Oligarchy حکومت

کینیڈا خود مختار جمہوری ملک ہے جہاں مضبوط جمہوری روایات ہیں۔



ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 47 ویں صدر بن گئے۔ امریکا کی تاریخ میں پہلی دفعہ اخلاقی جرائم میں سزا یافتہ شخص کو امریکا کا دوسری دفعہ صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ صدر ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمٹ اور بڑے امریکی میڈیا ہاؤسزکی مخالفت کے باوجود وائٹ ہاؤس میں داخل ہوجائیں گے۔

صدر ٹرمپ کے بارے میں جو پیشگوئی کی جا رہی تھی، انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں اس پیشگوئی کو پورا کردیا۔ صدر ٹرمپ نے اب تک جو تقرریاں کی ہیں وہ خاصی حد تک متنازع سمجھی جاتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پینٹاگون کی سربراہی کے لیے Pete Hegseth کو نامزد کیا ہے۔ پیٹ ہاسٹ پر بے پناہ شراب پینے اورکئی جنسی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران Make America Great Again (MAGA) کے نعرے کے ذریعے سفید فام اکثریت کو اپنا ہم نوا بنایا تھا مگر ٹرمپ دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں جو اعلان کررہے ہیں اگر انھوں نے سنجیدگی سے اپنے اعلانات کو عملی شکل دینے کی کوشش کی تو پھر امریکا کے علاوہ براعظم یورپ اور کئی ایشیائی ممالک اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور انتخابات میں کامیابی کے بعد پڑوسی ملک کینیڈا کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست بن جانا چاہیے۔

کینیڈا کی ایک اپنی طویل تاریخ ہے۔ یورپ سے آئے ہوئے لوگوں نے 1534 میں اسے فتح کیا تھا۔ اس وقت یہ سرزمین فرانسیسی نوآبادی کہلاتی تھی۔ کینیڈا میں 1608 میں یورپ سے آنے والے لوگوں کی مستقل آبادکاری کا آغاز ہوا تھا۔ فرانس اور برطانیہ کے درمیان 7سال تک جاری رہنے کے بعد پیرس معاہدے کے تحت کینیڈا برطانیہ کی نوآبادی بنا۔ تب سے اب تک کینیڈا برطانیہ کی اپنی بادشاہت کے زیرِ نگرانی رہا۔

کینیڈا خود مختار جمہوری ملک ہے جہاں مضبوط جمہوری روایات ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے کینیڈا سے برآمد ہونے والی اشیاء پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹوڈو امریکا میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مستعفیٰ ہوگئے مگرکینیڈا کی نئی حکومت صدر ٹرمپ کے عزائم کے خلاف مزاحمت کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے، اگرچہ صدر ٹرمپ جب پہلی دفعہ برسر اقتدار آئے تھے تو انھوں نے دنیا بھر میں جنگ کے خاتمے کے فلسفہ کی وکالت کی تھی۔

اس وقت یورپ میں روس اور یوکرین کے درمیان لڑائی کو دو سال گزرچکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان اس طویل لڑائی کے پیچھے امریکا، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ ہیں جو یوکرین کو مکمل فوجی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ امریکا کے قانون ساز ادارے کانگریس نے گزشتہ اپریل میں یوکرین کے لیے 61 بلین ڈالرکی منظوری دی تھی۔ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے امریکا ہر ماہ اوسطاً 1.14 بلین ڈالر امداد یوکرین کو فراہم کر رہا ہے۔ اب صدر ٹرمپ یوکرین کو دی جانے والی امداد ختم کرکے اس جنگ کو رکوائیں گے یا روس سے کوئی معاہدہ ہوگا۔ بعض جرمن ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے دباؤ پر اگر یکطرفہ جنگ بندی ہوئی تو یہ روس کی فتح ہوگی جس کے پڑوسی ممالک پرگہرے اثرات برآمد ہونگے۔

امریکا میں مقیم پاکستان کے بائیں بازو کے ایک سابق کارکن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ چین کے سامان کو امریکا میں داخلہ سے روکنے کے لیے مختلف اقدامات کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے پاناما کینال اورگرین لینڈ کو امریکا کے قبضہ میں لینے کے لیے طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا ہے۔ گرین لینڈ ڈنمارک کا خود مختار علاقہ ہے۔ امریکا نے 1998 میں پاناما کینال کا کنٹرول ڈنمارک کے حوالے کیا تھا۔ ڈنمارک اور امریکا سوویت یونین کے خلاف نیٹو کے قریبی اتحادی رہے ہیں۔

