تعلیم کا فروغ اور ناقص پالیسیاں
کچھ عرصہ قبل کراچی کے ایک اسکول کے طلبا کے ساتھ بھی پکنک کے دوران ایک اندوہناک اور دلخراش سانحہ پیش آیا تھا،
تعلیم کے فروغ اور نادار بچوں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والے حارث سلیمان اور ان کے والد کیپٹن بابر طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ امریکا میں پیدا ہونیوالے حارث جس کی عمر 17 سال تھی اور اس نے اسی سال پائلٹ لائسنس حاصل کیا تھا، اس کے والد کیپٹن بابر ہوا بازی کا وسیع تجربہ و مہارت رکھتے تھے، انھوں نے ہوائی سفر کی حفاظتی تدابیر کی خصوصی تربیت بھی حاصل کی تھی۔
امریکا میں مقیم ان کے خاندان کے دلوں میں پاکستان اور پاکستانیوں سے کتنی محبت اور ان کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ تھا اس کا اظہار ان کی اس مہم سے ہوتا ہے جو انھوں نے پاکستان میں فروغ تعلیم کے سلسلے میں فنڈز جمع کرنے کے لیے اختیار کی تھی، جس کے لیے وہ اپنے ذاتی طیارے میں دنیا کا چکر لگانے نکلے تھے اور بدقسمتی سے اس سفر کا آخری حصہ ان کا سفر آخرت بن گیا۔ حادثے کے بعد بیٹے کی لاش تو مل گئی لیکن باپ کی لاش اب تک نہیں مل سکی ہے۔
کیپٹن بابر کے مطابق بتایا گیا ہے کہ وہ کافی عرصے سے خواہش رکھتے تھے کہ اپنے سنگل انجن ذاتی طیارے میں دنیا کا چکر لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کریں۔ ان کا بیٹا حارث جو کم سنی سے ان کے ساتھ پروازوں میں شریک رہا کرتا تھا اس نے اسی سال جون میں کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا تھا، اس نے بھی باپ کی اس مہم میں شمولیت کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے پاکستان میں نادار بچوں کے لیے اسکول قائم کرنے کے لیے فنڈ اکٹھا کرسکیں۔ دونوں باپ بیٹے دنیا کا سفر کرتے ہوئے پاکستان پہنچے تھے جہاں حارث نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے فنڈ ٹارگٹ 10لاکھ ڈالر کا بڑا حصہ حاصل کرلیا ہے۔ ایک ماہ قبل لائسنس حاصل کرنیوالا یہ نوعمر نوجوان اور اس کے والد جب اپنے سفر کی آخری منزل سے چند گھنٹوں کی مسافت پر تھے، حادثے کا شکار ہوکر شہید ہوگئے۔
کچھ عرصہ قبل کراچی کے ایک اسکول کے طلبا کے ساتھ بھی پکنک کے دوران ایک اندوہناک اور دلخراش سانحہ پیش آیا تھا، جب ایک طالب علم کے دریا میں گر جانے پر اس کا استاد اپنے شاگرد کی زندگی بچانے کے لیے بلاتامل دریا میں کود گیا تھا لیکن پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے دونوں موت کا شکار ہوگئے، استاد کی لاش بھی نہ مل پائی۔ اپنے شاگرد کے لیے زندگی نچھاور کردینے والے اس استاد کے متعلق جو تفصیلات آئیں ان سے پتا چلا کہ یہ سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی نصراﷲ شجیع تھے، مختلف سیاسی و سرکاری مراتب پر بھی رہے اور اپنے کسب روزگار کے سلسلے میں اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔
کیا اس قسم کی توقعات کسی بھی ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی یا وزیر مشیر سے کی جا سکتی ہیں؟ یقیناً حارث، بابر اور نصر اﷲ شجیع جیسے لازوال کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ جن کی شہادتوں کی پذیرائی کی جانی چاہیے۔ عوام کو ان کے جذبات و کردار سے آگاہ کرکے خصوصاً نوجوانوں کو تربیت اور ترغیب دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی، عظیم مقصد اور انسانی خدمت کے سلسلے میں بے حسی، تذبذب یا کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔
اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری حکومت، میڈیا اور این جی اوز پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن مندرجہ بالا دونوں واقعات میں یہ ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ اپنے مقاصد کی خاطر کسی بھی زیرو کو ہیرو بنانے کے لیے زمین آسمان کے قلابیں ملادیتے ہیں یا کسی بھی پاک سے پاک ہستی کا کفن میلا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ اگر یہ پانی سے کار چلانیوالے دعوے دار کی پشت پناہی پر آجائیں توسائنسی ماہرین کی آرا کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کبھی لیاری کے اسٹریٹ چائلڈ یا کورنگی کی غریب بستی کی کوئی خاتون عالمی ریکارڈ بنالے تو فوٹو سیشن کی حد تک ان کی پذیرائی کرکے خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگتے ہیں۔
عوام کو تو خبروں سے پتا چلتا ہے کہ کبھی لیاری کا کوئی باکسر عالمی ریکارڈ بناگیا ہے، کبھی کسی پاکستانی نے پاکستان کو دولت مشترکہ کے وکٹری اسٹینڈ پر جگہ دلا دی ہے۔ کبھی پاکستانی کوہ پیماؤں نے اضافی آکسیجن کا استعمال کیے بغیر کے ٹو کی چوٹی سر کرکے عالمی ریکارڈ بنا دیا ہے، یا پاکستانی طلبا اور سائنسدان کون کون سے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں اور ادارے اور پاکستانیوں کی جانب سے کیے جانے والے تعلیمی، کھیلوں اور ریسرچ کے کارناموں اور کاوشوں سے لاتعلق رہتے ہیں۔ نہ ایسے افراد کی کوئی خاطر خواہ پذیرائی کی جاتی ہے نہ ہی ان کے فروغ کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔تعلیم وتحقیق، صحت و انصاف، کسی بھی ملک کے اہم شعبہ جات ہوتے ہیں جن پر قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے مگر ہمارے یہی شعبے حکومتی بے توجہی، کرپشن، لوٹ مار، بدعنوانی کا شکار اور نااہل لوگوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔
جن پر عالمی ادارے اپنے شدید تحفظات و اعتراضات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ تنبیہہ اور امداد روکنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں۔ مگر حکومت اور حکومتی اداروں کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک محکمہ تعلیم کی نااہلی اور ملی بھگت سے ایجوکیشن مافیا سرگرم عمل ہے جس کی وجہ سے تعلیم مہنگی سے مہنگی، طبقاتی اور غیر معیاری ہوتی جا رہی ہے۔ ذہین اور اہل طلبا کے لیے تعلیم جاری رکھنا محال ہوچکا ہے۔ نقل، سفارش، رشوت اور طبقاتی تعلیم نے ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے۔
جس کی وجہ سے یہ سرمایہ کاری کا شعبہ بن کر رہ گئی ہے۔ مفاداتی پالیسیاں اور وقتی اقدامات تعلیمی ماحول کو تباہ و برباد کر رہے ہیں، نہ اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کا کوئی اصول و قاعدہ ہے نہ داخلوں میں میرٹ کا عمل دخل ہے۔ وزارت اور محکمہ تعلیم کی توجہ تعلیمی معیار کی بجائے اس بات پر مرتکز ہے کہ بھرتیوں، ترقیوں، تعیناتیوں اور داخلوں میں اپنا عمل دخل کس طرح یقینی بنایا جائے۔
اس کی تازہ مثال محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے کراچی کے سرکاری کالجوں میں سیاسی دباؤ و مداخلت کے برعکس اہلیت پر داخلہ دینے کے رائج طریقہ کار کو ختم کرنے کا اقدام ہے، جس کے تحت داخلوں کے لیے قائم مرکزی داخلہ کمیٹی کے تمام اختیارات ختم کرکے محکمہ تعلیم نے یہ داخلے خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے داخلوں کے سلسلے میں سیاسی مداخلت اور رشوت و سفارش کے دروازے کھلنے کے واضح امکانات ہیں۔ اس سے قبل مرکزی داخلہ کمیٹی کراچی کے تمام کالجز میں صرف اہلیت کی بنیاد پر داخلہ کرتی تھی اور کسی شکایت کی صورت میں متاثرہ طالب علم کو کلیم فارم بھرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا تھا۔
نئے طریقہ کار کے مطابق داخلے کے خواہش مند طلبا کو داخلہ فارم اور کتابچہ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم و خواندگی حکومت سندھ کی جانب سے اخبارات میں اشتہار شایع کیا گیا ہے کہ جس میں داخلے کے خواہش مند طلبا و طالبات سے کہا گیا ہے کہ وہ آن لائن ویب پورٹل کے ذریعے درخواستیں دے سکتے ہیں، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کتابچہ ڈاؤن لوڈ کریں، آن لائن فارم پر کریں پھر آن لائن فارم کو پرنٹ کرکے سندھ بینک کی منتخب کردہ کسی بھی برانچ میں یہ فارم بمعہ مارکس شیٹ ایڈمٹ کارڈ چالان فیس کے ساتھ جمع کرائیں۔
ارباب اختیار نے نیا طریقہ کار وضع کرتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ کراچی جیسے شہر میں کتنے لوگوں کے پاس کمپیوٹر ہیں؟ کتنے طلبا و طالبات پرنٹر رکھتے ہیں جو اس بات کی اہلیت بھی رکھتے ہوں کہ آن لائن فارم پر کرکے اس کا پرنٹ اور کتابچہ حاصل کرسکیں۔ اس اقدام سے ان کی پریشانیوں اور اخراجات میں اضافہ ہوگا، کمپیوٹر اور فوٹو اسٹیٹ پر رش لگا ہوگا۔
اس سے قبل این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی یہ تجربہ کیا گیا تھا، تاہم اس میں فارم کے حصول اور جمع کرانے کا روایتی طریقہ بھی برقرار رکھا گیا تھا، اس کے باوجود آن لائن فارم حاصل اور جمع کرانے کے طریقہ کار میں یونیورسٹی کو شدید مشکلات پیش آئی تھیں اور عملی طور پر یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا تھا جب کہ این ای ڈی میں داخلوں کے امیدواروں کی تعداد چند ہزار میں ہوتی ہے جب کہ کالجز میں یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ کاش ہمارے ارباب اقتدار و اختیار ملک و قوم کے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ سوچیں۔