یہ بات سوچنی ہوگی یا اس پر غور و فکر کیا جانا چاہیے، کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟اجتماعی طور پر ہم کیوں بضد ہیں کہ وہی کام کریں گے جو ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔اس سوچ اور فکر کی وجہ سے سفید پوش لوگ حکومتی منصوبوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بھی تیارنہیں ہوتے۔بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس کوئی ایسا حکمرانی یا گورننس کا ماڈل نہیں ہے جس کو وہ عوام اور دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
سیاسی جماعتوں کا کام اس پر بہت کمزور ہے بلکہ سول سوسائٹی کے بحث و مباحثہ میں بھی یہ موضوعات کم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔میڈیا بھی مسائل کی نشاندہی تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں۔ ہم گورننس کے نظام کوموثر نہیں بنا پارہے تو اس میں ہماری اپنی خامیاں کیا ہیں؟ انسانی ترقی یا انسانوں پر خرچ کرنے کی سوچ بہت کمزور نظر آتی ہے۔
عام آدمی کو ترقی کے نام پر خیراتی سوچ اور فکر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہم ان کی ترقی سے زیادہ ان کو بھکاری بنانا چاہتے ہیں۔ جب تک افرادکی ذاتی ترقی اور ریاست کے اختیارات کے درمیان توازن پیدا نہیں ہوگا ، اچھی حکمرانی کے تصور کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔
یہ جو ہم نے عالمی سطح پر مختلف نوعیت کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جس کا مقصد عام لوگوں کی ترقی ہے، وہ بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگااگر ہم نے اپنی ترجیحات میں ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔عورتیں، بچیاں، نوجوان، مزدور، کسان، اقلیتیں اور خواجہ سرا جو کمزور طبقات ہیں، ان کے مسائل پر توجہ نہ دینا بھی بری حکمرانی کے زمرے میں آتا ہے۔
اصل مسئلہ مرض کی درست تشخیص کا ہے، مرض کچھ اور ہے اور ہم اس کا علاج کچھ اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صوبائی خود مختاری بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اضلاع کو خود مختار نہیں کیا جاتا۔ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر ایسی کوئی بھی تحریکیں نہیں ہیں جو حکمرانی کے نظام میں شفافیت کے سوالات اٹھائیں یا حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنی سمت درست کریں۔
ایک رد عمل کی سیاست ہے اور اسی رد عمل کے اندر ہی ہم حکمرانی کے نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہماری ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہے۔
یہ جو ہم پاکستان میں سیاسی ،معاشی استحکام اور ادارہ جاتی توازن کی بات کر رہے ہیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم حکمرانی سے جڑے مسائل کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ہمیں اپنی موجودہ ترجیحات کو بدلنا ہے اور اس میں بنیادی نوعیت کی تبد یلی کو تبدیلیوں کو لے کر آنا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز اپنی طاقت اپنی طاقت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور عام آدمی کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں۔یہ وہ سوال ہے جو ہمارے ریاستی حکومتی اور سیاسی نظام کے دائرہ کار کے گرد گھوم رہاہے اور یہ عمل سنجیدگی کی بحث کا تقاضہ کرتا ہے۔
پراپیگنڈا مہم کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل کچھ وقت کے لیے تو لوگوں پر اپنا اثر چھوڑتا ہے مگر طویل مدت کے لیے اس میں لوگوں کے لیے کوئی اچھائی کا پہلو نہیں ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور سیاست کا نام ہی بے وقوف بنانا ہے۔
اچھی حکمرانی کا تصور سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر اصلاحات سے جڑا ہوا ہے۔محض حکمرانی کے نظام میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں جب تک اصلاحات نہیں ہوں گی اس وقت تک ہم بڑی تبدیلی کا عمل بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔
