انسان دوست مختار رانا
1969 میں فیصل آباد میں پیپلز اکیڈمی کی بنیاد رکھی جس کا افتتاح بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے کیا۔
جمعہ 18 جولائی افطار سے ایک گھنٹے قبل جان عالم ایڈووکیٹ کا فون آیا کہ رضی بھائی لندن سے اکرم قائم خانی نے اطلاع دی ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی رکن مختار رانا چل بسے۔ دوستوں کو اطلاع کردو اور اخبارات میں خبر بھی لکھوا دو۔
میں نے بہت جگہ فون کیے لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اگلے دن کسی بھی اخبار میں اسٹاف رپورٹر کے حوالے سے مختار رانا کے انتقال کی خبر نہیں تھی سوائے ایکسپریس اور ایک دوسرے روزنامے میں معراج محمد خان کے تعزیتی بیان کے۔ ہاں البتہ ڈان اخبار میں لاہور سے خبر موجود تھی۔ کیا ہمارے اردو اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان یا صحافی حضرات مختار رانا کو نہیں جانتے تھے؟ خیر مختار رانا چلے گئے۔
وہ ایک سچے کھرے، مزدور دوست ،عوام دوست پڑھے لکھے انسان تھے وہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد فیصل آباد آگئے جہاں ٹیکسٹائل ملز کے کئی ایک کارخانے تھے اور اب بھی ہیں۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ایم اے (M.A) انگلش کیا اور محنت کشوں کی ٹریڈ یونینز بنائی، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مل کر کام کیا۔ کئی یونینز کی بنیاد رکھی بعدازاں وہ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں (Aramcoآرام کو) کمپنی میں ملازمت کرنے لگے وہاں بھی یونین بنائی اور ملازمت سے نکال دیے گئے ۔
واپس فیصل آباد آگئے بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے جس کے بنیادی رکن بنے۔ 1969 میں فیصل آباد میں پیپلز اکیڈمی کی بنیاد رکھی جس کا افتتاح بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے کیا۔ 1970 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی مزدوروں کی مقبول جماعت تھی اور وہ مزدور لیڈر تھے۔ عوام اور مزدور تبدیلی چاہتے تھے۔ فیصل آباد جو پہلے لائل پور تھا پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا تھا۔ ایک مل میں ہڑتال تھی۔ ملز کے مزدور ان کے حمایتی تھے۔ دوسری ٹیکسٹائل مل میں بھی ہڑتال تھی۔ 1971 اور 1972 میں حکومت بن چکی تھی۔ مزدور سراپا احتجاج تھے۔ ہوزری مل کے مالک نے مزدور لیڈر ریاض اور مزدوروں کو غنڈوں سے مروایا پولیس والوں سے مدد لی۔ اس طرح مل مالکان اور حکومت سے مزدوروں کا تصادم ہوا۔
مل مالکان نے اتحاد بنالیا اور حکومت سے شکایت کی۔ بھٹو صاحب کو خبر ملی انھوں نے مختار رانا کو طلب کیا معلومات لی گئیں۔ اگلے ہفتے پھر مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ شروع ہوگیا۔ ایک ٹیکسٹائل ملز میں ہڑتال جاری تھی جس کے دو مزدوروں کو چمنی میں ڈال کر ہلاک کردیا گیا تھا ۔ یہ اطلاع جب ملک بھر کے محنت کشوں کو ملی تو پورے ملک میں محنت کشوں نے مظاہرے شروع کردیے اس طرح لائل پور میں مزدوروں کی قیادت مختار رانا کرتے رہے۔
مزدوروں کی ہلاکت کے بعد مزدوروں نے مل پر قبضہ کرلیا اور مل مالک کو بھی اسی طرح ہلاک کردیا گیا جس پر پنجاب حکومت کے غلام مصطفی کھر نے مختار رانا کے خلاف قتل کا مقدمہ بنادیا گیا۔ مختار رانا نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی اور یہ ضمانت جسٹس جاوید اقبال (علامہ اقبال کے فرزند) نے لی۔ مختار رانا کراچی آگئے۔ وہ پاکستان افرو ایشین کمیٹی کے جنرل سیکریٹری بھی تھے جس کے صدر عبدالمالک ہوا کرتے تھے۔
کراچی میں واقع جہانگیر پارک میں افرو ایشین کمیٹی کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ راقم بھی وہاں جایا کرتا تھا مختار رانا اس دفتر میں رہنے لگے مگر CID والے پیچھے لگے ہوئے تھے پھر وہ انڈر گراؤنڈ ہوگئے ۔کراچی میں خداداد کالونی میں ایسٹ پاکستان کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے مختار رانا نے حکمرانوں اور حکومت کی مذمت کی۔ بعدازاں وہ گرفتار کرلیے گئے کورٹ سے تین سال کی سزا ہوئی۔ دو سال کی جیل کاٹ کر پھر کراچی آئے بعد میں بھٹو صاحب کے ساتھ خفیہ ملاقات ہوئی جس میں بیگم نصرت بھٹو بھی موجود تھیں جنھوں نے بعد میں اسلم رانا کو بتایا کہ بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ میرا ساتھ دو یا پھر ملک چھوڑ دو ،قتل کی FIR درج ہے۔
اس عرصے میں انڈر گراؤنڈ ہی رہے اور مزدوروں میں کام کرتے رہے اور پھر 1976 میں زبردستی جہاز میں سوار کرکے ٹکٹ اور پاسپورٹ دے کر جلاوطن کردیا گیا۔جہاں وہ وکالت کرتے رہے وہ بڑے عظیم انسان تھے۔ ان کے دوستوں میں عبدالقیوم بٹ جو راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے MNA اور MPA رہے۔ خالد رانجھا ایڈووکیٹ ، فیصل آباد کے ریاض شاہد MPA کراچی سے اسلم رانا ایڈووکیٹ، جان عالم ایڈووکیٹ ان کی شادی محمود علی قصوری کے گھر میں ڈاکٹر کشور سے ہوئی ان کے دو بیٹے ڈاکٹر حسن مختار، ثاقب مختار اور بیٹی عطرت مختار ہیں۔ انھوں نے لندن میں ایک برطانوی نژاد خاتون سے شادی کی جن کا نام اسلام قبول کرنے کے بعد اروما ہے وہ خود بھی ایک پڑھی لکھی سوشل ورکرز ہیں ۔ میں لندن میں 2007 میں ان کے گھر لندن پر قیوم بٹ کے ساتھ گیا تھا۔
ان کا خوبصورت پھولوں سے سجا ہوا گھر ان کی انگریز بیگم اروما کے ہاتھوں سے بنی ہوئی سبزیوں کی ڈش اور سوئیٹ آئسکریم کھائی دونوں بوڑھے اچھے لگ رہے تھے۔ دھیمے دھیمے انداز میں پاکستان کے محنت کشوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔ پھر وہ 2008 میں کراچی آئے تھے جہاں کراچی پریس کلب میں صحافیوں شاہد حسن اور حبیب غوری نے ان سے انٹرویو کیے تھے ایک اچھا انسان اور محنت کشوں کا بے لوث دوست ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