دل چاہتا ہے کہ آج زراعت اور کسان کی بات کروں۔ میں بچپن سے سنتا اور پڑھتا آ رہا ہوں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ دنیا کا سب سے بڑا اور جدید نہری نظام ہمارے پاس ہے‘ ہماری معیشت کا 70فیصد زراعت پر مشتمل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہاں زمیندار کا مطلب خوشحالی اور رعب داب ہوا کرتا تھا‘ شہری بابو سمجھا کرتے تھے کہ گاؤں سے جو بھی آتا ہے‘ اس کے پاس کھیت ہوتے ہیں‘ مویشی ہوتے ہیں‘ وہ بااثر اور خوشحال ہوتا ہے۔
اس میں سچائی بھی تھی لیکن پھر وقت بدلنے لگا‘ سرکاری بابوؤں نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں‘ جن کی بدولت زرعی ملک بدحال ہو گیا اور زمیندار غریب۔ آج حالت یہ ہے کہ کسانوں اور کاشتکاروں کے کڑیل جوان بیٹے اپنے سوکھے کھیت چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کرتے ہیں۔
ہر حکومت نے کاشتکاروں اور دیہات کو خوشحال بنانے کے نعرے لگائے ہیں لیکن زراعت دن بدن زوال پذیر ہوتی رہی ہے۔کیسا المیہ ہے کہ ایک زرعی ملک سبزیاں تک بیرون ملک سے منگوانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ ساری باتیں اس لیے عرض کی ہیں کہ آپ کو بتاؤں کہ اب محترمہ مریم نوازشریف بھی زراعت کو ترقی دینے کے مشن پر ہیں‘اﷲ کرے کہ وہ کامیاب ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔وہ جو کچھ کررہی ہیں، بظاہر پنجاب کے لیے ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں کھیت لہلہائیں گے تو سمجھیں پورا پاکستان لہلہائے گا۔
زرعی ماہرین پنجاب کو پاکستان کی فوڈ باسکٹ کہتے ہیں، بلاشبہ پاکستان بھر کے عوام جو اناج استعمال کررہے ہیں، اس کا 75فیصد تنہا پنجاب پیدا کرتا ہے۔جھنگ کے ایک معروف زراعت کار صفدر سلیم سیال مرحوم مجھے کہا کرتے تھے کہ ’’ چوہدری صاحب! پنجاب دودھ کا گھر ہے، اس خطے کی گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ پوری دنیا کے اعلیٰ ترین دودھیل جانور ہیں۔ اگر ہم صرف زراعت پر توجہ کریں تو پاکستان پوری دنیا کو دودھ ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے۔ ‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اگر زرعی معیشت پر ہی توجہ مرکوز کر لے تو مجھے یقین ہے کہ دس پندرہ برس میں خوشحالی ہمارا مقدر بن جائے گی ۔
محترمہ مریم نواز کو وزارت اعلیٰ سنبھالے ہوئے محض 10ماہ ہوئے ہیں، انھوں نے چار سوارب روپے سے زائد کا ’’ٹرانسفارمنگ پنجاب ایگریکلچر پروگرام‘‘ لانچ کردیا ہے ۔ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں پیداواری اہداف کے حصول کے لیے 64 ارب روپے مختص ہیں جوگزشتہ سال سے 250 فیصد زیادہ ہے۔ ٹرانسفارمنگ پنجاب ایگریکلچر پروگرام کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے، وہ الگ ہے۔
محترمہ مریم نواز نے گزشتہ دنوں دورہ حافظ آباد کے دوران کسان کارڈ کے اجراء کا افتتاح کیا ہے۔ کسان کارڈ کے تحت ایک ایکڑ سے ساڑھے 12 ایکڑ ملکیتی اراضی کے کسانوں کو ڈیڑھ سوارب روپے کے بلا سود قرضہ جات فراہم کیے جا رہے ہیں۔موجودہ ربیع سیزن میں 53ارب روپے کے قرضہ جات کی منظوری ہوئی ہے۔ پنجاب میں کسانوں نے اس رقم سے 32 ارب روپے سے زائد کی خریداری کر لی ہے جس میں سے91 فیصد رقم گندم کی فصل کے بیج اور کھاد کے لیے خرچ ہوئی ہے۔ کسان کارڈ سے 30 ہزار روپے نقد رقم بھی نکلوائی جا سکتی ہے ۔
سننے میں آیا ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف نے پنجاب کی بیوروکریسی کو خصوصی احکامات جاری کیے ہیں ، جس کے بعد ساڑھے سات لاکھ کسانوں کو فوری طور پرکسان کارڈ جاری کیے گئے ہیں ۔ بیوروکریسی سے کام لینا ہی کسی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
بینک آف پنجاب اور محکمہ زراعت کے لیے یہ تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور اب تک13لاکھ سے زائد کاشتکاروں نے آن لائن درخواستیں دی ہیں ، بینک نے سکروٹنی کے بعد 4لاکھ 50ہزار کاشتکاروں کی کسان کارڈ کے حصول کے لیے تصدیق کر دی ہے۔ اس سے اس فلیگ شپ پروگرام کی پذیرائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کسان کارڈ کے استعمال کے لیے پنجاب بھر میں 3ہزار ڈیلرز کی رجسٹریشن کی گئی اور پی او ایس مشینوں کے ذریعے خریداری کی جا رہی ہے۔
