آپ سکون سے عید نہیں منا سکتے

ملک میں دہشت گردی اور اس کا بڑھتا ہوا تناسب پریشان کن ہے اسی لیے ہماری چھٹیاں ہر اہم موقعے پر منسوخ ہو جاتی ہیں۔


Shirin Hyder July 27, 2014
[email protected]

میرا نام خادم حسین ہے... میرا نام ہی نہیں بلکہ میرا کام بھی خادموں والا ہے۔میں پولیس کا ایک ادنی سا ملازم ہوں، میرا عہدہ سپاہی کا ہے اور میری ملازمت آزمائشوں کا سفر اور کانٹوں کا بستر ہے۔ جاڑے کی سرد راتوں میں جب ہر انسان متلاشی ہوتا ہے کہ نرم اور گرم بستر ملے، گرما کی تپتی دوپہروں میں... جب پرندے بھی نڈھال ہو کر فریاد کناں ہوتے ہیں، میں اپنی ملیشیا رنگ قمیض اور خاکی پینٹ پہنے، بغیر کسی سائے اور چھتری کے اپنے فرض کی ادائیگی کرتا ہوں۔

اپنے گھر والوں سے سیکڑوں میل کی دوری کے با وصف بھی دل ان کی یاد میں دھڑکتا ہے، میرے بوڑھے ماں باپ اور معصوم بچے مہینوں میری راہ تکتے رہتے ہیں، جب بھی کبھی گھر جانے کا منصوبہ بناتا ہوں، حالات کچھ ایسی کروٹ لے لیتے ہیں کہ جا نہیں پاتا، دل میں کسک لیے آپ لوگوں کی حفاظت کے فرض پر مامور ہوتا ہوں کہ یہی میری ملازمت کا تقاضہ ہے۔

اب کے برس تو میری چھٹی بھی منظور ہو گئی تھی مگر عید کے دوران دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر میرے نام کا قرعہ ان لوگوں کے ساتھ نکلا ہے جنھیں عید کے روز سیکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر روک لیا گیا ہے...سات سال... چودہ عیدیں... میرے بچوں کی بچپن کی ساری عیدیں میرے بغیر گزری ہیں اور اب پندرہویں بھی گزر جائے گی۔

انھیں معلو م ہی نہیں کہ عید کے دن باپ کے گلے لگ کر عید مبارک کہہ کر عیدی کیسے وصول کی جاتی ہے... میری بیٹیوں کو حسرت ہی رہی کہ وہ اپنی کانچ کی چوڑیوں والی کلائیوں اور ہتھیلیوں پر بنے مہندی کے نقش و نگار والے ہاتھ باپ کے سامنے پھیلا کر عیدی کا مطالبہ کریں۔ میری بیوی کے ہار سنگھار اور اس کے ہاتھوں کے پکوان... میں چشم تصور میں ہر سال یہ سب دیکھ کر رہ جاتا ہوں۔ بوڑھے ماں باپ... اپنی عمر کے آخری سال جی رہے ہیں، جانے مجھے زندگی میں ایک بار ان کے ساتھ عید منانا نصیب ہو گا کہ نہیں؟؟ کہیںسے کوئی بھولی بھٹکی گولی... کوئی دہشت گردی کی واردات یا کوئی خود کش حملہ... بس سوچ کر رہ جاتا ہوں۔ میں تو اپنے گھر والوں کے پاس اچھی یادیں تک نہیں چھوڑ سکا۔

اللہ کا پھر بھی ہر حال میں شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے عزت والی نوکری عطا کی ہے اور اس اہم ذمے داری پر تفویض کیا ہے جس کا آپ کو احساس تک نہیںہوتا مگر اس کا اجر اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے، ہم اپنی جانیں اللہ کی راہ میں اور اپنے فرض کی خاطر قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں... ہم جاگتے ہیں تو آپ سکون کی نیند سوتے ہیں، بازاروں میں دن رات دھڑا دھڑ خریداری کرتے ہیں، سڑکوں پر سفر کرتے ہیں، اسپتالوں میں جاتے ہیں، ائر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن پر جا کر خو د سفر کرتے ہیں یا اپنے پیاروں کو خوش آمدید کہنے جاتے ہیں... محرم اور عید میلاد النبی کے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں اور تو اور نماز تک پڑھتے ہیں۔

