انقلاب کی جدلیات آخری حصہ
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ عجیب و غریب مگر انتہائی دلچسپ صورتحال پیش کررہا ہے۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ عجیب و غریب مگر انتہائی دلچسپ صورتحال پیش کررہا ہے۔ سیاسی جماعتیں نجانے کس انقلاب کو آواز دے رہی ہیں اور اس سے ملتا جلتا انقلاب انسانی تاریخ میں نجانے کب اورکس ملک میں واقع ہوا تھا۔ سیاستدان انقلاب کے دن کا تعین کرنے میں مصروف ہیں۔
اس قسم کی سوچ انقلابی نہیں بلکہ مذہبی ہے کہ جس کے تحت قیامت، موت اور حشر کے دن متعین کردیے گئے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ انقلاب کے ان خیال پرستانہ نعروں کے پیچھے کیا وہ تمام معروضی عوامل موجود ہیں جو انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں انقلابات کا محرک رہے ہیں اور ان کے علاوہ کیا کسی بھی انقلاب کے موضوعی (Subjective) انقلابی عوامل بھی پاکستان میں موجود ہیں جو معروضی صورتحال سے تطابق پیدا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں؟ سوال کے دوسرے حصے کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔
جب انقلاب کے محرک کے طور پر معروضی صورتحال میں طبقات کے مابین تضادات کی شدت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انقلاب مخصوص معروضی صورتحال کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے، یعنی انقلاب سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی خواہشات سے بالا مخصوص قوانین کا پابند ہوتا ہے۔ اور ان قوانین کو انقلابی طبقات شعوری سطح پر جان کر ہی ایک کامیاب انقلاب کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر روس میں ہی 1905 میں انقلاب کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اگرچہ اس کا موضوعی عامل یعنی رہنما لینن ہی تھا جو 1917 کے کامیاب روسی انقلاب کا روح رواں تھا۔ فرق تھا تو محض مختلف تاریخی و معروضی تضادات کی نوعیت اور شدت میں۔ اس لیے موضوعی عامل یعنی لینن کی حکمت عملی بھی ناکام ہوگئی تھی۔ ویسے بھی 1905 کا انقلاب لینن جیسے اشتراکی رہنما کے باوجود اپنی سرشت میں بورژوا تھا، وجہ اس کی یہ کہ معروضی حالات کا تقاضا تھا کہ پہلے جاگیرداری کی باقیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔
اس انقلاب کی ناکامی سے یہ درس ملتا ہے کہ انقلابی جماعت خواہ کتنی ہی منظم اور معروضی صورتحال کا شعور رکھنے والی کیوں نہ ہوجائے وہ ایک کامیاب انقلاب اس وقت تک برپا نہیں کرسکتی جب تک تاریخی اور معروضی حالات ان تضادات کی تحلیل کے لیے تیار نہ ہوچکے ہوں جو مختلف طبقات کے مابین موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ معروضی قوانین کی حتمیت کو تسلیم کرلیا جائے تو انقلاب کی کامیابی میں موضوعی عامل (Subjective factors) کا کوئی کردار ہی نہیں رہتا۔ کامیاب انقلاب معروضی صورتحال اور موضوعی عوامل کی وحدت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
معروضی صورتحال کا مطلب مختلف طبقات کے درمیان پائے جانے والے وہ تضادات ہیں جن کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں سے حل نہ کیا جاسکے۔ اس کے برعکس موضوعی عوامل میں انقلابی طبقے کا شعوراور انقلابی قیادت کا تنظیم سازی اور طبقاتی شعور کو ابھارنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔ انقلابی قیادت موضوعی عوامل کو معروضی صورتحال سے ہم آہنگ کرنے کے لیے عوامی شعور کو جدوجہد کے لیے تیار کرتی ہے۔ ان کو فرسودہ نظام میں تبدیلی کو برپا کرنے والی ان کی اپنی 'موجودگی' کا احساس دلاتی ہے۔ ایسی انقلابی قیادت اس' شعور' کو کہیں خارج یا ماورائیت سے تلاش کرکے نہیں لاتی، بلکہ مخصوص حالات کے اندر ہی سے ان کی شناخت کرتی ہے۔ ایسے میں یہ قیادت اس معروضی صورتحال سے الگ یا ماورا نہیں، اس کا حصہ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں معروضی حالات تو موجود ہیں مگر قیادت اور طبقاتی شعور کا بحران بہت نمایاں ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں عوام کے حقیقی مسائل اور ان سے نبرد آزما ہونے والی پالیسیوں کی تشکیل میں ناکام ہوچکی ہیں، عوام پر ظلم و جبر اور استحصال کی انتہا ہوچکی ہے۔ عوام بلاشبہ کسی ایسے رہنما کے انتظار میں بھی ہیں کہ جو ان پر مختلف ادوار میں مسلط کی گئی حکومتوں کی غیر انسانی پالیسیوں کا تدارک کرسکے، مگر ہمارے سیاستدانوں کی انقلاب کی تعریف اور تفہیم اور نعرے تاریخ کے کسی بھی کامیاب انقلاب کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
