فوری توجہ کے مستحق مظلوم کان کن
لینڈ، لیبر، کیپٹل اور انٹر پرینیور کسی بھی پیداواری عمل کے اجزائے لاینفک شمار کیے جاتے ہیں
لینڈ، لیبر، کیپٹل اور انٹر پرینیور کسی بھی پیداواری عمل کے اجزائے لاینفک شمار کیے جاتے ہیں جن کے بغیر کسی بھی قسم کی پروڈکشن کا تصور بھی محال ہے۔ یہ الفاظ دیگر کسی بھی پیداواری عمل کے آغاز کے لیے جگہ، محنت کش، سرمایہ اور مختارکاروبار کی موجودگی قطعی ناگزیر ہے۔
پیداواری عمل کے لیے ان تمام عوامل کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ لیکن محنت کو ان تمام عوامل میں منفرد اور کلیدی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ اس کے بغیر یہ تمام عوامل بے کار اور بے سود ثابت ہوں گے۔ البتہ ان تینوں عوامل کا حصول محنت کے ہی ذریعے سے ممکن ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ماہرین معاشیات نے بھی محنت کو دین فطرت اسلام میں بھی محنت کی عظمت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ یہ عدل و انصاف کا بنیادی تقاضا ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ مزدور کا استحصال معاشرے کی روایت بن چکا ہے اور پوری دنیا میں رائج استحصالی نظام کے نتیجے میں مزدور کی Explication کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بقول شاعر:
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
عصر حاضر کا سرمایہ داری نظام مزدور کے استحصال کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا تھا اور تا حال اسی بنیاد پر قائم ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس مزدور کی خون پسینے کی کمائی سے پیداوار حاصل کی جاتی ہے اسی کو تڑپایا اور ترسایا جاتا ہے۔ افسوس کہ مزدور کی مزدوری اس کے ماتھے کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا جانا تو بہت دور کی بات ہے اس کا خون خشک ہوجانے کے بعد بھی بمشکل ہی ادا کی جاتی ہے۔ اس بے انصافی سے تڑپ کر ہی تو اقبال نے کہا تھا:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے انگلینڈ کا ایک صنعت کار رابرٹ آئون وہ پہلا اور شاید واحد مالک و مختار تھا جس نے بذات خود اپنے کارخانے میں مزدور یونین قائم کی تھی تاکہ مزدور کسی بھی ممکنہ استحصال یا بے انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرسکیں۔ آج جب ہم ماضی کی جانب مڑ کر دیکھتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے کہ کوئی صنعت کار بھی مزدوروں کا دوست اور ہمدرد ہوسکتا ہے۔
جاپان میں صنعت میں مزدور کی اہمیت اور قیمت کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں اپنے دورۂ جاپان کے دوران وہاں کے صنعتی نظام کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس دورے میں ہم نے جاپان کی بعض مشہور و معروف کمپنیوں کا وزٹ کیا تو تب ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ جنگ عظیم میں تباہی کا شکار ہونے والے جاپان نے حیرت انگیز انداز میں تعمیر نو کس طرح کی تھی۔ جاپان کی صنعتوں میں آجر اجیر کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور اجیر بھی اپنے ادارے کے ساتھ ایک والہانہ وابستگی کا احساس رکھتاہے۔ گویا تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
ہمیں بڑا تجسس تھا کہ جاپان کی ترقی اور مثالی تعمیر نو کار تو معلوم کریں مگر روبوٹ کی طرح کام کرنے والے جاپانیوں سے گفتگو کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ بہر حال ہماری کوشش کامیاب ہوگئی اور الیکٹرانک کا سامان تیار کرنے والی ایک فیکٹری کے وزٹ کے دوران ہمیں ایک کارکن سے چند منٹ کی بات چیت کا موقع میسر آگیا۔ دوران گفتگو اس کارکن نے ہمیں یہ بتایا کہ مفروضے کے طور پر یہ ہوسکتا ہے کہ کمپنی کا چیئرمین کام کے دنوں میں کسی روز دفتر آنے کا ناغہ کرجائے۔ لیکن یہ بات نا ممکنات میں سے ہے کہ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق مہینے کے مقررہ روز اپنا پورا دن اپنے کارکنوں کی فیملیز کے ساتھ نہ گزارے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس ماہانہ تفصیلی ملاقات کا اصل مقصد اپنے کارکنوں کے گھریلو حالات اور مسائل سے آگاہی حاصل کرنا ہے تاکہ کارکن اپنے گھریلو مسائل کی جانب سے بالکل بے فکر ہوکر پوری توجہ کے ساتھ اپنی تمام توانائیاں کمپنی کے کام میں لگا سکیں۔ بات بالکل صاف تھی کہ اگر کارکن اپنے گرد و پیش کے حالات سے بے فکر اور مطمئن ہوگا تو وہ ہر کام دل و جان سے کرنے کے قابل ہوگا۔
چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھا کہ جاپان کے ورکرز اپنے کام کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں اور جس فیکٹری یا کارخانے میں کام کرتے ہیں اسے اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتے ہوئے اپنی بہترین سے بہترین صلاحیتیں اس کی ترقی کے لیے صرف کرتے ہیں۔ یہی Sense of Belonging اور احساس وابستگی جاپان کی مثالی ترقی کا اصل راز ہے۔ وقت مقررہ پر کام کی جگہ پر حاضر ہونا جاپانی کارکن کے خمیر میں شامل ہے۔ جب کہ اس کی واپسی چھٹی کے مقررہ وقت پر نہیں بلکہ کام کے ختم ہوجانے پر منحصر ہے۔
پاکستان میں سب سے برا حال بھٹہ مزدوروں اور کوئلے کی کان میں جان جوکھوں میں ڈال کر کام کرنے والے مظلوم و بے بس کارکنوں کا ہے۔ یہ کان کن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر زیر زمین اندھیری اور دم گھونٹ دینے والی کانوں میں کام کرتے ہیں جہاں انھیں زہریلی گیسوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دب کر مرجانے کا دھڑکا ہر آن ان کی سر پر سوار رہتا ہے۔
ان کان کنوں کو جو اوزار مہیا کیے جاتے ہیں وہ پرانے اور فرسودہ قسم کے ہوتے ہیں جب کہ ان بے چاروں کا معاوضہ بھی انتہائی قلیل اور ناکافی ہوتا ہے جو ان کے کام کی نوعیت کے اعتبار سے قطعی غیر منصفانہ ہوتا ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کو پھیپھڑوں اور جلد کی بیماریوں کا لاحق ہوجانا ایک عام سی بات ہے۔ اس کے علاوہ یہ تپ دن اور بہرے پن کا بھی شکار ہوجاتے ہیں اور ہائر ٹینشن کا لاحق ہونا تو معمول کی سی بات ہے۔ اس کے علاوہ کوئلے کی کانوں میں آئے دن حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے کانوں میں تحفظ اور حفظان صحت سے متعلق بین الاقوامی ادارہ محنت ILOکے 1995 کے کنونشن پر دستخط کیے ہوئے ہیں لیکن دیگر قوانین کی طرح اس کنونشن پر بھی عمل در آمد سے گریز کیا جاتا ہے۔
جان کو خطرے میں ڈال کر کام کرنے والے کان کن کی عام اجرت پانچ ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ اجرت دس ہزار روپے ماہانہ ہے جوکہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے جب کہ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں یہ اجرت انتہائی معقول اور مناسب ہوتی ہے مثال کے طور پر امریکا میں ایک کان کن کی اوسط ماہانہ آمدنی اوسط قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کے کان کنوں کو جدید ترین آلات بھی میسر ہیں جن میں ریموٹ کنٹرول آلات بھی شامل ہیں۔
وطن عزیز میں کان کنوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں 1923 کے فرسودہ برطانوی قانون کے مطابق عمل کیا جارہا ہے۔ صوبائی حکومتیں کوئلے کی کانیں پرائیویٹ سیکٹر کے سرمایہ کاروں کو لیز پر دے دیتی ہیں جنھیں کان کنوں کے مفادات کا نہیں بلکہ اپنے زیادہ سے زیادہ منافعے کا خیال ہوتا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ بے چارے پاکستانی کارکنوں کو آج سے پانچ سو سال پرانی شرائط پر کام کرنا پڑ رہا ہے اور Beggars Are Not Choosers والی کہاوت ان پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔
کانوں میں کام کے دوران واقع ہونے والے حادثات معمول کی بات ہے۔ جنھیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور ہلاک ہونے والے کان کنوں کے لواحقین کو ادا کیے جانے والے معاوضے کا بھی کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ کان کنی کے شعبے میں ٹریڈ یونین بہت کم ہیں اور جو ہیں بھی وہ بھی عملاً غیر موثر ہیں۔ ہمارے جمہوریت کے دعوے دار اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو مظلوم اور استحصال کا شکار کان کنوں کے حالات کی بہترین کی جانب فوری اور بھرپور توجہ دینی چاہیے۔