آئین نیا یا پرانا نہیں ہوتا
1962 کا جو آئین صدر ایوب نے دیا وہ بہت حد تک ماڈرن اور سب سے زیادہ سیکولر تھا۔
FAISALABAD:
کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس ملک کو ایک نیا آئین دیا جائے، اس لیے کہ اس آئین میں اتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ اب یہ اول تو کسی عمل کے قابل نہیں رہا اور اگر ہے تو کسی بھی صورت اس ملک کو مہذب دنیا کے شانہ بہ شانہ کھڑا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ان کی اس رائے کا احترام اپنی جگہ، پر وہ بھول جاتے ہیں کہ ہر آئین کے آنے کے مخصوص حالات ہوتے ہیں جیساکہ جب نیا ملک تشکیل میں آتا ہے یا خانہ جنگی سے گزرتا ہے تو پھر سے ایک عمرانی معاہدہ مختلف مزاج و ثقافت کے لوگوں کو ایک ساتھ رہنے کے لیے کرنا پڑتا ہے اور ایسا آئین یا سماجی معاہدہ سب لوگوں کی رضا خوشی و افہام و تفہیم سے معرض وجود میں آتا ہے اور تیسری خاص بات کہ آئین خود سائنس کے تابع ہوتا ہے۔ اس کے اندر منطق کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے ہر پہلو سے بخوبی آشنائی رکھتا ہے اور اسے اور وسیع کرتا جاتا ہے۔ اس لیے آئین وہ چاہے فرانس کا ہو، جرمنی کا، امریکا کا، برطانیہ یا ہندوستان کا ہو، ہر آئین میں اب بہت کچھ ایک جیسا ہے ماسوائے اس کے ہر قوم کے اپنے تاریخی و ثقافتی حقائق ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر بنیادی حقوق۔ اب یہ آفاقی حقیقت بن کر ابھر چکے ہیں اور ہر ایسے مہذب ملک کے آئین کے اندر موجود ہیں، ہر ملک نے اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے حوالے سے دیے چارٹر پر دستخط کیے ہوئے ہیں، اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اپنے ملک کے آئین میں ایسے بنیادی حقوق کو حصہ بنائیں گے۔ دنیا کے ہر مہذب آئین میں تین بنیادی ادارے ہوتے ہیں جن کے اختیارات میں واضح تقسیم کی ہوئی ہوتی ہے۔
عدالتوں کا کام ہے تشریح کرنا اس قانون کی جو پارلیمنٹ بناتی ہے، تو حکومت کا کام ہے ایسے بنے ہوئے و تشریح کیے ہوئے قانون و آئین پر عملدرآمد کرنا۔ مہذب دنیا کے باقی آئین کی طرح ہمارا آئین بھی یہ سارے پہلو بھی اپنے وجود کے اندر رکھتا ہے۔ آج کے مہذب آئین کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ جامد و ساکن نہیں ہوتا۔ وہ چاہے سو سال پرانا ہو، وہ ہر عہد میں نئے حقائق میں اپنی نئی تشریح کرنے کی اندر سے صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سارے منظر کو انگریزی میں Organic Whole کہا جاتا ہے۔
یہ تو تھی ایک حقیقت لیکن دوسری حقیقت تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے آئین کو محدود، جامد و ساکن کرنے کی ہمیشہ ایک کوشش کی گئی ہے، وہ چاہے یہاں ہو، ہندوستان میں ہو یا امریکا میں لیکن پھر یہ سہرا کورٹ پر آیا ہے کہ وہ ایسا ہونے سے آئین کو بچاتی رہی ہے۔ اور ایسے بھی ہوا ہے بالخصوص پاکستان میں کہ جہاں سب سے پہلے کسی بھی شب خون کو نظریہ ضرورت کے تحت Immunity دی گئی ہے۔ یہ کہنا کہ ضیا الحق نے آئین میں بگاڑ پیدا کیا ہے، یہ آئینی و قانونی اعتبار سے صحیح نہیں ہوگا خواہ یہ حقیقت کتنی بھی سیاسی اعتبار سے صحیح ہو۔ اس لیے کہ آٹھویں ترمیم کسی اور نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے منظور کی تھی اور اس ترمیم کو پروسیجر آئین کے مطابق دیا گیا تھا۔
امریکا میں کورٹ نے Judicial Review کا حق آئین کی تشریح کے لیے عمل میں حاصل کیا تھا۔ پارلیمنٹ نے بار بار کہا کہ وہ سپریم ہے تو کورٹ نے کہا نہیں، آئین سپریم ہے۔ اس طرح کی بحث ہندوستان میں 1973 میں ابھری اور کورٹ نے اپنی آزاد حیثیت منوا لی۔ ہمارے ہاں اول تو ایسے ممکن نہ تھا کیونکہ خود آئین یہاں یرغمال ہوتا رہا۔ بڑی مشکل سے اسے نظریہ ضرورت کے تحت بحال کرایا گیا اور ساتھ آئین میں آٹھویں ترمیم جیسی ترامیم بھی ہوئیں جو آئین کی جڑوں میں بیٹھ گئیں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999 والے شب خون کو Immunity بھی دی گئی ۔ یوں کہیے ہمارے ہاں ابھی نظریہ ضرورت ماضی نہیں ہوا۔ خواہ کتنے بھی نئے آئین لائے جائیں، ان پر نظریہ ضرورت کی تلوار لٹکتی رہے گی اور جب تک یہ تلوار لٹکتی رہے گی اس وقت تک نئے آئین کی بحث غیر فطری ہے۔ جب یہ تلوار ماند پڑ جائے گی تو پھر بھی نیا آئین لانے کی ضرورت نہیں، خود یہ آئین اتنا وسیع، منطقی اور یونیورسل قانون کی حکمرانی والے سارے پہلو رکھتا ہے کہ اسے اگر پارلیمنٹ چاہے کہ وہ ساری ترامیم جس سے آئین کی روح مسخ ہوئی ہے نکال نہ سکے، کورٹ بنیادی ڈھانچے کی ڈاکٹرین کے ذریعے اسے صاف کرسکتی ہے۔
ہمارے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بینچ نے آرٹیکل 20 کو پہلی مرتبہ بہت وسیع کیا اور اس ملک کے اندر مذہبی رواداری کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جو آگے جاکر بہت سارے فیصلوں پر اثرانداز ہوگا اور اس طرح سے ہم اپنے آئین کو Organic Whole بناتے ہوئے ایک مہذب اور ترقی پذیر ملک و معاشرہ جنم دے سکتے ہیں، جو خود 7 فیصد کی شرح نمو کو یقینی بنائے گا اور لوگوں کو پیداواری عمل میں لانے کے لیے معاشی انصاف فراہم کرے گا۔
بدنصیبی سے ہم بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی بحران نے 26 سال لگائے اس ملک کو حقیقی آئین دینے میں۔ اس ملک کے سیاسی بحران بھی خود اس لیے شروع ہوئے کہ پہلی آئین ساز اسمبلی نے آئین دینے سے فراریت اختیار کی۔ 1956 میں بالآخر آئین متفقہ طور پر دیا گیا لیکن تب تک سیاسی بحران سے جو خلا پیدا ہوا، اس نے ڈی فیکٹیو طاقت کو جنم دیا اور دنیا نے مخصوص سرد جنگ کے پس منظر میں اس ڈی فیکٹیو پاور نے سپر طاقت کے ساتھ جوڑ کر بالآخر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
1962 کا جو آئین صدر ایوب نے دیا وہ بہت حد تک ماڈرن اور سب سے زیادہ سیکولر تھا۔ مگر وہ آئین بنانے کی بنیادی حقیقت یعنی Consensus Document نہیں تھا۔ جسے پھر جنرل یحییٰ نے Suspend کیا۔ 1973 کے آئین کو دو بڑے جھٹکے مارشل لاؤں کے آئے لیکن وہ اپنی زندگی اس لیے بچا سکا کہ وہ Consensus Document تھا۔ جو حقیقت اس وقت میرے سامنے موجود ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی نئے آئین کو لانے کے لیے سب لوگ متفق نہیں ہوسکتے۔ اس حوالے سے بھی نیا آئین لانا ناممکن ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھ آنا چاہیے کہ آئین کوئی چھوٹی سی کتاب کا نام نہیں بلکہ یہ سماج کی موجودہ شکل کا آئینہ ہے۔ آئین اور کورٹ کی تشریحات ایک ہی چیز ہیں۔ اس لیے جو بھی ہزاروں PLD جیسے کتابوں میں مختلف تشریحات مختلف قوانین کے پس منظر میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ نے کی ہیں وہ بھی آئین کے پس منظر ہی ہیں۔ آئین ایک فرد کو جب حقوق دے رہا ہوتا ہے تو ساتھ ساتھ اس پر ذمے داریاں بھی عائد کر رہا ہوتا ہے۔
حال ہی میں پارلیمنٹ نے PPA 2014 کے نام سے ایک ایسا قانون پاس کیا ہے جو نہ صرف آئین سے متصادم ہے بلکہ اس نے آئین کے بہت سارے آرٹیکل منجمد کردیے ہیں، اور وہ بھی ایسے آرٹیکل جیسا کہ آرٹیکل 10(2)، 25(9) وغیرہ جو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں جاتے ہیں۔ تو یوں کہیے کہ وہ کام جو آئین کے آرٹیکل 238 کے تحت ترمیم لا کے بھی نہیں کیا جاسکتا وہ کام سادہ اکثریت سے ایک ایکٹ پاس کرکے کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ایکٹ پر عملدرآمد رکوایا جائے اور فل بینچ تشکیل دے کر آرٹیکل 104(3) کے تحت پبلک انٹرسٹ پٹیشن کے ذریعے، جو آج کل مختلف لوگ کورٹس میں داخل کر رہے ہیں اسے سنا اور ملک کو پھر اس غیر روایتی شب خون کے بھنور سے نکالا جائے۔
ایک طرف تو بعض سیاسی پارٹیاں یہ وکالت کر رہی ہیں کہ فاٹا کو غیر مہذب قوانین کے دلدل سے نکالا جائے تو دوسری طرف سارے پاکستان کو PPA جیسے غیر مہذب وکالے قانون کے بھنور میں پھنسانے میں برابر کی شریک ہیں۔
آئین میری نظر میں نیا یا پرانا نہیں ہوتا۔ وہ سماج کی ارتقا کے ساتھ خود بھی ارتقا کر رہا ہوتا ہے یہی وجہ ہے امریکا کا آئین دو سو سال پرانا ہے لیکن ترامیم و تشریح کے ذریعے وہ آج کے مہذب سماج کی عکاسی کر رہا ہے۔ ہمیں بھی یہی راستہ اپنانا ہوگا۔