کوچۂ سخن

شرحِ غمِ حیات کہاں سے کریں شروع   الجھن میں ہیں کہ بات کہاں سے کریں شروع 


عارف عزیز January 29, 2025

غزل
شرحِ غمِ حیات کہاں سے کریں شروع  
الجھن میں ہیں کہ بات کہاں سے کریں شروع 
ہے داستاں طویل بہت، وقت مختصر
اے عمرِ بے ثبات! کہاں سے کریں شروع  
پھر بے رُخی سے آ کے وہ پہلو نشیں ہوئے
ہم بے خودی میں بات کہاں سے کریں شروع 
اب میکدے میں جائیں کہ صحرا کا رخ کریں
آوارگی کا ساتھ کہاں سے کریں شروع  
گھیرے میں لیں زمیں کہ فلک کو لپیٹ میں
تسخیرِ کائنات کہاں سے کریں شروع
سر پیٹنے لگیں کہ گریباں کو پھاڑ دیں
ماتم یہ میرے ہاتھ کہاں سے کریں شروع
صادقؔ! وہ آ کے وقتِ اجل ملتفت ہوئے
اب تو بتا حیات کہاں سے کریں شروع
(محمد ولی صادق۔ کوہستان ،خیبر پختون خوا)

۔۔۔
غزل
کہہ تو دیا ہے تم سے مری جان خوش رہو
چھوڑو کہ میرا جو ہوا نقصان ،خوش رہو
مجھ کو وصال و ہجر کے معنی نہیں پتہ
یہ کہہ کے کر دیا ہے پریشان خوش رہو
وعدہ خلاف ہم ہی رہے ہیں تمام عمر
اس بات نے کیا ہمیں حیران خوش رہو
جس کی طرف سے کوئی تسلی نہیں ملی
مانگا ہے اس نے پیار سے تاوان خوش رہو
کرکے ہمارے ملک کے حالات کو خراب
رہتے ہیں حکمراں سبھی انجان خوش ہو
عہدِ وفا کریں گے نبھاہیں گے تا حیات
کرکے کیا ہے ترک یہ پیمان خوش رہو
بالوں میں پھول ہاتھ میں گجرے لیے ہوئے
دل کی سڑک سے گزرا پشیمان خوش رہو
فکرِ معاش کھا گیا مجھ کو مرے ندیمؔ 
اچھا کیا ہے آپ نے احسان خوش رہو
(ندیم ملک۔ نارووال)

غزل
در و دیوار گھر کے آبدیدہ
پڑا ہے ایک لاشہ سر بریدہ
اگر میں داستاں کہہ دوں زمانے
تمہیں اچھے ملیں گے چیدہ چیدہ 
کسے احوالِ دل جا کر سنائیں
کہاں جائیں ترے فرقت گزیدہ
عجب لگتا ہے جب ہر سُو ہو دولت
بھری بستی میں اک دامن دریدہ
اٹھا ہے شور ہر سُو العَطش کا
جسے دیکھو وہی ہے آبدیدہ
مرا  شاعر قلم کو توڑ دے گا
نہیں لکھے گا  حاکم کا قصیدہ
میں سچا ہوں ترے زنداں سے ڈر کر
کبھی  ہوگا  نہ میرا سر خمیدہ
ابھی  مجھ سے تعلق مت بناؤ
ابھی حالات ہیں میرے کشیدہ
مقابل اس لئے آیا ہے زاہدؔ
تجھے آیا نظر میں سِن رسیدہ
(حکیم محبوب زاہد۔ منڈی بہاء الدین)

غزل
میاں ہوتا ہے ہجرت کا خمار آہستہ آہستہ
جبھی تو چل رہی ہے یہ قطار آہستہ آہستہ
کچھ ایسے مسئلے عجلت میں بھی حل کرنا پڑتے ہیں
بدل جاتا ہے نفرت میں بھی پیار آہستہ آہستہ
سنو ہم وقت کی طرح کبھی پلٹا نہیں کھاتے
تمہیں بولا بھی تھا ہم کو گزار آہستہ آہستہ
نہیں ہوتا اذیّت کا نشہ یکبارگی میں، سو
گراؤ حسرتوں کا یہ دِیار آہستہ آہستہ
اچانک سے کسی کو دل نکالا مت دیا کیجے
اتارا کرتے ہیں کوئی بھی بار آہستہ آہستہ
محبت کا ہنر اک آدھ دن میں تو نہیں آتا
یہاں ہوتا ہے بندہ ہوشیار آہستہ آہستہ
نظر کی وسعتیں اک دن خلا کا روپ دھاریں گی
ہُوا تھا میں بھی وحشت کا شکار آہستہ آہستہ
مجھے جس نے محبّت دی اُسے زیادہ ہی لوٹائی
چکا دوں گا تمہارا بھی ادھار آہستہ آہستہ
اُٹھا بیٹھا کرو ہاتفؔ پرانے قیدیوں میں تم
تمہیں مل جائے گی راہِ فرار آہستہ آہستہ
(اسیر ہاتفؔ۔ سرگودھا)

غزل
تلا ہوا ہے ہر اک شخص ہی گرانے میں
کوئی تو ہاتھ لگائے مجھے اٹھانے میں
میں کس کے سر پہ تراشوں یہ جیت کا سہرا
تمام شہر تھا شامل مجھے ہرانے میں
اطاعتوں کے جھمیلوں نے کر دیا پاگل
قفس سی بو مجھے آئی ہے آشیانے میں
ستم کی حد ہے مجھے مار کر بھی خوش نہ ہوئے
لگے ہوئے ہیں مری لاش کو جلانے میں
میں کیوں نہ اپنے قدم دیکھ بھال کر رکھتا
ذرا سی دیر ہی لگتی ہے ڈگمگانے میں 
زمانے بھر کی کثافت بھری ہے آنکھوں میں
کہ اب تو کوفت سی ہوتی ہے مسکرانے میں
ہوا ہے ترکِ تعلق کے بعد یہ معلوم 
کٹے گی عمر بقایا اسے بھلانے میں
ہوا کے مدِ مقابل چراغ تھامے ہوئے
ہے محو کون یہ دیکھو دیا جلانے میں
جو ذہن کفر کی منطق تراش لاتے ہیں
بنائے جاتے ہیں مخصوص کارخانے میں 
 جو تم کو دیکھ کے شیراز ؔآگیا لب پر 
مضائقہ تو نہیں گیت گنگنانے میں
(شیراز جعفری۔ سکھر )

’’ دل‘‘
اے دلِ غم زدہ!
آخرش کیوں ہے تو اس قدر مضمحل؟
کچھ بتا تو سہی 
کیا ہے یہ ماجرا؟
ہاں مگر
ہے یہ مشکل کہ تو سوچتا ہے بہت
کیوں نہ ایسا ہوا؟ 
کیوں نہ ویسا ہوا؟ 
چھوڑ یہ مسئلہ 
تیرے بس کا نہیں 
ہے ازل سے یہی سلسلہ  
خیر و شر کا یہاں
نیک و بد ہیں جہاں در جہاں
غنچہ و گل ہیں جو باغ کا پیرہن
خار و خس بھی ہیں وجہ چمن
ہاں مگر 
ہے یہ مشکل کہ تو سوچتا ہے بہت 
ہے یہ مشکل کہ تو سوچتا ہے بہت
تیری نازک خیالی سے 
واقف ہوں میں 
لاکھ کوشش کروں، لاکھ سمجھاؤں 
لیکن نہ مانے گا تو
کیونکہ تیرا مقدر فقط درد ہے
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی، بھارت)

غزل
جب تصور نے تری یاد کے گھنگرو پہنے
دل نے پھر پہلو بدل کر کئی پہلو پہنے
یہ الگ بات زمانے پہ نہ احوال کھلا
مری تحریرنے اکثر مرے آنسو پہنے
اِس پہ صدیوں کا تحیّرہے زمانے والو!
وہ لبادہ کہ جسے حضرتِ باہو پہنے
عکسِ جاناں کی ہی تصویر کا احساس ہوا
آج مہتاب نے یوں رات کے گیسو پہنے
ایک مانوس مہک سے ہے فضا تابندہ 
پھول گزرے ہیں مرے یار کی خوشبو پہنے
تجھ پہ قلزم ؔکی اذیت کا بھی احوال کھلے
خرقۂ درد کسی روز اگر تُو پہنے
(سجیل قلزم۔ فیصل آباد)

غزل
وہ کوئی لمحہ مسکراتی ہے
سوچ کس درجہ بے ثباتی ہے
اس لیے بھی میں سونا چاہتا ہوں 
میرے خوابوں میں ریل آتی ہے 
میں کوئی قتل ہی نہ کر بیٹھوں 
جس قدر مجھ کو جیل بھاتی ہے
ہاے وہ وقت جب ملیں گے نہیں 
سوچتا ہوں تو جان جاتی ہے
میں بہت جلد مارا جاؤں گا 
میرے ہمراہ میرا گھاتی ہے 
اور تو اس سے کیا تعلق ہے 
اک ملاقات حادثاتی ہے 
میں کسی روز جا کے دیکھوں گا 
موت کیوں اپنے ہاں بلاتی ہے
چاہتا ہوں کبھی نہ دکھ دیکھے
وہ جو ہر وقت مسکراتی ہے
میں اسے بھول کر بھی دیکھوں گا 
جو مجھے روز یاد آتی ہے 
یار وہ اتنی خوبصورت ہے
ایسا لگتا ہے پھول کھاتی ہے
پھول کا پھر بکھرنا بنتا ہے
وہ اگر پتیاں اٹھاتی ہے
وقت اور جگہ کا تو علم نہیں 
وہ مگر مجھ سے ملنے آتی ہے
(امتیاز انجم۔ اوکاڑا)