پاناما کینال اورگرین لینڈ، ڈنمارک کے دفاعی تحفظ کے لیے ایک اہم حیثیت کے حامل تصورکیے جاتے ہیں، اگرچہ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا ڈنمارک کی تجارت پر ٹیکس کا حربہ استعمال کر کے اس کی پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کرسکتا ہے مگر اس طرح یورپی ممالک کے درمیان اتحادی فضا متاثر ہوسکتی ہے۔ امریکا میں بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ میں صدر ٹرمپ کے تجارتی مقاصد ہیں۔ بعض اخبارات نے یہ بھی لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کے بڑے صاحبزادے نے گزشتہ مہینوں کے دوران خاصا وقت گرین لینڈ میں گزارا ہے۔

صدر ٹرمپ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ چین کی یورپ اور امریکا میں تجارتی پیش قدمی کو روکنے کے لیے چین سے ہونے والی تجارت پر سخت نوعیت کی پابندیاں عائد کریں گے، یوں اگر صدر ٹرمپ نے ایسی پالیسی اختیارکی تو چینی اشیاء پر بھاری محصول لگانا پڑے گا۔ چین کی حکومت واضح طور پر یہ بات کہہ رہی ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے چینی اشیاء کی امریکا کی منڈیوں میں آمد کو روکنے کے لیے بڑے اقدامات کیے تو چین بھی جواب میں ایسی ہی پالیسی اختیارکرے گا، یوں دو عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ کے گہرے نتائج برآمد ہونگے، اگر چین کے ساتھ روس اور بریکس کے دیگر ممالک نے بھی ایک جیسی پالیسی اختیارکی تو پھر عالمی تجارت برسوں بعد ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گی۔

صدر ٹرمپ گلوبل وارمنگ کو محض ڈھکوسلہ قرار دیتے ہیں، اگر صدر ٹرمپ نے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو گلوبل وارمنگ کے نقصانات سے بچانے کے لیے مالیاتی امداد فراہم نہ کی تو لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیاں خطرہ میں پڑ سکتی ہیں۔ صدر امریکا کے قریبی ترین ساتھی دنیا کے امیر ترین شخص Elon Musk سوشل میڈیا پلیٹ فارم "X"  کے مالک ہیں اور وہ انتہاپسندانہ دائیں بازو کے نظریات کے علمبردار ہیں، وہ سفید فام نسلی برتری کا پرچار کرتے رہے ہیں۔

مسٹر مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے کروڑوں ڈالرکا عطیہ دیا ہے۔ مسک نے اگرچہ کوئی سرکاری عہدہ قبول کرنے سے انکارکیا ہے مگر وہ مختلف یورپی ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے معاملے میں خاصے متحرک ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ میکسیکو سے آنے والے پناہ گزینوں کو ملک سے نکال دیں گے۔ مسک نے برطانیہ میں آباد مسلمانوں پر جنسی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔بانی پی ٹی آئی کی سابقہ اہلیہ جمائما نے مسک کے الزامات کو اعداد و شمار کے حوالے سے غلط قرار دیا ہے۔

 امریکا کی پاکستان کے بارے میں پالیسی مستقل سخت ہوتی جارہی ہے۔ امریکی حکومت کو پاکستان کے ایٹمی میزائل کی بنیاد پر شدید اعتراضات تھے۔ امریکا نے پاکستان کی کئی فرموں کو جو ایٹمی میزائل کے سامان کی تیاری میں ملوث ہیں پر پابندی لگادی ہے۔ امریکا کے ماہرین نے پہلی دفعہ گزشتہ جون میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ میں اسپارکو کے لیے بجٹ میں اضافے پر سخت اعتراضات کیے تھے ، یوں امریکا کو سی پیک اور چین سے ملنے والے بھاری قرضوں پر سخت اعتراضات رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے اسٹرٹیجک تعلقات کو کمزورکرنے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ پاکستان پر مزید اقتصادی پابندیاں لگا سکتی ہے۔

اس صورت میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور یورپی یونین کی پالیسیاں بھی سخت ہوسکتی ہیں، مگر اس صورت حال کا دار و مدار بھارت کے روس سے تعلقات برقرار رکھنے کی پالیسی میں مضمر ہے۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری کو صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں مدعوکیا گیا ہے مگر برطانوی ذرائع ابلاغ مسلسل اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد حکومتِ پاکستان پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا، اگر بانی پی ٹی آئی امریکی دباؤ پر رہا ہوتے ہیں تو ان کی سیاسی ساکھ سخت متاثر ہوگی۔

 سابق امریکی صدر بائیڈن نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا ہے کہ امریکا میں Oligarchy کی حکومت (چند مخصوص افراد پر مشتمل آمرانہ حکومت) قائم ہونے جا رہی ہے۔ اس طرزِ حکومت کے نقصانات کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں