اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت میں میاں شہباز شریف وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے اور تمام اتحادی پارٹیوں کو وزارتیں دی گئی تھیں۔
جے یو آئی کو بھی چوتھے نمبر کی نشستوں پر پانچ وزارتیں ملی تھیں اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سب نے ہی حکومت میں وزیروں کے علاوہ مشیروں اور معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے اپنے لوگ بھر دیے تھے اور پیپلز پارٹی نے اکٹھے بارہ معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے لوگوں کو نوازنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور کسی اتحادی پارٹی نے یہ احساس نہیں کیا تھا کہ ملک کی معاشی حالت نہایت ابتر تھی جس کا ذمے دار وہ پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ حکومت قرضے لے کر اپنے افسروں اور ملازمین کو تنخواہ دینے پر مجبور ہے۔
ملک کی معیشت تباہی کا شکار اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اس بری حالت میں بھی تمام اتحادی پارٹیوں نے اپنے لوگ حکومت میں داخل کرا کر حکومتی اخراجات بڑھائے تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے امداد اور قرضوں کے لیے دوست ممالک کے دورے شروع کیے تھے اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی 16 ماہ میں ریکارڈ غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ بنایا تھا اور اپنے طور پر دنیا میں پاکستان کو اہمیت دلائی تھی جب کہ موجودہ وزیر خارجہ جنھیں صرف وزارت خزانہ سے دلچسپی ہوتی ہے انھوں نے برائے نام ہی غیر ملکی دورے کیے ہیں البتہ بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ زیادہ وقت غیر ملکی دوروں میں گزارا تھا اور مفتاح اسماعیل کو 6 ماہ بعد ہٹا کر میاں نواز شریف کے سمدھی کو بلا کر وزارت خزانہ سونپی گئی تھی۔
مگر ایک سال سے زائد عرصہ وزیر اعظم کے قریب رہ کر انھوں نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت میں اپنے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ختم کرا کر اپنی جائیدادیں اور منجمد اثاثے ضرور بحال کرا لیے تھے ۔پی ڈی ایم حکومت میں مصدق ملک ہی وزیر توانائی بنائے گئے تھے اور حکومت کے 6 ماہ بعد جب سردیوں میں سوئی گیس کا بحران شروع ہوا تو انھوں نے ملک میں گیس نہ ہونے اور بروقت قطر سے این ایل جی نہ خریدنے کا الزام لگا کر وجوہات یہ پیش کی تھیں کہ سابق حکومت نے بروقت گیس نہیں خریدی اور پی ڈی ایم حکومت کو دنیا میں مہنگے داموں بھی گیس نہیں مل رہی تھی جس جواز کو تسلیم کرکے عوام نے سردیوں بڑی مشکل سے سوئی گیس کے بغیر اذیت میں حکومتی وزیر کی باتوں پر یقین کرکے گزاری تھی۔
بڑے دعوؤں کے ساتھ سوئی گیس کی فراہمی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اور گیس فراہمی کا جو شیڈول دیا گیا تھا اس شیڈول پر بھی گھروں میں سوئی گیس نہیں ہوتی تھی اور لوگوں نے دیے گئے شیڈول میں اپنے گھروں میں گیس دیکھی ہی نہیں تھی۔
حکومتی شیڈول صرف دکھاوے کا تھا جس پر محکمہ عمل کرانے میں ناکام رہا تھا اور گرمیوں میں گیس کی کھپت کم اور بجلی کی زیادہ ہوتی ہے مگر اتحادی حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی جب کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق بجلی بہت مہنگی ضرور ہے مگر بجلی کی کمی نہیں ہے۔
اگست 2023 تک اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت آئی تھی جو نوے روز کے بجائے 6 ماہ فروری 2024 تک قائم تھی جس کے دور میں بھی سردی آئی تھی اور نگراں وزیر اعظم کہیں سے گیس خریدنے کے بجائے غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے اور ان کے دور کے وزیر توانائی نے بھی ملک کے عوام کو سردیوں میں گیس فراہم کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔
لوگ نگراں دور کی سردیوں میں ٹھٹھرتے رہے گیزروں اور ہیٹروں کو تو کیا لوگوں کو اپنے گھروں کے چولہوں کے لیے گیس دستیاب نہیں تھی اور اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت کا زور بھی بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے پر رہا۔
انھیں گیس فراہمی کا انتظام کرنے کے بجائے مہنگائی کا ریکارڈ بنایا۔ عوام کی پریشانیاں مزید بڑھائیں ، گیس کا بحران اور نرخ بڑھے اور نگران دور کی سردیاں بھی عوام نے گیس کے بغیر بازاروں سے مہنگے سلنڈر اور مہنگی گیس خرید کر گزارا کیا اور 8 فروری کے الیکشن کے بعد پی پی نے پھر ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم کرائی آئینی عہدے لے کر (ن) لیگی حکومت کو عوام کی ناراضی کے لیے چھوڑ دیا جس نے پھر مصدق ملک کو وہی پرانی ذمے داری دی مگر پھر بھی کسی بیرونی ملک سے ضرورت کے مطابق گیس خریدنے پر توجہ نہیں دی گئی۔
روس سے گیس کی خریداری کی باتیں عوام کو سنائی جاتی رہیں کہیں باہر سے گیس خریدی گئی نہ ملک میں دستیاب گیس کی فراہمی کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی مگر ملک میں گرمیوں میں بھی گیس عوام کو فراہم نہیں کی گئی۔
(ن) لیگی حکومت نے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ بجلی کی برقرار رکھی اور نومبر میں تیسری حکومت میں تیسری سردیاں آگئیں مگر اس بار حکومت نے عوام کو گیس فراہمی کا کوئی شیڈول شاید اس لیے نہیں دیا کہ اتحادی حکومت میں دیے گئے سوئی گیس فراہمی کے سرکاری شیڈول پر پہلے ہی عمل نہیں ہوا تھا صرف میڈیا پر اشتہار چلے تھے مگر شیڈول کے مطابق ملک بھر میں اس بار بھی سوئی گیس دستیاب نہیں حالانکہ سردیوں کی شدت دسمبر میں بڑھی ہے۔
لاہور اور کراچی میں رات 9 بجے گیس چلے جانا اور رات گزار کر صبح6 بجے گیس آ جانا تو معمول تھا ہی مگر جنوری میں دوپہر کو گھروں کو سوئی گیس دستیاب نہیں اور گرمیوں میں بجلی کی طرح گیس کی آنکھ مچولی جاری ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے بعد ان کے مخالفین کی تیسری حکومت اور تیسری سردیاں ہیں مگر لوگوں کو گھروں میں چولہوں کے لیے اب بھی سوئی گیس دستیاب نہیں مگر حکومت کو گیس کے نرخ بڑھانا یاد رہا۔ اس بار بھی قطر، روس کہیں سے گیس ملک کے عوام کے لیے حاصل نہیں کی گئی اور ڈیڑھ دو ماہ بعد پھر گرمیوں نے آنا ہے مگر گھروں میں گیس ضرورت کے مطابق میسر نہیں ہوگی۔