اس وقت سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا اگر وہ اس نظام میں اپنی سیاسی بقا چاہتی ہیں تو ان کو گورننس کے نظام میں خودکو ایک بہتر ماڈل کے طور پر پیش کریں۔فرسودہ طور طریقے اور پرانے خیالات کے ساتھ وہ اب نئی نسل کو سیاست میں آپ نہ تو متاثر کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے قریب لاسکتے ہیں۔
ماضی میں ہم نے حکومتی سطح پر گورننس کے نظام میں اصلاحات کے لیے کئی کمیشن بنائے اور ان کمیشنوں کی تجاویز پرمبنی کئی رپورٹس بھی منظر عام آئیںمگر کمزورسیاسی کمٹمنٹ، کمزور سیاسی نظام اور مخلوط حکومتیں اور درست سیاسی ترجیحات کا تعین سمیت مربوط منصوبہ بندی اوروسائل کی بہتر منصفانہ تقسیم،محاذآرائی یا سیاسی نظام کے عدم تسلسل نے وہ کچھ نہیں کیا جو اس ملک میں ہونا چاہیے تھا۔
پاکستان کو گورننس کے نظام میں بہتری کے لیے مضبوط سیاسی نظام اور ایسی حکومتیں درکار ہیںجوبڑے فیصلے کرسکیں کیونکہ کمزور اور اتحادیوں پرکھڑی حکومتیںبڑے فیصلے خود کرنے سے قاصر ہوتی ہیں اور آسانی سے سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتی ہیں۔
گورننس کے نظام میں ہماری ترجیحات میں بیوروکریسی اور پولیس،تعلیم، صحت ،انصاف،سماجی اور معاشی تحفظ،عام آدمی کی اداروں تک رسائی،شفافیت، جوابدہی ،احتساب اور کمزور طبقات کی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔گورننس کی خرابی کے ان غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات درکار ہیں۔
یہ جو شاہانہ اخراجات یاعیاشی پر مبنی نظام ہے، اس میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کا موجودہ انتظامی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ کم ہونا چاہیے اور 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں وزارتوں کا بوجھ کم اورغیر ضروری وزارتوں کا خاتمہ،پہلے سے موجود اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل سمیت بڑے ترقیاتی منصوبوں کی پارلیمنٹ سے منظوری،چھوٹے اور دیہی ترقی کا جامع منصوبہ بندی،نئی نسل کے لیے روزگار پیدا کرنا اور بالخصوص ڈیجیٹل گورننس کے مسائل کا حل ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
آج کی گلوبل دنیا میں گورننس کی بنیاد پر ملکوں کی ترقی کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری گورننس پربھی اعتراضات سامنے آتے ہیں یاہماری درجہ میں کمی دکھائی جاتی ہے۔یاد رکھیں گورننس سے مراد ایک ایسا نظام جو شفافیت کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے یا اس کی ریاستی نظام میں سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کو مضبوط بنائے۔
یہ عمل ایک مکمل سیاسی اور جمہوری نظام کا پیکیج ہے جہاں سیاست،جمہوریت اور گورننس کے معاملات میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔گورننس کا بہتر نظام لوگوں کو مچھلیاں کھلانا نہیں بلکہ پکڑنا سکھاتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں۔
اگر پاکستان میں سب ریاستی یا حکومتی ادارے اپنے اپنے سیاسی، قانونی اور انتظامی ڈھانچوں میں کام کرنا شروع کردیں تو ہم گورننس کے نظام میں بہتری کی طرف پیش رفت کو ممکن بناسکتے ہیں۔اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔اصل مسئلہ جدید طرز کی حکمرانی اور دنیا کے بہتر تجربات سے خود کو جوڑنا ہے یا دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنی اصلاح کرنا ہے۔گورننس کے موجودہ نظام کے مقابلے میںاب ایک نیا نظام ہماری ضرورت بن گیا ہے اور جتنی جلدی ہم اجتماعی طور پر یہ با ت سمجھ سکیں ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔
لیکن اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پرانے نظام کی سیاسی ضد گورننس کے نظام میں مزید خرابیوں کو جنم دے گی۔یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ ہماری ریاست ، سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں اور اس کی بھاری قیمت ریاست عوام سمیت کمزور طبقات کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