تحمل کا پرندہ

تحمل کے نہ ہونے کا عنصر ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں سما چکا ہے۔۔۔


راؤ منظر حیات August 02, 2014
[email protected]

آج کی سیاست اور سیاستدانوں کے رویوں پر کیا بات کروں؟ دلیل سے خالی بیانات اور اَنا کو سات آسمانوں تک اونچا کرنے کے بعد صرف اور صرف شعبدہ بازیوں سے مرقع سیاسی میدان کو کس زاویے سے جانچوں، سوچ کر بھی ذہنی تکلیف ہوتی ہے۔ میں انتہائی باخبر ہونے کے باوجود بھی خاموش صرف اسلیے ہوں کہ جھوٹ کی دھول ہی دھول ہے، کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مجھے تو اب کوئی چیز بھی حقیقی نہیں لگتی۔ چند سرکاری ملازم مقتدر حلقوں سے قرب کی بدولت سے سیاست دانوں کو بھی کرپشن میں میلوں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ہر باخبر حلقے کو خبر ہے، مگر سب چُپ ہیں۔

شدید شخصی تضاد، ذاتی انتقام اور گروہ بندی، اس وقت سرکاری اکابرین کا شیوہ ہے۔ عدم برداشت کا ایک پورا نظر نہ آنے والا نظام مضبوطی سے قائم ہو چکا ہے۔ ہر اہم فیصلے سے پہلے صرف ایک سوال پوچھا جاتا ہے"کہ یہ کس کا بندہ ہے" ۔ اگر اُس وقت کوئی سرکاری بابو بغض معاویہ کے تحت ایماندار شخص کے متعلق بھی صرف ایک منفی لفظ بول دے تو وہ شخص دنیا کا کرپٹ ترین انسان بنا دیا جاتا ہے۔ میں سطحی بات نہیں کر رہا۔ یہ گہری رمز ہے اور باخبر لوگ اسکو خوب جانتے ہیں۔ ہر فیصلہ بدتر سے بدترین سطح کی طرف یکسوئی کا سفر ہے۔

لیکن اس کا ایک اور انتہائی سنجیدہ پہلو بھی ہے۔ عمومی سطح پر کیا ہم تمام لوگ فرائض کا چند فیصد بھی پورا کر رہے ہیں کہ نہیں! جواب یہاں بھی نفی میں ہے! آپ لوگوں میں منفی خواص بدرجہ اتم دیکھیں گے۔ کیا استاد صحیح تعلیم دے رہے ہیں، کیا ڈاکٹر مریض کو مکمل طبی توجہ سے دیکھ رہے ہیں، کیا لوگ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ٹریفک کے قانون کو اہمیت دے رہے ہیں، کیا تاجر صحیح اور اعلیٰ اشیاء کا دام لے کر واقعی وہی چیز بیچ رہے ہیں! جواب آپ کے علم میں ہے۔

کوئی بھی شخص اپنے فرائض پورے نہیں کر رہا۔ پھر کیسا گلہ اور کیسی شکایت! ہم تمام لوگ سترویں یا حد اٹھارویں صدی کے شعور میں زندہ ہیں۔ اکیسوی صدی میں داخل ہونے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میں اپنے ملک کو ترقی پذیر نہیں گردانتا بلکہ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے یہ ایک (Primitive) قدیم ملک ہے! تمام دنیا کے ممالک سے علیحدہ اور سب سے اچھوتا! کسی بھی وزیر اعظم، صدر یا وزیر اعلیٰ کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ اور ان کے مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ یہ اس نظام کی اصلیت ہے۔ ہر اَمر عبث ہے۔

عدم برداشت کا کلچر عوامی سطح پر بھی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں آج ایک سادہ سا مسئلہ عرض کرنا چاہوں گا۔ یہ مسئلہ ایک اژدہے کی طرح معاشرہ کو گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ سے ہزار گنا بڑا اور مہیب ہے! اس جانب کوئی توجہ بھی نظر نہیں آتی۔ عدم برداشت اور تحمل کے نہ ہونے کی بدولت ہماری نوجوان نسل میں طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ہر دوسری یا تیسری ہونے والی شادی مہینوں میں ختم ہو رہی ہے۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ آپ عدالت میں چلے جائیں۔ آپکو شادی ختم کرنے والے مقدموں کی بھر مار نظر آئیگی۔ اس میں کوئی معاشی یا معاشرتی تقسیم نہیں ہے۔

امیر خاندانوں میں اس وجہ سے مسائل ہیں کہ فریقین (لڑکا اور لڑکی) ایک دوسرے پر مرکوز نہیں! کسی کے پاس وقت نہیں، اور کسی کے پاس وقت کا اتنا سرمایہ ہے کہ دن گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غریب اور سفید پوش طبقے کے مسائل بالکل مختلف ہیں۔ کسی کے پاس گھر چلانے کا پیسہ نہیں، تو کسی کے پاس بیٹی کو دینے کے لیے ختم نہ ہونے والی مالی رسد نہیں۔ ایک خوفناک تماشا ہے جس میں ہر دوسرا یا تیسرا گھر جل رہا ہے، مگر مکمل خاموشی ہے۔ ایک انتہائی ذمے دار سروے کے مطابق شرح طلاق میں48% سے50% فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ عنصر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ہاں ایک اور چیز! شادی بیاہ سے پہلے ہر فریق بڑھ چڑھ کر دکھاوے اور جعلی معیار زندگی کو اپنی اصلیت بتاتا ہے۔ لیکن جب حقیقت کھلتی ہے تو معاملہ بالکل کچھ اور نکلتا ہے۔

صندل نے کراچی کے ایک اعلیٰ درجہ کے کالج سے A لیول کیا۔ اس کے والد ایک سرکاری محکمہ میں اعلیٰ پوسٹ پر تھے۔ A لیول کے بعد اس نے والدین سے فرمائش کی کہ وہ وکیل بننا چاہتی ہے۔ والدین نے اس سے وعدہ کیا کہ اس کی خواہش ضرور پوری کر دیں گے۔ صندل کا ایک بھائی اور بھی تھا۔ وہ اس سے گیارہ سال چھوٹا تھا۔ وہ اپنے گھر میں لاڈلی اور چہیتی تھی۔ اس کے اچھے امتحانی نتائج کی بدولت اسے امریکا میں برکلے یونیورسٹی میں شعبہ قانون میں داخلہ مل گیا۔ وہ امریکا چلی گئی۔ اس نے بڑی یکسوئی اور محنت سے قانون کا امتحان پاس کیا۔ چند سال میں وہ ایک وکیل بن گئی۔

وہ امریکا سے پاکستان واپس آ گئی۔ اس کی والدہ نے ہر ماں کی طرح اس کی شادی کے متعلق فکر مند ہونا شروع کر دیا۔ صندل کی اعلیٰ تعلیم کے مطابق رشتہ ملنا بہت مشکل نظر آنے لگا۔ اس اثناء میں اس کی عمر چھبیس سال ہو گئی۔ اب والد اور والدہ مزید پریشان ہو گئے۔ انھوں نے اپنی رشتہ ڈھونڈنے کی چوائس کو وسیع کر دیا۔ ان کے دوستوں میں سے ایک نے لاہور میں ایک تاجر خاندان کے متعلق بتایا۔ روائتی انداز میں ہر چیز طے ہونے کے بعد صندل کی شادی لاہور میں عامر سے کر دی گئی۔ ان لوگوں کی کپڑے کی مل تھی۔ جو بہت اچھی چل رہی تھی۔ عامر نے لاہور کے ایک کالج سے بی۔ اے کیا ہوا تھا۔

عامر کے ساتھ اس کے والدین بھی رہتے تھے۔ ان کا گھر لاہور ڈیفنس میں تھا۔ یہ ہر لحاظ سے ایک مثالی شادی تھی۔ صندل کے والدین نے اپنی بیٹی کو ہر وہ چیز جہیز میں دی جسکی انسان خواہش کر سکتا ہے۔ یہ حکومتی طاقت اور دنیاوی پیسے کا ایک خوبصورت ملاپ تھا۔ چار سال بڑے آرام سے گزر گئے۔ اس دورانیہ میں صندل کے تین بچے بھی ہوئے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ یہ ایک خوش و خرم گھرانہ تھا۔ عامر کے والد کا اچانک ایک سڑک کے حادثہ میں انتقال ہو گیا۔ ساری کاروباری ذمے داری اس نوجوان کے کندھوں پر آگئی۔

کاروباری معاملات اچانک بگڑنے شروع ہوگئے۔ بینک کا قرضہ بَلا بن کر کھڑا ہو گیا۔ صندل کی ساس نے اظہار کرنا شروع کر دیا کہ اس کے خاندان پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ نتیجہ میں گھر جادو کا اثر زائل کرنے والے پیر فقیر اور درویش آنے لگ گئے۔ چند بڑے آرڈر کینسل ہونے کی بدولت عامر کی مل تقریباً بند ہو گئی۔ بینک نے عدم ادائیگی کی صورت میں مل پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیدی۔ عامر حالات کے خراب ہونے پر پریشان ہو کر گھر بیٹھ گیا۔ صندل نے کبھی بھی قانون کی پریکٹس نہیں کی تھی۔ اس نے گھر کے مالی حالات سدھارنے کے لیے لاہور میں پریکٹس شروع کر دی۔ تھوڑے سے دن میں اس کی محنت کی بدولت اس کے پاس کیسوں کی بھر مار ہوگئی۔

دو تین سال میں اس کی شدید محنت سے گھر کے حالات قدرے بہتر ہو گئے۔ مگر اس کے گھر پر انتہائی منفی اثر پڑا۔ صندل رات گئے اپنے آفس سے واپس آتی تھی۔ صبح آٹھ بجے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسے سات بجے نکلنا ہوتا تھا۔ گھر پر اس کی توجہ کم سے کم ہوتی گئی۔ وہ صرف اتوار کے دن گھر ہوتی تھی۔ مگر وہ دن بھی اسے مکمل نصیب نہیں ہوتا تھا۔ اس کی زندگی میں اب صرف مصروفیت رہ گئی۔ عامر کی والدہ نے اپنی بہو کے گھر پر نہ ہونے کی ہر وقت شاکی رہتی تھی۔ ان کے بقول صندل اپنے خاوند اور بچوں پر بالکل توجہ نہیں دے رہی۔ گھر میں ہر وقت جھگڑا ہونا شروع ہوگیا۔

ساس نے بہو کے خلاف انتہائی روائتی اور غیر ذمے دارانہ الزام لگانے شروع کر دیے۔ عامر نے بیکاری کے عرصے میں اپنے آپکو گھر تک محدود کر رکھا تھا۔ وہ والدہ کے کہنے میں آ گیا۔ اس نے بھی اپنی بیوی پر الزام تراشی شروع کر دی۔ صندل واقعات کی نزاکت کا مکمل ادراک نہ کر پائی۔ وہ اپنے کیرئر کی اس نہج پر پہنچنا چاہتی تھی جہاں کوئی نہ ہو۔ اس کی مصروفیات، عامر کی عدم مصروفیت اور طویل عرصے تک کام کے دورانیہ نے گھر کے حالات کو مکمل برباد کر دیا۔ معاملہ طلاق تک پہنچ گیا۔ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو فریقین کے جذبات کو ٹھنڈا کرتا اور کوئی درمیانہ راستہ نکالتا۔

دونوں طرف اَنا کے پہاڑ تھے اور عدم برداشت کا روائتی رویہ تھا۔ طلاق کے بعد صندل واپس کراچی چلی گئی۔ عامر نے بچے اس کے حوالے نہیں کیے۔ صندل نے کراچی جا کر وکالت چھوڑ دی ہے۔ وہ ہر وقت اپنے بچوں کو یاد کر کر کے روتی ہے۔ وہ عرصے سے اپنے گھر سے باہر نہیں نکلی۔ اب وہ ڈپریشن کی مریضہ ہے۔ ایک کمرے تک محدود ہو چکی ہے۔ اس کے والدین اسے وکالت کا پیشہ جاری کرنے کے متعلق کہتے ہیں تو وہ رونا شروع کر دیتی ہے۔

اس نے اپنے بچوں کی بڑی بڑی تصویر یں اپنے کمرے میں لگائی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت ان تصاویر سے نام لے لے کر باتیں کرتی رہتی ہے۔ زندگی بہت بوجھل ہو چکی ہے۔ اس کی عمر صرف چونتیس برس ہے۔ وہ اپنے آپکو مکمل شکست خوردہ تسلیم کرتی ہے۔ ایک پورا گھر تباہ ہو چکا ہے۔ اس تباہی کی بنیاد محض شک، غلط فہمی اور دوسرے کے نقطہ نظر کو غلط جاننا ہے۔ اس پوری لڑائی میں وہ تین بچے بھی ہار چکے ہیں جو کسی بھی جنگ کا حصہ نہیں رہے۔

یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ اس طرح کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات گلی گلی میں بکھرے ہوئے ہیں۔ میں نے یہ مثال اُس طبقہ کی دی ہے جو ہر لحاظ سے متمول اور خوشحال ہے۔ ہر طبقے کا ایک جیسا حال ہے۔ امیر اپنے پیسوں کے جہنم میں برباد ہے۔ غریب اپنی غربت کی بھٹی میں جلنے پر مجبور ہے۔ مجھے برداشت کے ختم ہونے کا سچ ہر طرف نظر آتا ہے۔ نوجوان نسل کیا، بزرگ اور بڑے بوڑھوں میں بھی اپنی رائے کے خلاف بات سننے کی ہمت نہیں ہے۔

تحمل کے نہ ہونے کا عنصر ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں سما چکا ہے۔ آپ کسی شعبہ کو دیکھ لیجیے۔ آپکو ایک ہیجان نظر آئیگا۔ کوئی اپنی رائے کے علاوہ کسی اور کی رائے ماننے کے لیے تیار نہیں! یہ حقیقت سیاست اور سیاست کے ہر جعلی شعبہ سے بہت گھمبیر ہے۔ نتیجہ میں گھر گھر اَن دیکھی آگ لگ چکی ہے! شعلوں کو ہوا دینے والے تو موجود ہیں مگر اسکو دانائی کے پانی سے بجھانے والا کوئی نہیں ہے! اگر تحمل کوئی خوبصورت پرندہ ہے تو یہ پرندہ تو مدت سے ہمارے معاشرے سے اڑ کر کسی انجان درخت پر بیٹھ چکا ہے! ہمارے پاس اب صر ف شکوک و شبہات کا جنگل ہے جس میں یہ رنگا رنگ پرندہ زندہ نہیں رہ سکتا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں