سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج میں اپنے دلائل ختم کرلونگا، آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے رابطہ کیا، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت دفاع نے 9 مئی کیس میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کردیا
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کہنا چاہ رہا تھا آٹھ ججز فیصلے کو دو افراد کسی محفل میں کہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا، 21ویں آئینی ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ملک حالت جنگ میں تھا۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ان واقعات میں جرائم آرمی ایکٹ میں نہیں آتے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلقہ ہو۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لیکر جایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34سال بعد کسی کو رہائی دینا انصاف تو نہیں ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ایئر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا سن دو ہزار دو سے لیکر ترمیم تک سولہ ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعہ میں دو کورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا۔
وکیل وزارت دفاع نے استدلال کیا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران ایئربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف نہ آنے والے جرائم کیلئے ترمیم کی گئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کردیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر انخصار کرتے ہیں، جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے، وکیل بلوچستان حکومت نے کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انخصار کرتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے حکومت بلوچستان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ عدالتی فیصلے سے متاثرہ کیسے ہیں، اکیسویں آئینی ترمیم فیصلے کا پیراگراف 122 پڑھیں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے جرائم کو چار سال کیلئے شامل کیا گیا، پہلے دو سال کیلئے ملٹری کورٹس بنیں، بعد میں دو سال توسیع ہوئی، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو بھی تک ترمیم کے تناظر میں بحال ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم کو شامل کرنے کیلئے ترمیم ہوئی تھی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن ٹو ون ڈی ٹو پر کسی عدالتی فیصلے میں بحث نہیں ہوئی، سیکشن ٹو ون ڈی ٹو مخصوص افراد کیلئے ہے، جبکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق بلا تفریق ملک کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیسے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کر سکتے ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کوئی رولز آف بزنس یا قانون بتا دیں نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے،
وکیل بلوچستان حکومت سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جس میں نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں اس مسئلے کو چھوڑیں اپنا حق دعوی ثابت کریں، سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو مرکزی کیس میں فریق بنایا گیا تھا۔
بلوچستان حکومت اور پنجاب حکومت نے خواجہ حارث کے دلائل اپنا لئے، وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لئے، شہدا فورم کے وکیل شمائل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شہدا فورم فریق نہیں تھی تو اپیل کیسے دائر کر دی؟ شمائل بٹ نے مؤقف اپنایا کہ شہری کی درخواست پر دو قوانین کالعدم قرار دیے گئے، میں شہداء کی لواحقین کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
شہداء فورم نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لئے، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل سابق چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے جرم میں ملوث ملزمان کو نہ کبھی بری کرنے کا کہا نہ یہ ہمارا کیس ہے، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا کیس صرف اس حد تک ہے کہ سویلیقن کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا، سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا سول عدضالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں پر اعتماد کیوں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ یہ اعتراض تو دوسری طرف سے بھی آ سکتا ہے، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمیں کبھی کورٹ مارشل کرنے والے افسران پرا بھی کوئی اعتراض نہیں رہا۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ جس عدالت نے سویلین کو فوجی تحویل میں دیا اس فیصلے کو آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا،خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 199 کا رٹ اختیار حق نہیں ہے بلکہ یہ عدالت کی صوابدید ہوتی ہے،
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ایسے وقت میں جب آئین ہمارے پیچھے ہو جو سب سے سپریم قانون ہے، سویلین ملزمان اور مسلح افواج کے ملزمان میں فرق کیا یے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں سویلین اور تربت میں رینجرز کے ہاتھوں سویلین کا قتل تو ٹرائل سول عدالتوں میں چلا۔
خواجہ احمد حسین نے مؤقف اپنایا کہ جب آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے تو بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں، یہاں اس کیس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو پر بھی بات ہوئی، قانون بنا کر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا، عام شہریوں کو یہ حق حاصل نہیں، وفاق کی جانب سے بار بار کہا گیا کہ ملٹری کورٹس کے فیصلوں میں وجوہات دی جائیں گی لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ وجوہات ہوتی ہی نہیں، ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے فیلڈ کورٹ مارشل، یہاں لفظ فیلڈ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں نو مئی ملزمان کا فیلڈ میں لے جا کر کورٹ مارشل کیا جائے، ایک بات ذہن میں رکھیں فوجی قانون دنیا میں سات سو سال پرانا قانون ہے، خواجہ احمد حسین نے مؤقف اپنایا کہ لفظ Nexus آئین یا قانون میں نہیں بلکہ ایک عدالتی فیصلے میں آیا ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 8(3) کی بنیاد پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ستفسار کیا کہ آپ کی اگر یہ دلیل ہے کہ ایف بی علی کیس فوج سے متعلق تھا تو عدالتی فیصلے میں قانون کی شقوں کو کالعدم قرار کیوں دیا گیا ہے، آپ خود مان رہے ہیں کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2(1)(ڈی) مسلح افواج سے متعلق ہے، کیا عدالتی فیصلے میں ان شقوں کو کالعدم قرار غلط تھا؟
اس موقع پر سماعت کل ساڑھے 9 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