محترمہ مریم نواز کا یہ کہنا ہے کہ ہم کسان کارڈ اسکیم کے اجراء سے ہم براہ راست کسان تک پہنچ گئے ہیں اور انھیں مڈل مین اور آڑھتی کے چنگل سے آزادی مل گئی ہے۔ اﷲ کرے کسانوں کو مڈل مین اور آڑھتی کی زیادتیوں سے نجات مل جائے اور اسے اپنی محنت کا پورا پھل ملنا شروع ہوجائے۔ پاکستان میں زرعی منڈیوں کا نظام ٹھیک ہوجائے تو کسان کا مالی استحصال ختم ہوجائے گا۔
بیچ،کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بھی ٹھہراؤ آرہا ہے۔نان کمپیوٹرائزڈ موضع جات میں مینوئل طریقے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کسان کارڈ کے حصول کے لیے کاشتکاروں کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے ، اس حوالے سے پٹواریوں، نمبرداروں، تھانیداروں اور دیگر بااثر لوگوں کو بھی خوف خدا کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کسی غریب کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ خبر حوصلہ افزا ہے کہ کسان کارڈ کے ذریعے خریداری کی باقاعدہ مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اور شکایت کی صورت میں سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ’’ نوجوان زرعی گریجویٹس انٹرن شپ پروگرام‘‘ بھی ایک اچھا منصوبہ ہے۔
یہ بھی محترمہ مریم نواز کا ہی ویژن ہے، اس پروگرام کے تحت زرعی گریجویٹس کی تربیت کی جائے گی، کاشتکاروں کو بھی جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی سے آگاہی اور فنی تربیت دی جائے گی اس پروگرام کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ امسال اس پروگرام کے تحت 1 ہزار زرعی گریجویٹس کو بھرتی کیا گیا ہے جن میں 40 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ہر زرعی گریجویٹس کو ماہانہ 60 ہزار روپے معاوضہ دیا جارہا ہے۔ ’’وزیر اعلیٰ پنجاب گرین ٹریکٹر پروگرام‘‘ کے لیے30 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔اس پروگرام کے تحت 10لاکھ روپے فی ٹریکٹر سبسڈی کاشتکاروں کو فراہم کی گئی ہے۔ منتخب کاشتکاروں کوٹریکٹرز کی ڈلیوری ہو چکی ہے۔
اسموگ کنٹرول پروگرام کے تحت فصلوں کی باقیات کو جدید سائنسی انداز میں تلف کرنے کے لیے 5 ارب روپے کی خطیر رقم سے دھان کے کاشتکاروں کو 60 فیصد سبسڈی پر سپرسیڈرز فراہم کیے جا رہے ہیں۔1 ہزار سپر سیڈرزکاشتکاروں کو فراہم کیے جا چکے جب کہ مزید2 ہزار سپر سیڈرز ستمبر 2025کے آخر میں فراہم کیے جائیں گے۔
گزشتہ سال سپرسیڈرز کے استعمال سے1 لاکھ10 ہزار ایکڑ پر دھان کی باقیات کو کارآمد بنایا گیا جس سے اسموگ پر قابو پانے میں مدد ملی۔اس کے علاوہ 1ارب 17 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے ملتان،بہاولپور،سرگودھا اور ساہیوال میں 4 ماڈل ایگریکلچرل مالز زیرِ تعمیرہیں۔ یہاں سے کاشتکاروں کو معیاری بیج، کھاد اور زرعی ادویات مقرر کردہ نرخوں پر فراہم کیے جائیں گے، یہاں سے جدید زرعی مشینری کرایہ پر بھی ملے گی۔ 30 جون2025 تک یہ مالزمکمل ہو جائیں گے۔ آٹھ ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقلی کے لیے9 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
تیلدار اجناس کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے1 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ گندم کے کاشتکاروں کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے 25 ایکڑ سے زائد رقبے پر گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو 1,000 ٹریکٹرز اور12.5 سے 25 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو 1,000 لیزر لینڈ لیولرزبذریعہ قرعہ اندازی مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بے شک محترمہ مریم نواز شریف نے بطور وزیراعلیٰ دس ماہ کی قلیل مدت میں زرعی شعبے میں اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے، اگر پنجاب کی افسرشاہی سے سو فیصد رزلٹ لیا جائے تو صوبے کی زراعت یقیناً بہتر ہوجائے گی۔
میں ایک بار پھر کہوں گا کہ زراعت ہی پاکستان کو خوشحال بنا سکتی ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز نے درست سمت کا انتخاب کیا ہے، سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ میرسرفراز بگٹی بھی زراعت پر فوکس کریں، کیونکہ خوراک میں خود کفالت ہی پاکستان کی سربلندی کی ضامن ہے۔