ملک میں دہشت گردی اور اس کا بڑھتا ہوا تناسب پریشان کن ہے اسی لیے ہماری چھٹیاں ہر اہم موقعے پر منسوخ ہو جاتی ہیں۔ اپنے دل کی حسرتوں کو دل میں دبائے میں اور میرے جیسے ہزاروں لوگ اپنے فرض کی پکار پر آپ کی حفاظت پر مامور آپ سب کو عید کے دن اپنے پیاروں کے ساتھ خوش اور ہنستا کھیلتا دیکھتے اور آپ کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔ آپ عید کی نماز پڑھ کر نکلتے ہیں، ہم باہر کڑاکے کی دھوپ میں آپ کی حفاظت کی خاطر کھڑے ہوتے ہیں، پلک تک نہیں جھپکتے کہ کہیں ہماری اتنی سی غفلت بھی آپ لوگوں کی جان کو خطرے میں نہ ڈال دے، آپ ہنستے ہیں تو ہمارے دل مسرور ہوتے ہیں۔

آپ سب کے منہ نہیں بلکہ دلوں سے ایک دوسرے کے لیے عید مبارک کے الفاظ نکلتے ہیں، آپ سرشاری سے ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں، دوست، احباب، پڑوسی اور کئی تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں آپ جانتے تک نہیں مگر آپ جوش جذبات میں انھیں بھی گلے ملتے ہیں۔ ہمارے پاس سے لاپروائی سے گزر کر... اور تو اور اپنی گاڑی تک پہنچتے ہیں تو اپنے ڈرائیور کو بھی اس روز گلے لگا لیتے ہیں کہ وہ آپ کا خدمت گار ہے، ہاں اگر کسی کو نہیں ملتے تو وہ ہم ہیں، کسی کو عید مبارک کہنا ضروری نہیں سمجھتے تو وہ ہم ہیں، ایک مسلمان بھائی تو کیا انسان بھی نہیں سمجھتے ... ہم تو ہیں ہی آپ کے خادم!!

ہم آپ کو دوسروں سے گلے ملتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہمارے چہروں پر آس اور امید ہوتی ہے کہ شاید ہم بھی آپ کو نظر آ جائیں، راہوں میں پڑے ہوئے، اپنی جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے!! آپ درجنوں لوگوں سے گلے مل کر ہمیں نظر انداز کرتے ہوئے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو جاتے ہیں اور ہماری نظریں دیر تلک آپ کا پیچھا کرتی ہیں... ہمیں عید منانے کا کوئی حق نہیں کیا؟

عید کے دن جب آپ قیمتی، رنگ برنگے اور خوشبوؤں میں بسے ملبوسات میں ملبوس ہوتے ہیں... ہم اس روز بھی اپنی معمول کی وردی میں ملبوس ہوتے ہیں، آپ نماز عید ادا کرتے ہیں اور ہم آپ کی حفاظت پر متعین ہوتے ہیں سو اس سعادت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ آپ ایک دوسرے سے گلے مل کر عید کی مبارک باد کہتے ہیں تو ہم اس خوشی کو ترستے ہیں... آپ اپنے گھر جا کر میٹھے پکوان کھاتے ہیں تو اس وقت بھی ہم سڑکوں پر ہی ہوتے ہیں، آپ اپنے گھر والوں سے خوش گپیاں کرتے ہیں تو ہم اپنے گھر والوں کی یاد میں ترستے ہیں۔ آپ کی بیٹیاں پھولے پھولے فراک پہنے، اپنے ہاتھوںمیں چوڑیاں سجائے اور مہندی رچائے آپ سے لپٹ جاتی ہیں، ایسے میں ہماری بیٹیاں انتظار کے دیے جلائے اداس بیٹھی ہوتی ہیں، آپ کے ماں باپ آپ کو عید مبارک کہہ کر دعا دیتے ہیں تو ہمارے ماں باپ ہمارے لیے غائبانہ دعائیں کرتے ہیں کہ ہمیں عید کی خوشیاں چاہے نصیب نہ ہوں مگر ہمیں اپنے والدین سے ملاقات نصیب ہو جائے، وہی دن ہمارے گھر والوں کے لیے عید کا دن ہوتا ہے۔