غزل
 اور کریں گے کیا ہم ٹوٹے لفظوں سے 
دل کو خوش کرتے ہیں جھوٹے لفظوں سے 
کہنے والے کہتے تھے کہ لفظ ہیں کیا 
کتنے گوہر پر پھوٹے ہیں لفظوں سے 
وہ بھی خوش ہیں کاٹ کے یار زباں میری 
شکر پڑھا کہ ہم بھی چھوٹے لفظوں سے 
میرے ہاتھ میں اُن کی صرف دوا آئی 
اُس نے جتنے سینے کوٹے لفظوں سے 
تم کیا جانو چپ کے معنی کیا ہوںگے
تم نے تو سب راہی لُوٹے لفظوں سے 
میں نے ہر اُس پیڑ سے بسمل ؔدرس لیا 
جو جو دیتے ہیں پھل بُوٹے لفظوں سے
(حاکم علی بسمل۔گڑھ موڑ، سلطان باہو)

غزل
فراق دوڑ کے آئی ہے ہم کو بتلانے 
جدا کرے تو کوئی تم کو ہم سے دیوانے 
ہمارے حال پہ روتے ہیں خود بھی ویرانے 
جو ہم پہ بیتی ہے کوئی بھلا وہ کیا جانے
یہ بزمِ شعر و سخن اور جھلکتے پیمانے
ہمارے دم سے ہی آباد ہیں یہ مے خانے 
بتائے کوئی تو جا کر یہ شمعِ حسرت کو 
غمِ فراق میں جلتے ہیں کتنے پروانے 
ہمارے ساتھ ستم اور ہمارے اپنوں نے 
کہاں کہاں نہ کیے، میں مرا خدا جانے 
گریباں چاک، یہ حلقے ہماری آنکھوں کے 
سنا رہے ہیں ہمی کو ہمارے افسانے 
چلا گئے ہیں مری پیٹھ پر وہی خنجر 
جو آ رہے تھے مسائل کو میرے سلجھانے
نہ جیتے جی کبھی پوچھا جنہوں نے حال مرا 
ابھی وہ دوڑ کے آئے ہیں مجھ کو دفنانے 
کٹے تو کیسے؟ غمِ زیست بن ترے طلحہ ؔ
تمھارے نام پہ دھڑکے ہے دل یہ دیوانے
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)

غزل
روشنی کا شگاف اندھیرا ہے
رات ہے اور صاف اندھیرا ہے
نور بردار میر لشکر ہے
کائناتی مصاف اندھیرا ہے 
ٹھوکریں کھا کے گر بھی سکتے ہیں
کیجیے گا معاف اندھیرا ہے
شے کی پہچان ضد سے ہوتی ہے
نور سے اختلاف اندھیرا ہے
عدل کنجی ہے کامیابی کی
عدل سے انحراف اندھیرا ہے
زندگی کا مسودہ پڑھیے
پہلا پیرا گراف آندھیرا ہے
ابنِ زم زم ہیں کربلا کو چلے
سعی کر یا طواف ،اندھیرا ہے
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)

غزل
 بت ایک توڑا تو پھر دوسرا تراش لیا
ہم ایشور سے بچے تو خدا تراش لیا
اب اور کوئی ہنر آزما کے دیکھتے ہیں
کہ ہم نے کار محبت سے کیا تراش لیا
تمام یاروں کی ہر ایک رائے کام آئی
تمام ذہنوں سے اک نظریہ تراش لیا
ملا تھا اذن مجھے آدمی بنانے کا
میں نے بگاڑ دیا اس کو یا تراش لیا؟
ہر اک جگہ پہ اجازت نہیں تھی رونے کی 
سو سارے دکھ ملا کے قہقہہ تراش لیا
مجھے کسی کی محبت کو پانا تھا سو میں نے
پہاڑ کاٹ کے اک راستہ تراش لیا
(امتیاز احمد۔منچن آباد۔ بہاولنگر )

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں