانکزئی نے اپنی قیادت پر زور دیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر نظر ثانی کی جائے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شیر محمد عباس ستانکزئی نے صوبہ خوست میں مذہبی اسکول کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جاری رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
لڑکیوں پر تعلیم کی پابندی کو واپس لینے پر زور دیتے ہوئے شیر عباس ستانکزئی نے اپنی قیادت سے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر نظر ثانی کریں اس کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں ہے۔
شیر محمد عباس ستانکزئی نے اپنی تقریر سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کی جس میں کہا گیا کہ ہم 40 ملین کی آبادی میں سے 20 ملین لوگوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں، انہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔
نائب وزیر نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے متعلق مزید کہا کہ یہ اسلامی قانون نہیں ہے بلکہ ہماری ذاتی پسند یا فطرت ہے۔
شیر محمد عباس کا یہ بیان جس میں امیرِ طالبان ہبتہ اللہ اخوند زادہ سے پہلی بار براہ راست اپیل کی گئی ہے، کو پالیسی میں تبدیلی کے لیے ایک اہم کال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے فوری بعد چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی۔
اسی طرح خواتین کی کابل یونیورسٹی جیسے اداروں میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی سے روکنے کے لیے پابندیوں پر بھی توسیع کی جاتی رہی ہے۔
اس سے قبل بھی عباس ستانکزئی خواتین کی تعلیم کے حق میں بات کرچکے ہیں لیکن قیادت سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
شیر محمد عباس ستانکزئی کو طالبان کے اصلاح پسند رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ رہے ہیں۔
شیر محمد عباس ستانکزئی کی سربراہی میں ہی طالبان کے امریکا کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور پھر امن معاہدہ بھی طے پایا تھا۔