انقلاب صرف اور صرف نام ہے ایک سماجی نظام میں دوسرے اور بہتر سماجی نظام میں داخل ہونے کا۔ اس عمل کی تکمیل کے لیے پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہ کسی بھی طرح کا لائحہ عمل پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ میرا یہاں کوئی ایسا ارادہ بھی نہیں ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں برپا ہونے والے انقلابات سے ماخوذ نتائج کا بغیر کسی تنقید کے اطلاق پاکستان کے معروضی حالات پر کردیا جائے۔ انقلاب کا عمل ہر عہد کے مخصوص تاریخی اور سماجی حالات کے مطابق ہی طے پاتا ہے۔ جہاں تک تھیوری کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں لینن نے کئی بار کہا تھا کہ تھیوری انقلابیوں کے لیے اس حد تک اہم ہے کہ جس حد تک وہ حقیقت کی تفہیم میں مدد دے سکے۔
لہٰذا مخصوص ادوار میں گھڑے ہوئے نظریاتی چوکھٹے الٰہیاتی یا خیال پرستانہ رجحان رکھنے والے لبرل حضرات کے لیے تو اہم ہوسکتے ہیں، مگر تاریخی اور جدلیاتی مادیت جیسی سائنسوں میں ان کی صرف اتنی حیثیت ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی پیش کردہ اصلاحات اور تصور 'انقلاب' اس بنیاد کو چیلنج نہیں کرتے جس کے انہدام کے بغیر انقلاب کا کوئی مفہوم قائم ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سیاستدان سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا تسلسل چاہتے ہیں، یہ انقلاب کے لفظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جس سے یہ قضیہ سامنے آتا ہے کہ وہ انقلاب کے معروضی قوانین کی تفہیم نہیں رکھتے، نہ ہی ان کی جڑیں عوام میں اس حد تک گہری ہیں کہ جو 'انقلاب' برپا کرنے کے لیے ضروری ہے۔
وسیع سطح پر عوامی شمولیت کے بغیرکامیاب انقلاب کا کوئی تصور تشکیل دینا ناممکن ہے۔ 1908 کے ترکش اور 1910 کے پرتگالی انقلابات میں ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی کہ معروضی صورتحال یعنی طبقات کے درمیان تضادات تو ایک خاص سطح پر پہنچ چکے تھے مگر ان تضادات کے عدم شعور کی وجہ سے عوامی شمولیت اس سطح پر نہ ہوپائی کہ ایک کامیاب انقلاب کا امکان پیدا ہوپاتا۔ لینن نے ایسی ہی صورتحال کو واضح طور پر محسوس کرتے ہوئے لکھا کہ روس میں 1859 اور 1879 میں انقلابی حالات تو موجود تھے مگر انقلاب کو برپا نہ کیا جاسکا۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انقلابی عمل کے دوران میں کسی ایک طبقے کی جگہ کوئی دوسرا طبقہ لے لیتا ہے۔ محض طبقاتی بنیاد پر اقتدار کی تبدیلی کو انقلاب کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح ایک ہی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی ''معیاری جست'' لگائی جاسکتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ ''معیاری جست'' انقلاب کی حامل ہو۔ سرمایہ داری نظام کے اندر ہی اس کی ابتدائی اور ارتقا شدہ شکل اور بعد ازاں اسی نظام کی اجارادانہ یا سامراجی اشکال سرمایہ داری نظام میں 'معیاری جست' ہی متصور کی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود اس نظام کی اصل بنیاد یعنی ملکیت کے نجی کردار کو منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ داری کا بنیادی تضاد نجی ملکیت اور محنت کے سماجی کردار کے درمیان ہے۔
اس کی تحلیل کا واحد راستہ اس بنیاد کا خاتمہ ہے جس پر یہ نظام استوار ہے۔ پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں نجی ملکیت کے اس کردار کو منہدم کرنے میں ناکام ہیں اور نہ ہی کسی جماعت کے منشور میں اس قسم کی کوئی شق شامل ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اقتدار میں آنے سے اصلاحات کے آہستہ عمل کے جاری رہنے کا امکان تو بہرحال موجود ہے، مگر اس'' معیاری جست'' کی توقع ان سے رکھنا بالکل عبث ہے کہ جس کے بغیر انقلاب کا کوئی مفہوم تشکیل پانا ممکن نہیں ہے۔
عہد حاضر میں ہم کسی بھی ملک کے سماجی حالات کا تجزیہ کرلیں، اپنے مخصوص پیداواری عمل اور سماجی اور تاریخی حالات کے مطابق اس میں انقلابیت کی عکاسی کرنے والے عوامل دکھائی دیتے ہیں، مگر اس کے باوجود بحران کا شکار بنیادی عامل (Factor) ان میں یکساں طور پر موجود ہے۔ اگر تو معروضی حالات کا تجزیہ کریں تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی طبقاتی جدوجہد اس سطح پر دکھائی دیتی ہے کہ انقلاب کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
اگرچہ مغربی ممالک میں بھی سائنس و تکنیک کی احیا و ارتقا سے محنت کش طبقات اپنی ہیئت میں توسیع کے عمل سے گزرے ہیں، جس سے محنت کشوں کے صرف اور صرف اس تصور میں توسیع ہوئی ہے جو مارکس اور اینگلز نے پیش کیا تھا۔ اہم ترین بات بہرحال یہ ہے کہ محنت کشوں کی ہیئت میں توسیع کی سب سے جامع وضاحت بھی تاریخی مادیت کے اسی طریقہ کار ہی سے ممکن ہے جو ان ہی مفکرین نے وضع کیا تھا۔ مارکسی انقلابی انتونیو نیگری اور مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب 'سلطنت' میں فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا کے افکار کی روشنی میں بحران کا شکار موضوعی عامل کو اس کے وسیع تر معنوں میں اس انداز میں پیش کیا ہے کہ اس کے فاعلانہ کردار کو بروئے کار لاکر سماج میں بنیادی تبدیلی کے عمل کا امکان پیدا کیا جاسکے۔