سپریم کورٹ نے این اے 262 کوئٹہ سے کامیاب قرار دیے گئے عادل بازئی کو قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن کے 21 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ کمیشن کو سیاسی اثرورسوخ کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے سول کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف بوگس حلف نامے کے مقدمے کو جلد نمٹایا جائے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ سول کورٹ کا 16 فروری 2024کے حلف نامہ کا فیصلہ حتمی نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شفاف انتخابات جمہوریت کے لیے لائف لائن ہیں۔ الیکشن کمیشن کو سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباس نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق عادل بازئی گزشتہ فروری میں ہونے والے انتخابات میں کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے۔
انھوں نے 20 فروری 2024 کو اپنے حلف نامہ کے ذریعے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیارکر لی تھی۔ سنی اتحاد کونسل نے 20 فروری کو ایک خط کے ذریعہ اسپیکر کو اس بارے میں آگاہ کیا تھا مگر ایک بوگس حلف نامہ جمع ہوا جس کے تحت عادل بازئی کی مسلم لیگ ن میں شمولیت ظاہرکی گئی تھی مگر جب عادل بازئی نے بجٹ اجلاس میں مسلم لیگ ن کی پالیسی سے انحراف کیا تو مسلم لیگ ن نے عادل کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھیج دیا اور الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کو قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کیا تھا۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہوا۔ اس انتخاب میں بھی دھاندلی کے الزامات عائد ہوئے۔ تحریک انصاف کے بانی نے سپریم کورٹ میں گزشتہ فروری میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ایک عرض داشت داخل کی ہوئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سمیت مخالف سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن کے اراکین کی میعاد اس ماہ ختم ہو رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر گوہر خان اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے نئے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقررکے لیے آئین کے تحت پارلیمانی کمیٹی بنانے کے لیے عرض داشتیں وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ارسال کی ہیں مگر وفاقی حکومت اس آئینی ضرورت پر خاموش ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں 26ویں ترمیم میں ایک شق چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں بھی ہے۔ اس شق کے تحت اگر آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف چیف الیکشن کمشنر کے نام پر متفق نہیں ہونگے تو اس صورت میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔
پاکستان اگرچہ جمہوری عمل کے ذریعے قائم ہوا مگر شفاف انتخابات، اقتدارکی پر امن منتقلی اور منتخب حکومت کی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے معاملات ہمیشہ متنازع رہے ۔ پاکستان کے قیام کے بعد الیکشن کمیشن کا ادارہ قائم تو ہوا مگر 2010 تک ڈپارٹمنٹ کے طور پرکام کرتا رہا۔ وفاقی حکومت کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین کے تقررکا مطلق العنان اختیار رہا۔ الیکشن کمیشن کو ہمیشہ گرانٹ کے لیے وفاقی حکومت کی محتاجی کا سامنا رہا۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان 2006میں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں ایک خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوا۔
جب 2010 میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی تو اس ترمیم کا ایک باب انتظامی اور مالیاتی طور پر خود مختار الیکشن کمیشن کے لیے مختص ہوا۔ نئی آئینی ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا متفق ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ اس اتفاق کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ضروری ہوئی۔ پارلیمانی کمیٹی حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل ہوتی ہے، اگر اس کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے ضروری قرار دیا گیا، یوں معروف قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کو متفقہ طور پر چیف الیکشن کمشنر منتخب کیا گیا۔
جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے ساری زندگی قانون کی بالادستی کے لیے وقف کی تھی۔ انھوں نے 2013 کے انتخابات کو شفاف انداز میں منعقد کرانے کی مکمل کوشش کی۔ 18 ویں ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اورکمیشن کے چاروں اراکین کے یکساں اختیارات طے پائے، جس کی بناء پر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم بعض فیصلوں پر عملدرآمد نہ کراسکے اور الیکشن کے فوری بعد مستعفیٰ ہوگئے۔ صدر آصف زرداری نے 2013کے انتخابات کو ریٹرننگ افسروں کے انتخابات قرار دیا، مگر پارلیمنٹ میں جسٹس فخر الدین کے استعفیٰ پر بحث نہ ہوئی، اگر اس وقت ان کے استعفیٰ پر کھل کر بحث ہوتی تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے۔
بعد ازاں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے اور نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہوا۔ پہلی دفعہ پنجاب الیکشن کمیشن نے 2018کے انتخابات میں نتائج کی فوری ترسیل کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر منتقل RTS کا نظام قائم کیا اور پولنگ اسٹیشن پرکلوز ڈورکیمرے لگائے گئے مگر یہ نظام معطل ہوا۔ تحریک انصاف نے وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حکومتیں قائم کیں۔ سابق صدر عارف علوی جو کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے کی تجویز پر 2018کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی۔
اس کمیٹی میں حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان شامل ہوئے مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اس کمیٹی کو فعال نہ کیا۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر سابق وزیراعظم بانی تحریک انصاف اور قائد حزب اختلاف کیسے متفق ہوئے یہ ایک راز ہے۔ بہرحال نئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ڈسکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو دھاندلیوں کے الزام پر منسوخ کیا اور لاپتہ ہونے والے پریذائیڈنگ افسروں اور متعلقہ ریٹرننگ افسر کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا تو تحریک انصاف کے وزیراعظم بانی تحریک انصاف ان سے ناراض ہوئے، یوں الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف میں ایک جنگ شروع ہوئی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سچے جھوٹے الزامات لگائے اور ان کی غیر جانبداری مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔
الیکشن کمیشن کو پورے ملک میں صرف تحریک انصاف کے اندر جمہوریت نظر نہ آئی، یوں تحریک انصاف سے حالیہ انتخابات سے قبل انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ یہ دنیا کی جمہوری تاریخ میں ایک عجیب نمونہ تھا کہ ایک پاپولر سیاسی جماعت پر عملی طور پر پابندی عائد کردی گئی۔ فروری 2024 کے انتخابات میں فارم 47 کا تنازع پیدا ہوا۔ عدالتوں میں امیدواروں کی انتخابی عرضداشتوں کے ڈھیر لگ گئے۔ الیکشن کمشنر نے ان عرضداشتوں کی سماعت کے لیے جو ٹریبونل مقررکیے ان پر ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا اور اعلیٰ عدالتوں نے الیکشن کمیشن کے کئی فیصلوں کو کالعدم قرار دیا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود ان ٹریبونلزکی کارکردگی پر سوالات اٹھے۔