نظامی صاحب…چند یادیںکچھ باتیں

ٹرینی سب ایڈیٹر کے لیے ٹیسٹ کلیئر ہوا تو بتایا گیا کہ انٹرویو ایڈیٹر خود کرینگے۔


Ayaz Khan July 29, 2014
[email protected]

ٹرینی سب ایڈیٹر کے لیے ٹیسٹ کلیئر ہوا تو بتایا گیا کہ انٹرویو ایڈیٹر خود کرینگے۔ 1989 کا سال اورنومبر کا مہینہ تھا، شام ساڑھے 4 بجے کے قریب مجھے طلب کیا گیا۔ میں دفتر میں داخل ہوا تو مجید نظامی اپنی کرسی پر براجمان تھے۔

مجھے بیٹھنے کے لیے کہا، دو تین سوال پوچھے اور ایڈیٹر کوآرڈینیشن اقبال زیبری مرحوم کے سپرد کر دیا۔ مختصر سے انٹرویو کے بعد انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو موقع دے رہے ہیں۔ اس دن سے میں نے نوائے وقت جانا شروع کر دیا۔ اس اخبار سے میری 13 سالہ رفاقت اپریل 2002 ء میں ختم ہوئی جب میں نے روزنامہ ایکسپریس جوائن کیا۔ مجید نظامی کے انتقال کی خبر سنی تو جیسے پورا دور آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ ٹرینی سب ایڈیٹر سے میں صرف 11ماہ میں سب ایڈیٹر ہو گیا۔

کنٹریکٹ کی جگہ ریگولر ہوا تو خوشی کی انتہاء نہ رہی اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس دور کے نوائے وقت میں دو لوگوں کا نظامی صاحب سے رابطہ سب سے زیادہ ہوتا تھا ایک ڈپٹی ایڈیٹر اور دوسرا ڈسٹرکٹ نیوز انچارج۔ زبیری صاحب کے انتقال کے بعد ڈپٹی ایڈیٹر سب سے بڑا عہدہ بن گیا۔ ایڈیٹر نظامی صاحب خود تھے اس لیے کسی اور کے ایڈیٹر بننے یا پرنٹ لائن پر نام شایع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

میں ڈسٹرکٹ نیوز انچارج بنا تو نظامی صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔کئی بار ایسا ہوتا کہ ایک دن میں دو، تین ملاقاتیں بھی ہو جاتیں۔ نظامی صاحب جب موڈ میں ہوتے بھائی جی کہہ کر پکارتے۔ پنجابی بولنا انھیں پسند تھا اس لیے زیادہ تر گفتگو پنجابی میں ہی ہوتی۔ نوائے وقت میں گزرے 13برسوں میں ایک، دو بار ڈانٹ کا مرحلہ بھی آیا مگر مجموعی طور پر بڑے خوشگوار تعلقات رہے۔ ایک اسٹیج پر مجھے لگتا تھا کہ میں نوائے وقت چھوڑ کر کہیں جا ہی نہیں سکتا۔

آج لکھنے بیٹھا ہوں تو اپنے بیشمار سینئر اور ساتھی یاد آ رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے بھی نام لکھنے بیٹھا تو جگہ کم پڑ جائے گی۔ میرے کئی سینئرز نے لکھا ہے کہ انھوں نے نظامی صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ میں ان کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ مرحوم کی تحریر بڑی جاندار تھی۔ ان کے ایڈٹ کیے ہوئے لاتعداد کالم میری نظروں سے بھی گزرے ہیں۔ مجھے یاد ہے کسی بڑے کالم نگار کی تحریر میں انھوں نے چار پانچ جملے کاٹ دیے اور ان جملوں کی جگہ ایک لفظ لکھا اور وہ لفظ اتنا جاندار کہ ان جملوں پر بھاری۔

خبریں بھی ایڈٹ کر کے بھجوایا کرتے تھے۔ نوائے وقت کے نیوز ایڈیٹر یا شفٹ انچارج کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ وہ نظامی صاحب کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے خبروں کی ایڈیٹنگ اور پلیسمنٹ کا فیصلہ کرتا تھا۔ نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں جب سارے اخبارات میاں شریف مرحوم کو ابا جی لکھ رہے تھے نوائے وقت میں ایسا لکھنے پر پابندی تھی۔ نظامی صاحب کہتے تھے کہ ان کے میاں شریف کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اس لیے ان کے اخبار میں 'ابا جی' نہیں چھپ سکتا۔ نواز شریف اور سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان جب عدالتی تنازعہ چل رہا تھا تب ایک خبر فائل ہوئی تھی۔ میں نے طے کیا تھا کہ کسی کولیگ کا نام نہیں لکھنا مگر یہاں ذکر کیے بغیر بات بنے گی نہیں۔

قصہ یوں ہے کہ برادرم سلمان غنی نے اسی جوڈیشل کرائسس کے حوالے سے ہونے والی ایک ملاقات کی خبر فائل کی۔ میں نے وہ خبر دیکھ کر سلمان سے کہا، یہ خبر نظامی صاحب کو دکھائے بغیر نہیں جا سکتی۔ وہ خبر کلیرنس کے لیے مجید صاحب کو بھجوا دی۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے مجھے طلب کیا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر یوں گویا ہوئے بھائی جی اس خبر کا ایک ایک لفظ درست ہے لیکن یہ میرے اخبار میں نہیں چھپ سکتی۔ کوئی سوال پوچھنے سے پہلے خود ہی وضاحت بھی کر دی۔ کہنے لگے وہ چونکہ جاتی عمرہ میں ہونے والی اس میٹنگ میں شریک تھے اس لیے اصول کا تقاضا ہے کہ اسے شایع نہ کیا جائے۔

نظامی صاحب میں بشری کمزوریاں بھی تھیں۔ ان کے نظریات سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ایک خوبی تھی کہ جس نظریے کا دامن پکڑا مرتے دم تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آج مجھ مرحوم عباس اطہر بھی یاد آ رہے ہیں۔ شاہ جی نظامی صاحب کے بہت بڑے فین تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ انھوں نے مجید نظامی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس دور کے نوائے وقت کا یہ اعزاز ہے کہ اس نے بڑے بڑے کالم نگار پیدا کیے۔ عبدالقادر حسن میرے نوائے وقت جوائن کرنے سے پہلے جا چکے تھے۔

اس دور میں عطاء الحق قاسمی اور نذؔیر ناجی دونوں کے کالم صفحہ دو شایع ہوتے تھے۔ ناجی صاحب کا کالم دائیں طرف اور قاسمی صاحب کو بائیں طرف چھپتا تھا۔ یہ صفحہ تیار کرانا تب میری ذمے داری تھی۔ ایک بار غلطی سے ترتیب الٹ گئی تو نذیر ناجی نے مجھ پوچھا کہ ایسا کیسے ہو گیا۔ میں نے ان کا سوال نظامی صاحب تک پہنچا دیا۔اس کے تھوڑی دیر بعد ناجی صاحب اور میں نظامی صاحب کے سامنے تھے۔ نظامی صاحب نے جو جملہ پنجابی میں ادا کیا وہ مجھے ابھی تک یاد ہے۔ میں اردو میں اس کا ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کہنے لگے ناجی صاحب ویسے تو آپ پکے لیفٹیسٹ ہیں لیکن کالم رائٹ پر چھپوانے کا بڑا شوق ہے۔

کرکٹ کے بڑے شیدائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کا کوئی بھی ٹورنامنٹ آتا اس کی خبریں شایع کرنے کا خاص اہتمام کیا جاتا۔ ورلڈ کپ کی تو تیاری ہی اور ہوتی۔ نظامی صاحب کی گفتگو میں بھی کرکٹ کا کوئی نہ کوئی حوالہ مل جایا کرتا تھا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کی خبر انھیں کہیں سے بھی مل جاتی بھجوا دیا کرتے تھے۔ بڑے سے بڑا دباؤ بھی برداشت کر جایا کرتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ کہیں اوپر سے کوئی ایڈوائس آتی تو اپنے نیوز ایڈیٹر یا شفٹ انچارج سے ڈسکس ضرور کرتے مگر خبر کے ڈسپلے کا فیصلہ اس پر چھوڑ دیتے۔

بحث کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ سمجھتے کہ انھوں نے جو کچھ کہہ دیا وہی ٹھیک ہے۔ انھیں چکر دینا بھی بڑا آسان تھا۔ مجھے کئی ایسی میٹنگز یاد ہیں جن میں متعدد فیصلے ہوئے لیکن کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ میں نے ایک بار اپنے سینئر سے پوچھا تھا کہ آپ جو دعوے اور وعدے اندر کر کے آئے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل کیوں نہیں ہوا۔ موصوف نے کہا وہ سب کچھ میٹنگ کے لیے تھا تم بھی اسے بھول جاؤ اور اپنا کام کرو۔

مجید نظامی چلے گئے۔ صحافت کا ایک اور دور ختم ہوا۔ یہ دور دوبارہ نہیں آئے گا۔ یادیں ہیں یاد آتی رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں