پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے ایشو پر بہت سے اقدامات اور فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اگلے روز بھی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات کے واقعے پر اجلاس ہوا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے سدباب کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کردی ہے اور انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خود اس ٹاسک فورس کی سربراہی کریں گے۔
انھوں نے ہدایت کی ہے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث انسانیت کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور اس جرام میں ملوث افراد کی گرفتاریوں میں تیزی لائی جائے۔ تمام ادارے بشمول وزارت خارجہ انسانی سمگلرز کی نشاندہی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات کے دلخراش واقعے پر مجھ سمیت پوری قوم مغموم ہے۔اس اجلاس کے دوران وزیراعظم کو غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانی باشندوں کی المناک اموات میں ملوث گروہوں، پاکستان میں اس حوالے سے کئی گرفتاریوں، مقدمات اور آیندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کو بتایا گیا اب تک 6 منظم گروہوں کی نشاندہی ہوئی ہے جب کہ 12 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں، 25 ملوث افراد کی نشاندہی ہوئی ہے اور 3 اہم افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، 16 لوگوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جا چکے ہیں۔ اجلاس کو گاڑیوں، بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات ضبط کرنے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ایف آئی اے کے مشتبہ اہلکاروں و افسران کی گرفتاریوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بیرون ملک جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے بھی آگاہ کیا گیا۔
پاکستان سے غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے کا سلسلہ کوئی ایک دو برس پرانا نہیں ہے بلکہ دہائیوں سے جاری ہے ۔ ماضی میں ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکا، کینیڈا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں نے اس جانب توجہ نہیں دی، یوں تارکین وطن کو ہمدردی کے نمبر ملتے رہے۔
ان ممالک میں چونکہ تارکین وطن کے حوالے سے قوانین بہت نرم تھے یا سرے سے موجود ہی نہیں تھے، اس لیے غیرقانونی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایڈجسٹ ہونا، خاصا آسان تھا، اسی وجہ سے دنیا بھر میں ایسے گروہ منظم ہوئے جن کا کام پیسے لے کر ایسے لوگوں کو ترقی یافتہ ممالک میں پہنچانا ہے جو قانونی ذرائع سے ان ممالک میں نہیں جاسکتے تھے۔
پاکستان میں بھی ایسے گروہ وجود میں آگئے جن کے پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے افسروں کے ساتھ بھی لین دین کا رشتہ قائم ہوا جب کہ ہمسایہ ممالک خصوصاً ایران، عراق، لیبیا، ترکی اور قبرص و یونان ، اٹلی اور اسپین تک نیٹ ورک قائم ہوگیا۔ دنیا میں خانہ جنگیاں اور غربت بڑھنے کی وجہ سے پسماندہ اور جنگ زدہ ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے تو ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ قدرے مستحکم تسیری دنیا کے ممالک بھی متاثر ہونا شروع ہوئے۔
ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے ویزا پابندیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے حوالے سے سخت قوانین بنانے شروع کردیے ہیں،اب یہ کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ سے تارکین وطن کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی زیادہ ہوتا جارہا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اقتدار سنبھالتے ہی تارکین وطن کے بارے میں ان کی پالیسی پر عمل کرنے کے احکام جاری کردیے ہیں اور ان کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے انتظامیہ نے امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا گیا، وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے بتایا کہ تاریخ کے سب سے بڑی کریک ڈاون میں 538 غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کو امریکی فوج کے ہوائی جہازوں میں بھر کر ملک بدر کردیا گیا۔
ادھر برطانوی حکومت نے ملک میں غیرقانونی تارکین وطن کے داخلے کو روکنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے، نئے احکامات کے تحت مشتبہ افراد پر لیپ ٹاپ یا موبائل فون استعمال کرنے، سوشل میڈیا نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے پر پابندی عائد ہوگی۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت پرکیا گیا ہے، جب گزشتہ برس انگلش چینل( فرانس اور برطانیہ کے درمیان بحری راستہ) کے ذریعے اس ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہے۔ اسی جرمنی اور فرانس بھی تارکین وطن کے حوالے سے نئے قوانین بنا رہے ہیں۔
دنیا میں ہر سال لاکھوں افراد انسانی اسمگلرز کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کروڑوں ڈالر کا غیرقانونی کاروبار ہے۔ غیرمحتاط اندازے کے مطابق اس کا مالی ححم تقریبا آٹھے ارب ڈالر سالانہ ہے ۔
شمالی افریقہ کے ممالک جن میں الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ وغیرہ شامل ہیں، ان ممالک کے ساحلوں سے، اسپین، پرتگال اور اٹلی تک پھیلا اسمگلنگ کا سب سے بڑا اور خطرناک ترین راستہ ہے لیکن لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ راستہ بھی اختیار کررہے ہیں۔
دنیا بھر میں حکومتی اہلکار اور انسانی سمگلرز کا باہمی نیٹ ورک قوانین کی نرمی ، سمندری راستوں پر سیکیورٹی کا ناقص انتظام اس کاروبارکو جاری رکھنے کا بنیاد سبب ہے۔ پاکستان کو بھی انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنا ہے، اس غیرقانونی کاروبار کا حجم کروڑوں ڈالر سالانہ ہے ۔
گزشتہ دس بارہ برسوں میں پاکستانی تارکین وطن کی ہلاکتوں کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کی بڑی وجوہات میں بیروزگاری میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کو بھی شمار کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی وجہ مائنڈ سیٹ ہے۔ پاکستانی پڑھے لکھے طبقے کے نوجوانی ہی نہیں بلکہ دیہی پاکستان کے معمولی پڑھے لکھے اور ناخواندہ نوجوانوں بھی امریکا اور یورپ جانے کے سحر میں مبتلا ہیں حالانکہ ان کے پاس اچھا خاصا زرعی رقبہ بھی ہے ۔
اس کی وجہ معاشرتی اور ثقافتی آزادیاں اور ترقی یافتہ ممالک کی رنگا رنگ سرگرمیاں ہیں جب کہ پاکستان میں ایسی سرگرمیاں اول تو موجود نہیں ہیں یا ان پر قانونی پابندیاں عائد ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں میں سیاسی ارتقائی سوچ موجود نہیں ہیںکہ وہ اپنی حکومتوں پر معاشرے کو کھولنے کے دباؤ بڑھائیں ، اس کے بجائے وہ یہاں سے فرار ہونا، زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ بھی بیوروکریسی کا مائنڈ سیٹ ہے ، افسران بھی اس دھندے کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کرتے ۔
کچھ اندازوں کے مطابق ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں، اس کے لیے جو روٹ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ، وہ براستہ بلوچستان سے ایران، عراق اور ترکی کے ذریعے یونان اور اٹلی وغیرہ پہنچتا ہے۔
وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے انسانی سمگلر بھی یہی روٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے ہیں اور پھر بطور پاکستانی باشندوں کے غیرممالک میں جاتے ہیں۔ ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ایران کے سنگلاخ پہاڑوں سے یونان کے سمندروں تک، ہر سال اَن گنت نوجوان اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ تارکینِ وطن میں بڑی تعداد پاکستانی نوجوانوں کی بھی ہوتی ہے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے مگر پھر یہ کارروائیاں وقت کی گرد تلے دب جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سالانہ 15 ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد حادثات کا شکار ہو جاتی ہے جب کہ ملک کے حصے میں بدنامی الگ سے آتی ہے۔
نقل مکانی کے متعلق کام کرنے والی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے یہی راستہ اور طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن پاکستان سے یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا جانے کے لیے تین راستے استعمال کرتے ہیں۔