یہ کہانی، یہ درد اور ہماری اور آپ کی بے اعتنائی کی داستان ایک ادنی سپاہی کی زبانی ہے، ایک ان پر ہی کیا موقوف... آپ کے ارد گرد کتنے ہی لوگ ہیں جو آپ کی محبت، توجہ اور نظر کرم کے طالب ہوتے ہیں، عام دنوں میں کم اور عید کے خصوصی دن پر زیادہ۔ آپ کے گھر کا مالی، آپ کے گھر اخبار اور دودھ دینے والا... عید کے دن بھی ان کا ناغہ نہیں ہوتا، آپ کے گھر میں ملازمین ہوتے ہیں ان کی چھٹی نہیں ہوتی... کیا آپ کے ہمہ وقت کے خدمت گار اس کے مستحق نہیں ہوتے کہ آپ انھیں عید ملیں، مبارک باد دیں، عیدی دیں اور انھیں اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔ محبت اور خوشی دنیا کی وہ چیزیں ہیں جنھیں تقسیم کرتے جاؤ تو وہ ضرب در ضرب کے عمل سے گزرتی ہیں ... اور اپنے سے نیچے والوں میں محبت بانٹنے والے تو وہ ہیں جو اللہ کی محبت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

چند سال قبل تک عید کارڈز کے ذریعے مبارکباد کا رواج تھا... ٹیلی فون کال نے عید کارڈ کی روایت کو کم کر دیا۔ پھرٹیلی فون کال کی بجائے ایس ایم ایس کے ذریعے عید مبارک کہا جانے لگا ... اور اب فیس بک یا ٹوئیٹر پر ایک سطر ٹائپ کر کے انفرادی پیغامات بھجوانے کے تردد سے بھی فراغت پا لی گئی ہے۔آپ اپنے فون کی contact لسٹ کھولیں... اس میں جتنے لوگ ہیں انھیں عید مبارک کے پیغامات بھیجیں، جب پیکیج اتنے سستے دستیاب ہیں تو کیوں نہ ان سے چھوٹی چھوٹی نیکیاں کما لی جائیں... اس میں آپ کے دفتر کے ماتحت ہوں گے، آپ کے گھر پر جنھوں نے کبھی لکڑی، بجلی، گیس، پلمنگ یا مرمت کا کوئی کام کیا ہو گا وہ سب ہوں گے... آپ کے بینک کے اسٹاف کے نمبر ہوں گے، ریڈیو کیب یا ٹیکسی سروس کے نمبر ہوں گے۔

آپ کے درزی کا، حجام کا، گاؤں کے مزارعوں کے، میٹر ریڈرز کے، دھوبی کا، سبزی، گوشت اور پرچون کی دکان والے کا، تنور والے کا... اور ایسے ہی سیکڑوں لوگ جن سے زندگی میں کبھی نہ کبھی آپ کا واسطہ پڑتا رہتا ہے... ایک مختصر سا عید مبارک کا پیغام بھیجیں، ان لوگوں کو احساس ہو گا کہ کام کے علاوہ بھی یہ لوگ آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں اور آپ انھیں ضرورت یا مصیبت کے وقت کے علاوہ... خوشی کے لمحات میں بھی یاد کرتے ہیں۔ میٹھے بول میں جادو تو ہم سب نے سن رکھا ہے، اسے آزما کر بھی دیکھیں، آپ کو اپنی خوشی کئی گنا بڑی لگے گی۔جب آپ لوگ عید کی نماز کے لیے نکلیں تو عموما مسجد کے امام اور موذن کے لیے آپ کچھ نہ کچھ لے کر جاتے ہیں۔

اب کی بار اس میں ذرا اضافہ کر کے دیکھیں، عید کی نماز کے بعد آپ کی ملاقات کن کن لوگوں سے ہو سکتی ہے، سوچیں اور اس کے مطابق چھوٹے چھوٹے سے تحائف اپنے ساتھ رکھیں خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہوں، ان چند لوگوں کو پہچانیں جو آپ کی خوشی اور تحفظ کی خاطر اپنی خوشی کو تج کر، اداس چہروں کے ساتھ، فرض سے مجبور... آپ کی بے رخی کے شکار ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں... آپ کی خوشیوں کا صدقہ ادا ہو گا اور انھیں اپنا فرض برا نہیں لگے گا... تحائف نہیں بھی لے جا سکتے تو کم از کم انھیں ایک مسکراہٹ سے ضرور نوازیں، انھیں گلے مل کر عید کی مبارک باد کہیں، ان کا شکریہ ادا کریں اور انھیں اس بات کا احساس دلائیں کہ ان کے بغیر آپ اپنی عید سکون سے نہیں منا سکتے!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں