جرم اور سزا
ملک میں اس وقت معاشی سیاسی اور امن عامہ کا کرائسس اپنی 67 سالہ تاریخ کی انتہا پر ہے
ملک میں اس وقت معاشی سیاسی اور امن عامہ کا کرائسس اپنی 67 سالہ تاریخ کی انتہا پر ہے۔ مزدور سے لے کر کارخانہ دار تک روزگار کو ناپید ہوتا اور جسم و جان کو غیر محفوظ پاتا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات پر کوئی اختلافی رائے نہیں پہلی وجہ کم آمدنی یا بیروزگاری اور دوسری وجہ ہر قسم کے جرم پر عدم سزا یابی یا کھلی چھوٹ ہے۔
کیونکہ اکثر جرائم کا ممبع ذہن کی بجائے پیٹ کہلاتا ہے اور اس کا ثبوت یہ کہ کسی بھی جیل انسپکشن کی تفصیلی رپورٹ یا اخبار پڑھ لیجیے۔ حصول اقتدار کی کشمکش بظاہر طاقت و حکومت پر قبضہ کی کوشش نظر آئے گا لیکن پاکستان جیسے ملک میں نظریں دوڑا کر دیکھ لیجیے یا کسی بھی حکمران کے اقتدار سے پہلے اور بعد کے اثاثوں کا تقابل کر دیکھیے اور اگر اس کوشش میں مشکل پیش آئے تو انٹرنیٹ پر اقتدار سے محروم ہو کر فرار گرفتار یا قتل ہونے والوں کا نامۂ اعمال پڑھ لیجیے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کا خواہشمند دراصل اپنے انجام سے جانتے بوجھتے ہوئے بھی کبوتر کی طرح خطرے سے آنکھیں چرانا چاہتا ہے۔
جرم و سزا کی خبر لوگوں تک ریڈیو اخبار اور ٹیلیوژن کے ذریعے یا منہ زبانی پہنچتی ہے لیکن ایک طویل عرصہ سے ہمیں پاکستان میں جرائم سے لت پت خبریں تو پڑھنے سننے کو تواتر سے مل رہی ہیں لیکن کوئی مثالی اور عبرت ناک سزا کم ہی نشتر ہوتی سنی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس موضوع کو سنجیدگی سے لینے سے بھی عاری ہو چلے ہیں کہ چلو ہم تو اب تک محفوظ ہیں۔ حکمران اس سرخ آندھی کو اس لیے اہمیت نہیں دیتے کہ نہ وہ گرانی و بیروزگاری سے متاثر ہوتے ہیں نہ جان و مال کے ضیاع کی بابت فکر مند ہیں کیونکہ قومی خزانہ ان کی دسترس میں اور سیکیورٹی اسٹاف ان کی انگلی کے اشارے پر ناچتا ہے۔
یہ وہ خوفزدہ شخص ہوتا ہے جس کو علم اور یقین ہوتا ہے کہ جتنا عرصہ اس کے جرائم اور کرتوت عدالتوں اور مخالفوں سے چھپے رہیں گے وہ محفوظ رہے گا۔ یوں سمجھئے اقتدار اس کا بینکر یعنی پناہ گاہ ہوتا ہے۔ مہذب اور نسبتاً صاف ستھرے معاشرے اور ملکوں میں اقتدار سر پر لٹکتی تلوار اور ٹرسٹ سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔ جب ایک قاتل فرار ہو جاتا ہے تو عموماً اسے دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ہر مغرور اور مفرور ملزم کو خوابوں اور تنہائی میں جیل اور موت نظر آتی ہے جب کہ ایک معصوم اور شریف شہری اپنی جان اور عزت بچانے کے لیے اس بزدل شخص سے کنی کتراتا ساتھ دیتا یا نظریں چراتا ہے کیونکہ وہ خوفزدہ شخص ایک Desperate انسان ہوتا ہے۔
ان دنوں اس کی بہترین مثال پاکستان میں موجود ہے۔ انسانی سرشت اور خصلت کے کئی پہلو ہیں۔ عرصہ ہوا میں نے عدالت میں دفعہ 30 کے اختیارات استعمال کر کے دو ملزمان کو سزا سنائی تو ایک ملزم نے گردن گرا دی تھی جب کہ دوسرے نے بظاہر دہشت پھیلانے کے لیے زور دار بڑھک لگا دی جو میری دانست میں خوفزدگی کی علامت تھی۔ ان دنوں عدالت میں سابق صدر جنرل مشرف کا ٹرائل ایسی ہی مثال ہے اور اس کے ردعمل کو بھی ایسے ہی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک بری مثال تاریخ کے صفحات میں کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھی جائے گی اور ملک کی دگرگوں ہوتی امن عامہ کی حالت میں اب شاید سزا یافتہ خود کو ہیرو کے طور پر منوائے جانے کا تقاضا کیا کریں گے۔
ملٹری کورٹ کی مثال دینا اچھی بات نہیں لیکن کسی برے عہد حکومت کی کسی اچھی بات کو یاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ پرانی بات ہے عدالت کا نام اسپیشل ملڑی کورٹ نمبر 1 تھا۔ کرنل عنایت جو بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں چلے گئے اس عدالت کے پریذیڈنٹ تھے۔ میجر اور مجسٹریٹ ممبر تھے۔ تین افراد پر مشتمل عدالت میں مجسٹریٹ کی ذمے داری زیادہ ہوتی تھی۔ قریباً ایک سال تک میں اس عدالت کا ممبر رہا۔ بے شمار مقدمات نمٹائے صرف دو مقدمات کا ذکر مناسب رہے گا۔
کیونکہ ان میں صفائی کے وکلاء کا تعلق سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تھا۔ راولپنڈی میں سنا جانے والا مقدمہ اغوا و زنا کا تھا جس میں پچیس سالہ مرکزی ملزم کے علاوہ اس کا اسّی سالہ باپ اور گھر کے تمام کے تمام افراد نامزد کیے گئے تھے۔ استغاثہ کی طرف سے آٹھ دس افراد خانہ کے خلاف زور دار شہادتیں پیش کی گئیں یہاں تک کہ اسّی سالہ بوڑھے کو جو ٹھیک سے چل سکتا تھا نہ دس قدم دور کھڑے کسی شخص کو پہچان سکتا تھا پوری طرح ملوث کر دیا گیا تھا۔
اس مقدمے کے وکیل صفائی آئندہ کے وزیر خورشید حسن میر تھے جن کا تعارف بھٹو صاحب نے لیاقت باغ کے جلسہ عام میں کروایا اور حیات محمد خاں شیرپاؤ کو پہلی بار اسٹیج پر اپنے ساتھ کھڑا کرنے کے علاوہ اصغر خاں کو آلو کہہ کر یاد کیا تھا۔ اسی جلسہ میں دوران ڈیوٹی میں نے طارق عزیز کو طربیہ اور نظمیہ نعرے لگاتے سنا جس میں اس نے کئی محترم شخصیات کے ناموں کے ساتھ لفظ ''ٹھاہ'' کا استعمال کیا تھا۔ آمدم برسر موضوع اتنی زوردار شہادتوں کے ہوتے ہوئے صرف ایک مغویہ تھی جس نے اپنے بیان میں استغاثہ کی کہانی کو تہس نہس کر کے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اصل ملزم سے اپنے صاف ستھرے مراسم کا اقرار کر کے تمام ملزموں کو بچا لیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں False, Frivolous, Vexatious مقدمات اور جھوٹے جعلی گواہوں کا ہونا انصاف کی راہ میں بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اسی عدالت نے جہلم کے ایک Blind Murder کا ٹرائل بھی کیا جس میں کاروباری رقابت بنیاد تھی۔ کئی سیاسی کاروباری اور سماجی شخصیات ملزموں کی پشت پناہی کر رہی تھیں بلکہ تفتیشی عملہ بھی اس منصوبہ بندی سے کیے گئے قتل عمد کو سڑک پر ہونے والا عام ایکسیڈنٹ قرار دینے پر مصر تھا۔ اسپیشل ملٹری کورٹ نے موقع ملاحظہ کرنے کے علاوہ مزید تفتیش کروا کے حقائق معلوم کیے اور یہ ثابت ہو گیا کہ مقتول ٹریفک حادثے میں جاں بحق نہیں ہوا تھا بلکہ بڑی پلاننگ کے ساتھ اس کی کار کے اوپر تیز رفتار بس چڑھا کر مارا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں ایک سابق گورنر پنجاب وکیل صفائی تھے۔ ملزموں کو قرار واقعی سزا ہونے پر عوامی طور پر تسلیم کیا گیا کہ عدالت نے انصاف کیا۔ یہ دو واقعات لکھنے کا مقصد یہ ہے تا کہ واضح ہو جائے کہ عدالتوں کو صحیح فیصلوں تک پہنچانے میں آج کل کا معاشرہ پروسیجر اور تفتیشی عملہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ملک میں جرائم کی رفتار بے قابو ہو رہی ہے۔ سزا یافتہ ملزم بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔ سزا یافتہ قاتل بھی کئی سال تک پھانسی گھاٹ پر نہیں پہنچتا۔ مدعی، گواہ، تفتیش، سفارش، رشوت، تاخیر، وکیل، عدالتی عملہ، عدالت، اپیل، اپیل، در اپیل، انصاف کی آخری منزل تک کا عرصہ، اخراجات، عدالتوں میں سچے جھوٹے مقدموں کی بھرمار، مدعی مقدمہ اور گواہوں کا جانی و مالی تحفظ۔ یہ چند رکاوٹیں نہیں پہاڑ ہیں اور پھر جس ملک میں عدالتوں کے ساتھ سیاسی کھیل شروع ہو جائے سزا یافتہ وزیر اعظم کہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا پابند نہیں وہاں اگر لوگوں کا جمہوریت پر ایمان متزلزل ہونے لگے تو اگلی منزل کیا ہو گی۔ یقینا وہ نہیں جس کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
فوجداری جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار روکنے اور مجرم کو بلا تاخیر سزا دینے کے ساتھ عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے قانون میں ضروری ترامیم اور اسپیڈی ٹرائل کورٹ بنانے کے علاوہ اگر مجرموں کو سرعام کوڑے مارنے اور ٹکٹکیاں لگانے کی گنجائش نکال لی جائے تو کرائم کنٹرول کا اب یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے جرم پر صرف سزا ہی نہ ہو جرم کی تحریک ختم کرنے کے لیے تو اب انقلابی اقدام اٹھانا ناگزیر ہو گیا ہے۔