نہیں مٹے گی یہ لکیر

حقیقت کچھ اور ہے، وقت ’’اسٹارٹر‘‘ ہے وہ کبھی غلط وقت پر وسل نہیں بجاتا بلکہ جو لوگوں کو شاید نظر نہیں آتا



ریس کے مقررہ نشان پر تمام دوڑنے والے کھڑے ہیں۔ ایک شخص کے ہاتھ میں پستول ہے۔ وہ فائر کرتا ہے اور تمام شریک مقابلہ دوڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک مقررہ فاصلہ ہے۔ اور اسے پورا کرنے کے بعد جس ترتیب سے دوڑنے والے ''جیت کی لکیر'' پر پہنچتے ہیں وہی ان کی کارکردگی کا نمبر ہوتا ہے اور یوں اول سے آخر تک تمام نمبر طے ہوجاتے ہیں۔

کسی کسی نمبر پر کئی دوڑنے والے بیک وقت بھی پہنچتے ہیں۔ لیکن قدموں کے آگے پیچھے پڑنے سے اور ان کے درمیان خفیف سے فرق کو بھی نوٹ کرکے ہر ایک کو نمبر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے نظم و ضبط اور اسے کہتے ہیں ''انصاف کا حسن انتظام۔''

ایسی دوڑیں صرف ایک جذبے کے تحت ہوتی ہیں اور وہ ہے ''ہدف کا حصول'' اور جب آپ اس "Winning Line" جیت کی لکیر کو کراس کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا دل کتنا خوش ہوتا ہے اپنی کارکردگی پر، تیاریوں پر اور جو بھی نمبر آئے وہ ایک نہایت Crystal Clear 'شفاف'' عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جسے ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے آپ کے ساتھ ساتھ دیکھا ہوتا ہے۔ نمایاں مقام یا نمبر نہ پانے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں رہ گیا؟ طاقت نہیں تھی؟ حوصلہ نہیں تھا؟ تیاری ٹھیک نہیں تھی؟ یا ''اسٹارٹ'' ٹھیک نہیں تھا۔

یہ اصول دنیا کی قوموں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور معیشت اور ترقی کے میدانوں میں ہدف کے حصول کے لیے۔ ہر قوم کی اپنی تیاری، اپنی ''اسٹرٹیجی '' ہے اور ہر قوم کو مقابلے کے میدان کا پتہ ہے۔ جیت کے اصول پتہ ہیں ہارکے مضمرات کا علم ہے۔ سارے دوڑنے والے سامنے ہیں سب کی استعداد کا علم ہے اور سب نے مقابلے کو کس طرح جیتنا ہے یہ بھی علم ہے قوم کو کیا توقعات ہیں کیا چاہتی ہے یہ بھی پتا ہے۔ اس مقابلے میں شریک ہر قوم کے اپنے اپنے Reservations ان کی اپنی ترجیحات ہیں، اپنی ضروریات کا علم ہے، اپنے وسائل کا علم ہے، دونوں کو Is Equal To یعنی توازن پیدا کرنا بھی آتا ہے، اور سب اپنی بہترین کاوشیں ''قوم'' کو ''فاتح'' بنانے پر صرف کردیتے ہیں۔ اس کا اطلاق "Sports" سے لے کر اسلحہ تیار کرنے اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے تک پر ہوتا ہے۔

ابھی برازیل میں ملک کے بدترین حالات تھے۔ عوام معاشی طور پر بدحال تھے اور ان کے مطالبے، ہڑتال، ریلیاں، چل رہی تھیں، سارا کچھ تھا مگر ورلڈ کپ منعقد ہوا۔ ایک دانش مند انتظامیہ نے تمام تر حالات کے باوجود دنیا میں یہ کرکے دکھادیا۔ اسے کیا کہیں گے، ناراض عوام سے حکومت نے کیا طے شدہ ''عوام دوست'' طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔گراؤنڈز میں فٹ بال کے مقابلے ہوتے رہے اور باہر عوام کا احتجاج بھی چلتا رہا۔ عوام کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہاں فٹ بال کا ورلڈ کپ ہو رہا ہے۔ ہمارا ہدف ہمارے مسائل کا حل ہے اور وہ حکومت سے ہم چاہتے ہیں کہ "Starting Whistle" بجائے اور ہمیں ہمارے مسائل کی دوڑ کے خاتمے سے آگاہ کرے اور خود ''کاوش اور کوشش'' کی دوڑ شروع کرے۔

ہم ایک بڑی قوم ہیں، بہادر قوم ہیں، کسی قوم کے لوگوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو اس ''بہادری'' سے قتل نہیں کیا، جتنا ہم نے کیا اورکر رہے ہیں۔ کراچی سے فاٹا تک، طالبان سے لاہور پولیس تک اسے ''بہادری'' نہ کہوں تو کیا کہوں؟ ہم نے ہر ریس میں حصہ لیا ہے مگر ہر بار ریس کے ''جوتے'' پہننا بھول جاتے ہیں، اس میں ہمارے اس پیارے دیس کی ہر ''دلعزیز'' پارٹی شامل ہے، اس ریس کا "Starter" ہمیشہ غلط وسل بجاتا ہے۔ یا غلط وقت پر وسل بجاتا ہے۔ یہ دوڑنے والوں کا کہنا ہے۔

حقیقت کچھ اور ہے، وقت ''اسٹارٹر'' ہے وہ کبھی غلط وقت پر وسل نہیں بجاتا بلکہ جو لوگوں کو شاید نظر نہیں آتا مگر ''سچ'' ہے کہ دوڑنے والے کے منہ میں کچھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوڑ نہیں پاتے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دوڑتے وقت تو چیونگم چبانا بھی "Allowed" نہیں ہوتا۔ اور یہ جب حکومت میں آتے ہیں تو ''عوامی خدمت'' کی دوڑ میں ''پورا کھانا'' دوڑ کے دوران کھانا چاہتے ہیں۔

دراصل یہ دوڑ ہوتی ہے ''ٹائم والی'' صرف پانچ سال۔ اس میں ''کھا'' بھی لینا ہے، دوڑنا بھی ہے اور یہ آرزو الگ ہے کہ ''کھایا ہوا'' ہضم بھی ہوجائے۔ یہ سارا کچھ میرا ہے، میں عوام ہوں، میرا دیا ہوا ''ٹیکس'' ہے جو یہ دوڑنے والے ''کھا جاتے'' ہیں۔ بینکوں کو کھا جاتے ہیں،اداروں کو ''ہڑپ'' کر لیتے ہیں، ان کا کوئی بھی ''نام'' ہو، ''کام'' ایک ہیں۔ ''حسن انتظام'' کا ذکر کریں تو الگ شرمندگی ہوتی ہے۔ سیلاب آجائے ''زلزلہ'' برپا ہوجائے، ''ملک دشمنوں کا خاتمہ'' ہو ہر کام ''فوج'' کرے اور اچھا کرے۔ ہم اسے ''تنخواہ'' دیتے ہیں ، اچھا؟ دوسرے سارے بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں؟ وزیر اعظم، صدر اور یہاں سے نیچے تک یہ سارے''اعزازی'' ہیں؟ ان میں سے کتنے لوگ سرحدوں پر جاگ رہے ہیں؟ مجھ سے پوچھو تو یہ ''نظریاتی سرحدوں'' پر بھی سو گئے ہیں۔ ہمیشہ کے پاکستان دشمن ملک میں جاکر کہتے ہیں کہ زمین ایک ہے، لوگ ایک ہیں، رسم و رواج ایک ہیں، سب کہتے ہیں۔ تو یہی تو وہ پاکستان دشمن کہتے ہیں کہ ہم ایک ہیں، مٹا دو یہ لکیر، نہیں مٹا سکتے 67 سال ہوگئے ہیں، 67 ہزار سال بھی گزر جائیں نہیں مٹے گی یہ لکیر، یہ خون کی لکیر ہے، شہیدوں کے عظیم خون کی لکیر۔

ماؤں بہنوں کی عزت کی لکیر جو اس لکیر کو قائم کرنے میں لٹ گئیں، ان پاکستان کے عظیم سپوتوں کے پاک خون کی لکیر ، جو آج بھی اپنے خون سے پاکستان کی سرحدوں کی لکیر کو گہرا کر رہے ہیں۔ اور گہرا اور مضبوط۔ یہ سوچ لینا چاہیے کہ کتنا بھی ''کھا'' لو اس ملک سے الگ نہیں ہوسکتے، اسے تاریخ نے ایک ''مقناطیس'' بنادیا ہے جس سے ہم سب ''جڑے'' ہوئے ہیں۔ ذرے الگ الگ ہوں مگر جب ''مقناطیس'' سے ''جڑ'' جائیں ایک نظر آتے ہیں، چاہے کتنے بھی الگ سوچتے ہوں۔

پالیسیاں ٹھیک کرو، تیاریاں درست کرو، ''کھانا'' چھوڑ دو، دوڑنا شروع کرو، ہر داستان میں ہماری داستان ہے، یہ ہمارا ماضی ہے، اسے ہمارا مستقبل بنادو، ہم نے اس لیے تمہیں اس ''ریس'' میں اتارا ہے دوڑنا تو پڑے گا، ورنہ ریس سے الگ کردیے جاؤگے۔ آئی ڈی پیز تمہارے بھی بھائی ہیں، ان کو جگہ دو۔ ''حسن انتظام'' سے پاس رکھو، آپریشن کے بعد عزت سے واپس روانہ کرو، غلطی کروگے، کچھ اور طالبان پیدا کردوگے جو اب صرف تمہارے خلاف ہوں گے، کیونکہ ''ریس'' سب کے سامنے ہو رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں