انقلاب کی جدلیات پہلا حصہ
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے مختلف سیاسی جماعتیں انقلاب کا نعرہ بلند کرنے میں مصروف ہیں
DASU:
مغرب میں بورژوا سماجی سائنسدانوں کی اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ انقلاب سماجی ارتقا کے راستے میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ارتقا سے ان کی مراد پیداواری قوتوں،سائنسی و تکنیکی اور سماجی و ثقافتی عمل کی وہ حرکت ہے کہ جس سے سماج میں لگنے والی معیاری ارتقائی جستوں کو خارج کردیا جاتا ہے، یعنی نیچے سے اوپر کی جانب سلسلہ وار ارتقا ہوتا رہتا ہے، سرمایہ داری نظام کے ارتقا سے ہم آہنگ ہونے والی پالیسیوں کو وہ مراعات تصورکیا جاتا ہے جو ایک بورژوا ریاست احساسِ ہمدردی کے تحت عوام کو عطا کرتی رہتی ہے۔
مگر اس لمحے کا انکار کردیا جاتا ہے کہ جب وسیع سطح پر عوامی جدوجہدسے دقیانوسی معاشی، سیاسی اور سماجی نظام چند ہی گھنٹوں یا دنوں میں نیست و نابود ہوجاتا ہے، یعنی جو عمل عوام خود اپنے لیے اٹھاتے ہیں اس کو انہی کے خلاف تصور کرلیا جاتا ہے۔اسی سوچ کے تحت بورژوا لبرل آئیڈیالوجی میںانقلاب کو سماجی ارتقا ئی عمل میں ایک قسم کے' انتشار' یا 'بگاڑ' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سماجی ارتقا کے راستے میں ایسا بگاڑ جو حکمران جماعتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے، لہذا پالیسیوں کو 'درست' سمت میں استوار کرکے انقلاب کو روکا جاسکتا ہے۔
ایسا کہہ کر یہ سماجی سائنسدان انقلاب کی کسی بھی ایسی معروضی بنیاد کا انکار کردیتے ہیں کہ جو پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کے درمیان تضادات کی شدت کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک 1789 کا انقلاب جاگیرداری سماج اور نئی ابھرتی ہوئی بورژوازی کے درمیان بوسیدہ پیداواری قوتوں اور نئی پیداواری قوتوں اور رشتوں کے درمیان تضادات کا لازمی نتیجہ نہیں تھا بلکہ اشرافیہ کے اس حقیقی تضاد کی غلط تفہیم کا نتیجہ تھا جو نئے پیداواری رشتوں اور قوتوں کے درمیان موجود تھا۔انقلاب کا برپا ہونا کوئی حادثہ نہیں ہے، بلکہ مختلف طبقات کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تضادات کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اگر بورژوا آئیڈیالوجی کی تحت اسے محض حادثہ بھی تصور کرلیا جائے تو اس حادثے کا واقع ہونا اسے ایک تاریخی حقیقت بنا دیتا ہے، ایک ایسا حادثہ جسے اس کے عہد کی دانش برپا ہونے سے روک نہیں سکتی۔ عہد حاضر میںبعض بورژوا دانشور تو اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ وہ انقلاب کو ماضی کا ایک ایسا عمل قرار دیتے ہیں کہ جو بورژوا جمہوری طریقہ کار کے فروغ اور بیسویں صدی کے سائنسی و تکنیکی انقلاب کے بعد اس طبقاتی بنیاد کو ہی کھو چکا ہے کہ جس کے تحت طبقات کے درمیان ہی تضادات کی نوعیت و شدت انقلاب کا تعین کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 1950 کے بعد آندرے گورز جیسے مصنفین کی جانب سے ایسی کتب سامنے آئیں کہ جن میں محنت کشوں کے وجود کا بحیثیت ایک طبقے کے انکار کرتے ہوئے ان کو ہمیشہ کے لیے 'الوداع' کہنے کا تصور پیش کردیا گیا۔ اس قسم کی کتب کا واحد مقصد انقلاب کی ان بنیادوں کے حوالوں سے کنفیوژن پھیلانا ہوتا ہے کہ جن کی نشاندہی مارکس اور اینگلز نے کی تھی اور صنعتی انقلاب کے بعد جس کاکئی بار نظارہ بھی کیا جاچکا ہے۔
یہ درست ہے کہ مارکس نے اپنی کتاب ''فلسفے کا افلاس'' میں یہ لکھا تھا کہ جب طبقات کے درمیان تضادات کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی تو سماجی ارتقا کا سیاسی انقلاب میں تبدیل ہونا مشکل ہوجائے گا، لیکن یہ خیال پیش کرتے وقت مارکس کے سامنے ایک اشتراکی سماج کا تصو موجود تھا۔اور کسی بھی اشتراکی سماج میں چونکہ ملکیت کے نجی تصور کا خاتمہ ہوجانے سے محنت کے سماجی کردار کو اولین حیثیت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے مختلف طبقات ایک دوسرے سے اس سطح پر نبرد آزما نہیں ہوتے کہ ان کے پیشِ نظر کوئی دوسرا قدرے 'اعلیٰ' نظام ہو، اس لیے اگر تضادات جنم بھی لیں تو انہیں باہمی مشاورت سے حل کرلیا جاتا ہے۔
بورژوا سماجی سائنسدانوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری نظام کے ارتقا سے طبقات کی ہیئت میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے پیشِ نظر طبقات کے درمیان اس تفریق کا ہی انکار کردیتے ہیں جسے سرمایہ داری نظام وجود میں لایا ہے، اور اسی تسلسل میں انقلاب کے تصور کے خاتمے کا بھی اعلان کردیتے ہیں کہ جس کے بعد صرف ارتقا کا آہستہ عمل ہی ممکن ہوپائے گا ، مگر وہ ارتقا پذیر پیداواری عمل اور ان پیداواری رشتوں کے درمیان گہرے اور پیچیدہ تضادات کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ جن سے عہد حاضر میں بھی مختلف طبقات کے مابین خلیج میں اضافہ ہوا ہے !
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے مختلف سیاسی جماعتیں انقلاب کا نعرہ بلند کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے نعروں سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ پاکستان اس وقت انقلاب کے لیے ایک موزوں ملک ہے۔ اب انقلاب کیا ہے اور اس کے برپا ہونے کے بعد کن طبقات کا خاتمہ ہوگا یہ تجزیہ کرنا ابھی باقی ہے۔تاہم سیاسی جماعتوں کا انقلاب کا تصور انتہائی سطحی اور انقلاب کی تاریخ کی ناقص تفہیم کا نتیجہ ہے۔ مسلم لیگ نواز نے انقلاب کی سیاست کھیلی ۔ ان کا انقلاب اقتدار کے حصول تک محدود تھا۔عمران خان اور علامہ طاہرالقادری بھی مسلسل انقلاب کے نعرے بلند کرنے میں مصروف ہیں۔
مغربی سماجی سائنسدانوں اور پاکستان کے ان سیاسی و مذہبی رہنمائوں کے تصور انقلاب میں ایک بنیادی فرق بہرحال موجود ہے: وہ یہ کہ مغرب کے بورژوا سماجی سائنسدان انقلاب کو سماجی بگاڑ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ گردانتے ہیں۔ ان کے برعکس پاکستان کی سیاسی جماعتیں پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کو بدعنوانی، اقربا پروری، ظلم وتشدد، ناانصافی و استحصال ، نیز یہ کہ ہر قسم کے 'بگاڑ' سے منسوب کرتی ہیں اور اسی نظام میں اصلاحات کو پاکستان کے سماجی ارتقا کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔
نکتہ بہرحال یہ ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے تصور انقلاب میں بھی کوئی ایسی قدر یا رجحان نہیں پایا جاتا کہ جن کے تحت ان کے تصور انقلاب کو تاریخی مادیت یا جدلیات مادیت کے تحت وہ معنی پہنائے جاسکیں کہ جو تاریخ اور سماج میں واقع ہونے والے انقلابات کا بہترشعور دے سکیں۔ تاریخی مادیت سے بہتر انقلابات کی تشریح و توضیع کا تاحال کوئی فلسفہ ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔یہ انقلابات کی سائنسی انداز میں تشریح و توضیع پیش کرتا ہے۔عمران خان اور طاہرالقادری کا تصورِ انقلاب اس نوعیت کا ہرگز نہیںہے کہ وہ اٹھارویں صدی کے فرانسیسی انقلاب اور بیسویں صدی کے روسی اور چینی انقلابات کے متعین کردہ مفاہیم کو توڑ کر انقلاب کو نئے معنوں سے ہمکنار کرسکے۔
انقلاب کے بارے میں تشکیل کردہ تصورات کو کسی سیاسی، سماجی یا مذہبی مفکر کے ذہن میں تلاش کرنے کی بجائے تاریخِ عالم میں برپا ہونے والے انقلابات کی تاریخ میں دریافت کرنے ہی سے انقلابات کے سائنسی تصور کی تفہیم ممکن ہوسکتی ہے، یعنی انقلاب کے بارے میں رہنمائی خود انقلابات سے حاصل کی جائے۔ انقلابات کی تاریخ کا گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے انقلاب کسی بھی ملک کے بوسیدہ معاشی نظام یعنی اس کی بنیاد (Base (اور اس کی تمام بالائی اشکال (Superstructure) میں بنیادی اور فیصلہ کن تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ مختلف طبقات کے درمیان پیکار کے بعد اگر پرانا نظام ہی فاتح قرار پائے تو یہ انقلاب نہیں، بلکہ ردِ انقلاب ہوتا ہے، جس میں قدامت پسند اور رجعتی قوتیں معیاری ارتقائی عمل کے راستے میں آہنی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔
انقلابی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب رجعتی پیداواری نظام کے بطن سے نئی پیداواری قوتیں جنم لے چکی ہوں، جو ان طبقات کوبھی وجود میں لاچکی ہوں جن کی بقا اور سماج کا ارتقا، بوسیدہ پیداواری نظام سے ہم آہنگ ہونے کی تمام سائنسی بنیادوں کو کھو چکا ہو۔ بوسیدہ پیداواری قوتوں ، ان کے قائم کردہ پیداواری رشتے، ان کی حمایت کرنے والی سیاسی، قانونی اور دیگر آئیڈیولوجیکل اشکال نئے پیداواری نظام اور اس سے ہم آہنگ ہونے والے پیداواری رشتے اور اسی نئے پیداواری نظام سے تطابق پیدا کرنے والے آئیڈیولاجیکل اشکال کے درمیان تضادات کا ایک گہرا اور پیچیدہ سلسلہ قائم ہوجاتا ہے کہ جن کو محض اصلاحات سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ ان تضادات کی تشکیل ایک طویل سماجی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے ۔اور پرانے فرسودہ نظام کے پیدا کردہ تضادات کی تحلیل سماج کے ارتقا کے لیے لازمی ہوتی ہے۔
گہرے تضادات کی تحلیل ہی ایک نئے نظام کی بنیاد رکھتی ہے۔مثال کے طور پرفرانسیسی انقلاب میں ایک طرف خصوصی مراعات کے حامل جاگیردار تھے جن کی حمایت میںپادری قدامت پسندانہ مسیحی آئیڈیالوجی کو بروئے کار لاتے تھے۔ مخالف سمت میں نئی صنعتی بورژوازی اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والے وہ تمام فلسفی تھے جو روشن خیالی کے مبلغ گردانے جاتے تھے۔ اشرافیہ اور نئی بورژوازی کے درمیان تضادات کے شدت اختیار کرنے سے نتیجہ یہ نکلا کہ بوسیدہ معاشی نظام اور گمراہ کن مسیحی الٰہیاتی آئیڈیالوجی کو شکست ہوئی ، جبکہ نئے پیداواری نظام اور رشتوں کی فتح ہوئی اور فرانسیسی معاشرہ ارتقا کے ایک نئے راستے پر گامزن ہوگیا۔
فرانسیسی انقلاب اپنی سرشت میں اس حد تک انقلابی تھا اور اس کے نتیجے میں سماج کی تبدیلی کا عمل اتنا گہرا اور پیچیدہ تھا کہ اس کی تکمیل میں سو برس لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی انقلاب جو 1789 میں شروع ہوا اور اس کے بطن میں تبدیلی کے جو گہرے عوامل موجود تھے انہوں نے مختلف طبقات کے مابین کشمکش کا شعور استحصال زدہ طبقات کے اذہان میں اس قدر گہرا راسخ کردیا تھا کہ 1848 کے انقلاب تک اسی تبدیلی کے عمل کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ لہذا ایک کامیاب انقلاب ہر اس پہلو کا خاتمہ کرتا ہے جو تبدیلی سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کھو چکا ہوتاہے۔