ریت سے روح تک

شہزاد احمد نے واقعی بہاولپور کے متعلق لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔


راؤ منظر حیات January 25, 2025
[email protected]

شہزاد احمد ‘ پچھلے برس ‘دفتر آئے تو اپنی کتاب دے گئے۔ عنوان دلچسپ تھا۔ ’’ریت سے روح تک‘‘۔ا سٹڈی میں لے کر آیا۔ اور پھر وہ کتابوں کے ہجوم میں گم ہو گئی۔ چند دن پہلے ‘ اسٹڈی میں بیٹھا ‘ کتابوںکو ترتیب سے رکھ رہا تھا کہ یہ کتاب دوبارہ نظر آئی۔ پڑھنی شروع کر دی۔ کمال نسخہ تصنیف کیا گیا ہے۔

شہزاد احمد نے واقعی بہاولپور کے متعلق لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کمال تحریر، سادگی اور محبت سے مزین ‘ یہ کتاب بہر حال پڑھنے کے لائق ہے۔ دو تین دن میں ’’ریت سے روح تک‘‘ ختم کر ڈالی۔ پھر ارادہ کیا کہ اس تحریر کو تمام پڑھنے والوں کے سامنے رکھا جائے۔چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔

برادرم حسن نثار نے اس کتاب کی بابت لکھا ہے: صحرا روح کی طرح پراسرار ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ دونوں ہم زاد تو نہیں؟ شہزاد احمد حمید شاید اسی سوال کے جواب کی تلاش میں اپنی آوارہ مزاج روح کے ساتھ صحرا کے سفر پر روانہ ہے۔ موضوع اور مصنف دونوں ہی خوب ہوں‘ خوبصورت ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔

مصنف لکھتا ہے۔’’محبت اور بھائی چارے کی ایسی فضا تھی کہ قیام پاکستان کے وقت بہاولپور ہندوستان کی واحد ریاست تھی جہاں کوئی بھی قتل نہ ہوا اور دنگا فساد نہ ہوئے۔ امیر بہاولپور سرصادق محمد خان عباسی نے لیز پر برطانوی حکومت سے ریل گاڑیاں حاصل کر کے لوگوں کو ہندوستان پہنچایا یا ہندوستان سے پاکستان لایا گیا۔

جب آخری امیر آف بہاولپور میجر جنرل سر محمد صادق خاں عباسی خامس کے والد کا انتقال ہوا تو وہ چار برس کے تھے۔ حکومت برطانیہ انھیں انگلینڈ لے گئی۔ وہ بکنگھم پیلس میں رہے۔ انھوں نے اور موجودہ ملکہ برطانیہ نے اکٹھے تربیت پائی۔ یہی وجہ ہے کہ نواب صادق کے انتقال پر پرنس فلپس بھی جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

عجائب گھر: عجائب گھر کی دیواروں پر لگی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بعض نایاب تصاویر بیتے سالوں کی کہانی ہی بیان نہیں کرتیں بلکہ ہماری تاریخ کا اہم ریکارڈ بھی ہیں۔ عجائب گھر کا یہ حصہ ہر خاص و عام کی توجہ کا حامل ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور راہنماؤں ‘ اہم ملاقاتوں‘ فیصلہ ساز لمحوں کی یاد گار تصاویر آپ کو ماضی میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ بلیک اینڈ وائیٹ تصاویر میں جو جیسا ہے ویسا ہی نظر آتا ہے۔

کسی نے رنگین تصاویر کا ملمع نہیں اوڑھ رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد کی تصاویر میں نواب سرصادق محمد عباسی‘ پرنس فلپس (ملکہ برطانیہ کے شوہر) ‘ سابق گورنر پنجاب نواب محمد عباس خان عباسی‘ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو‘ بہاولپور ہاؤس دہلی ‘ نواب صادق عباسی کے بیٹے کی شادی کے موقع پر ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے آئے نوابوں کی یادگار تصاویر‘ صادق گڑھ پیلس کے مختلف کمروں اور مواقع کی نایاب تصاویر دیکھنے والے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

اس عجائب گھر کی خاص بات عجائب گھر کا وہ حصہ ہے جہاں چولستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے مقامی اسکولز اور کالجز کے بچوں کے بنائے ہوئے مختلف خاکے رکھے ہیں جو ان کی اپنے علاقے سے محبت کے آئینہ دار ہیں۔ یہ شاید دنیا کا واحد عجائب گھر ہے جس میں ایسی سہولت میسر ہے۔ اس گیلری کے قیام کا سہرا ڈائریکٹر میوزم حافظ حسین احمد مدنی کو جاتا ہے۔ جن کا کہنا ہے : ’’کہ ایسے مقابلے بچوں میں اپنی دھرتی اور ثقافت سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا پلیٹ فارم بھی ہیں‘‘۔

اچ شریف: ’’راجہ حود‘‘ کے صوبیدار چچ نے یہاں ایک بڑا تالاب اور قلعہ تعمیر کروایا تھا جس کے نشان بھی اب نہیں رہے۔ قدیم مندر اور مزارات یہاں کی عظمت کے گواہ ہیں۔ ابن بطوطہ اس شہر کا ذکر اپنے سفر نامے میں یوں کرتا ہے‘ ’’اچ دریائے سندھ کے کنارے واقع ایک بڑا اور خوبصورت شہر ہے۔ بازار عمدہ‘ مضبوط عمارتیں اور آب و ہوا صحت مند ہے‘‘۔ ان کا ایسا کہنا مبالغہ نہ تھا۔ آج بھی یہاں کی آب و ہوا عمدہ ہے گو ماحولیاتی آلودگی نے ادھر کا رخ کر لیا ہے۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے مندروں‘ مزاروں اور مقبروں کے سلسلے دور تک پھیلے اس کی عظمت رفتہ کے گواہ ہیں۔ روایت کے مطابق ہندوؤں کی مشہور ’’اوشادیوی‘‘ کا مندر بھی یہیں تھا۔ یہ شہر اولیاء اکرام کا مسکن تھا۔

سرائیکی زبان: ہندوستان کی قدیم زبانوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ سرائیکی یہاں کی قدیم زبان ہے اگرچہ اس کا دائرہ اثر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس زبان کا اپنا ایک مخصوص خطہ بھی ہے جسے ’’سرزمین ملتان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وادی سندھ کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرزمین ملتان نے تہذیبی اور لسانی اعتبار سے ہمیشہ اپنی انفرادیت قائم رکھی ۔ زمانہ قدیم میں اس خطے کی زبان اتنی ترقی یافتہ تھی کہ اس میں تصنیف و تالیف کا کام آسانی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔

ریگ وید کا شمار برصغیر کی قدیم کتابوں میں ہوتا ہے اس مذہبی کتاب کا بیشتر حصہ ملتان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تصنیف ہوا۔ آریاؤں کی آمد سے قبل یہاں دراوڑی تہذیب کے لوگ آباد تھے جو سنسکرت سے الگ کسی اور زبان میں بات کرتے تھے جو ہر لحاظ سے نہ صرف مکمل تھی بلکہ اس کا اپنا رسم الخط بھی تھا۔ (ڈکٹر وزیر آغا) ۔

لہٰذا جو لوگ سنسکرت کو سرائیکی زبان کا ماخذ قرار دیتے ہیں ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین لسانیات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ سرائیکی سنسکرت سے قدیم زبان ہے۔ اگر اس بحث کو سچ مان لیا جائے تو پھر سوال ہے کہ سرائیکی یہاں کی قدیم زبان ہے تو اس کا ماخذ کیا ہے؟ کچھ ماہر لسانیات ’’سریانی‘‘ زبان کی ایک شاخ’’اسور کی‘‘ کو سرائیکی زبان کا ماخذ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ اسے ’’پساچی‘‘ زبان کی ایک قسم ’’وار چڈاپ بھرنش‘‘ کو اس کا ماخذ ٹھہراتے ہیں۔ (ماخذ ’نئے امکانات از ڈاکٹر شکیل پتافی)۔

آخری بات:کہنے کو یہ ریگ زار کے سفر کی کہانی ہے۔ یہ خواجہ فرید ؒ کی دھرتی ہے۔ یہ امن اور رواداری کی دنیا ہے۔ لوگوں کے لیے یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا شاید اور کچھ نہیں لیکن میں اپنی آنکھوں سے صحرا کا رومانس ‘ خاموش ہوا کی آواز‘ جرس (ٹل) کی موسیقی اور سب سے بڑھ کر چاندنی کو چھو آیا ہوں۔

ہر علاقے کی اپنی خوبصورتی ‘ کشش ہوتی ہے لیکن صحرا کی ایک سے زیادہ کششیں ہیں۔ ریت میں اللہ نے کیا جادو بھر دیا ہے کہ جو یہاں‘ آیا‘ آسانی سے واپس نہیں گیا۔ یہاں قلعے اب اکیلے کھڑے ہیں(انسان ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں) یہاں کے راستے گڈمڈ ہیں۔ یہاں کے درخت اور جڑی بوٹیاں بنا پانی ہی پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہاں کا صحرائی جہاز آج بھی آمدو رفت کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں کے مویشیوں کے گلے سے لٹکے ٹل موسیقی کا وہ راگ سناتے ہیں کہ آپ دم بخود ہو جائیں۔

آخر میں صرف یہ عرض کرونگا کہ شہزاد احمد نے بہاولپور کے متعلق ایسی نایاب کتاب لکھ ڈالی ہے جسے پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ انسان‘ ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چلتا جا رہا ہے ‘چلتا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں