نئی سیاسی پارٹیوں کا مستقبل

سیاست میں ہٹ دھرمی پرقائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، لچک اورنرمی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔


[email protected]

شاہد خاقان عباسی ایک سمجھدار سلجھے ہوئے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔انھوں نے اپنی تمام سیاسی زندگی ایک باعزت طریقے اورشرافت سے گزاری۔ملک کی سیاست میں انٹری انھوں نے 1998 میں مسلم لیگ نون کے ساتھ شروع کی اورجب سے اب تک چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

1997 سے لے کر 1999تک پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے ،وہ یکم اگست 2017سے 31 مئی 2018 تک اس ملک کے وزیراعظم بھی رہے۔ مشرف دور 2003 میں انھوں نے اپنی ایک پرائیویٹ ایئرلائن کی بنیاد رکھی، جسے ایئربلوکے نام سے جانا پہچانا جاتاہے۔جو عزت اورشہرت انھیں مسلم لیگ نون میں رہتے ہوئے ملی وہ شاید کسی اورجماعت سے نہیں مل سکتی تھی ۔وہ ایک شریف انفس سادہ مزاج انسان کے طور پربھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔

ساری زندگی مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری دکھائی لیکن فروری 2024 کے انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں اور پارٹی بھی چھوڑدی۔میاں نوازشریف آج بھی اُن کی بہت عزت کرتے ہیں اور کبھی بھی انھیں اس علیحدگی پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا،وہ خود بھی میاں نوازشریف سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں لیکن کیا کریں وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوگئے ۔

سیاست میں ہٹ دھرمی پرقائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، لچک اورنرمی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف اگر لچک نہ دکھاتے تو آج وہ پاکستان میں عزت وآرام سے نہیںرہ رہے ہوتے۔ اُن کا بھائی آج وزیراعظم نہ ہوتا اوراُن کی بیٹی پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی نہ ہوتیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ارادوں اوراُصولوں پر مرتے دم تک قائم رہتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے ایک نہیں تین تین مرتبہ یہ ادوار گزارے ہیں۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ اگر یہ سمجھوتہ نہ کرتے تو دیار غیر میں ایک گمنام زندگی گزارتے۔ وہ بے شک اپنے ضمیر کی آواز پراپنے مؤقف پرڈٹے رہے ۔ اصغر خان بھی ایسے ہی ایک شخص تھے جنھوں نے اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اورمرتے دم تک اُن پرسختی سے قائم رہے لیکن کیا ہماری قوم نے انھیں اس بات پر آج تک کوئی خراج تحسین بھی پیش کیاہے۔

ہماری قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کا پس پردہ کردارایک اٹل حقیقت ہے اورکوئی اس سے انکار بھی نہیںکرسکتا۔ وہ چاہے وطن عزیز کی آزادی کے ابتدائی سال ہوں یا آج 78 برس بعدکا دورہم کبھی بھی اُس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ سارے اسلامی ممالک کسی نہ کسی طرح اس شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں تو بھی شاید غلط نہ ہوگا،وہ اگر بظاہر براہ راست نہ جکڑے دکھائی نہ دیتے ہوں تو بھی بالواسطہ طور پرکسی نہ کسی سپر طاقت کے زیراثر ضرور ہیں۔

ہمارے یہاں جتنے سیاستدان برسراقتدار آئے اُن میںسے ہرایک کا تعلق ایک معروف نرسری سے ہی رہا ہے۔ پیپلزپارٹی گرچہ خود کو اس تعلق سے جداسمجھتی ہے لیکن اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سیاست میںقدم اسی دروازے سے رکھاتھا،وہ اگر ایسا نہ کرتے تو یقیناکوئی اوراُنکی جگہ لے لیتا۔

شاہد خاقان عباسی نے ساری سیاسی زندگی شرافت اورایمانداری سے گزاری اورمیاں نوازشریف کا بھرپور ساتھ بھی دیا، لیکن دیکھاجائے کہ وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔جس نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ کر وہ اپنے آپ کو سب سیاستدانوں سے مختلف اور علیحدہ شناخت رکھنے والا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کیایہ ممکن ہوپارہا ہے۔وہ رفتہ رفتہ گمنامی کے کنویں میں گرتے جارہے ہیں۔لگتا ہے انھوں نے نئی پارٹی بنانے میں شاید کچھ جلد بازی کردی۔

جنھوں نے انھیں اس کام پر اکسایا تھا وہ بھی اب لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ مصطفی نوازکھوکھر اور مفتاح اسمعیل جو کبھی اُن کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے تھے آج کنارہ کش ہوچکے ہیں۔رہ گئی تیسری سیاسی قوت یعنی تحریک انصاف جس کے ساتھ بھی چلنا اُن تینوں حضرات کے لیے شاید ممکن نہیں تھا۔

وہ تینوں آج صرف الیکٹرانک میڈیا پر بیانات اورتبصرہ نگاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی پندرہ سالوں تک جمہوری سیاست کی دھول اچھی طرح چاٹی تھی اور2011 میں جب تک غیبی قوتوں کی جانب سے ہاتھ نہ پکڑا گیا وہ دو سیٹوں سے زائد کامیابی سمیٹ نہ سکے۔

حالانکہ اُن کے اندر عوام کو متاثر کرنے کی بہرحال خوبی ضرور موجود تھی ۔ عوام پاکستان پارٹی بناکرشاید خاقان عباسی نے ملک کی لاتعداد سیاسی پارٹیوں میں ایک نام کا ضرور اضافہ کیا ہے لیکن عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرپائے۔ویسے بھی ہمارے لوگ پہلے ہی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ میاں شہبازشریف اورمریم نواز جس طر ح ملک وقوم کے لیے تیز رفتاری سے کام کررہے ہیں، ایسے میں کسی اورکے لیے جگہ بنانا بہت مشکل ہے۔

ہاں ،اگر انھوں نے عوام کو ریلیف نہیں پہنچایا اورمقتدر حلقوں سے محاذآرائی شروع کردی تو پھر کسی اور کے لیے کوئی جگہ بنانا شاید ممکن ہوپائے،ورنہ جب تک ساری نئی سیاسی پارٹیاں صرف کاغذوں پر یاپھرصرف الیکشن کمیشن کے پاس ہی درج رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں