رجائیت پسندی کا اچار
ہمیں ترغیب دینے والوں میں کچھ ایسے، جو ہمیں بے حد عزیز۔ چند کے ہم مقروض۔
صاحبو، غالبؔ کے ہاں تو ''غیب سے آتے تھے مضامیں خیال میں''۔ ہم ٹھہرے غریب آدمی۔ لکھنے کو اِدھر اُدھر سے خیالات کشید کرتے ہیں۔ اور آج کل اِدھر اُدھر فقط انتشار ہے، اور بے شمار ہے۔ ورق از خود تلخی سے سیاہ ہو جاتا ہے۔ مگر گزشتہ دنوں، کچھ تو امید سے لبریز کتابوں اور کچھ صوفی منش دوستوں کی صحبت کے زیر اثر، سکون کے متلاشیوں پر قلم اٹھایا، تو حلقۂ یاراں اِس ماہیت قلب پر بڑا خوش ہوا۔ کچھ خیرخواہوں نے تو پُرنم آنکھوں کے ساتھ مبارک باد دے ڈالی۔ کہا؛ شکر ہے میاں، قلم تمھارا یاسیت، قنوطیت سے نکلا۔ ذرا رجائیت پسند بنو، زندگی کا روشن پہلو پیش نظر رکھو۔ تحریک بھی دی کہ اب اِسی مدعا پر کچھ اور لکھو۔
ہمیں ترغیب دینے والوں میں کچھ ایسے، جو ہمیں بے حد عزیز۔ چند کے ہم مقروض۔ تو مناسب جانا کہ جو وہ کہتے ہیں، کر گزریں۔ بھلائی اِسی میں ہے۔
عزیزو، روحانی خوشی کے لیے جہاں شکرگزاری اہم، وہیں ایک نسخہ اور ہے۔ جو تیر بہ ہدف ہے۔ اب جو یہ کینہ، بغض اور حسد ہیں ناں، بڑے ہی گھاتک جذبے ہیں۔ بیش ترکا ماخذ ناراضی، محرومی اور غصہ۔ جب کبھی ہم اوروں سے ناراض ہوتے ہیں، یہ جذبات خوب غذا پاتے ہیں۔ ظالم توانا ہو جائیں، تو نہ صرف روح کو زخم لگاتے ہیں، بلکہ جسم کو بھی چاٹ جاتے ہیں۔ امراض کی ماں، یعنی ڈیپریشن ان ہی کے باطن سے پھوٹتی ہے۔ اور ڈیپرپشن کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ مرض یہ کیسے کیسے گوہر نایاب نگل گیا۔ تو ان یورش گر جذبات سے جان چھڑانے کا نسخہ پیش خدمت ہے: درگزر کو عادت بنا لیں۔
جی ہاں، معاف کر دینے میں بڑی قوت ہے۔ جس نے آپ کو تکلیف دی، رُلایا، ستایا، گزند پہنچائی، اُس کے معاملے میں درگزر سے کام لیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے، غصے سے تلملائیں گے، ناراض ہوں گے، منہ پھلائیں گے، تو کینہ، بغض اور حسد وغیرہ وغیرہ، سارے ظالم جذبے جناب پر حملہ آور ہو جائیں گے اور آپ خود کو روبرو ان کے بے بس پائیں گے۔ دشمن آپ کا مزے اڑا رہا ہو گا، اور آپ بیٹھے کُڑھ رہے ہوں گے اور کُڑھتے، جلتے سلگتے کباب ہو جائیں گے۔ تو صاحبو، معاف کرنے ہی میں بھلائی۔ اسی میں ذہنی اور روحانی سکون پوشیدہ۔ تو آئیں، ذرا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دشمنوں کو معاف کرتے ہوئے اس روش پر آگے بڑھتے ہیں۔ ممکن ہے سرنگ کے آخر میں ہم روشنی پا لیں۔
آغاز سیاست دانوں سے کیا جائے۔ تو ہم علامہ القادری کو معاف کرتے ہیں، جنھوں نے انقلاب کا نعرہ بے طرح برتا کہ اُس سے جُڑا ہمارا رومانس ماند پڑ گیا۔ سنتے ہیں، اب سچے سُتھرے انقلابی بھی، کمروں میں جن کے چے گویرا کی تصویر آویزاں، اِس نعرے کو برتنے سے اجتناب برتنے لگے ہیں۔ ہم کپتان خان کو بھی معاف کرتے ہیں، جن کی طرز سیاست سمجھنے کی ہم نے بہتیری کوشش کی۔ راتیں جاگتے گزاریں۔ اور جانا؛ ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ بڑا وقت خان صاحب کے بدلتے بیانات، الزامات اور دعوئوں نے خراب کیا، مگر اب اِس معاملے کو جانے دیتے ہیں۔ معاف کرنے کا فیصلہ جو کر لیا۔
عزت مآب وزیر اعظم سے ہمیں کوئی خاص شکوہ نہیں۔ وہ ویسے ہی بہت پریشان۔ ایک سمت آپریشن، دوسری طرف اپوزیشن۔ ایک جانب ماڈل ٹائون سانحہ، تو دوسری طرف لال حویلی کے اسپیکر سے بُلند ہوتی نٹ کھٹ پیش گوئیاں۔ پڑوس میں کوئی صاحب، افغانستان میں خانہ خراب۔ اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں ۔ ایسے میں ذہنی اور روحانی سکون کے لیے عمرے کا ارادہ کیا، تو مخالفین انگلیاں اٹھانے لگے۔ چھوڑیے جناب۔ اب معاف کرنے کی ٹھان ہی لی ہے، تو ان کو کیوں محروم رکھا جائے۔
ہمارے پیارے وزرائے اعلیٰ کی بابت کیا کہیں۔ شہباز شریف ہماری من پسند نظمیں خوب گاتے ہیں۔ پنجاب کا پتہ نہیں، البتہ لاہور کو اُنھوں نے خاصا سنوار دیا۔ البتہ باقی تین صاحبان سے ہم سمیت بہت سوں کو شکایات ہوں گی۔ کارکردگی ان کی مشکوک۔ جن صوبوں کے وہ وزیر اعلیٰ، حکومت وہاں کوئی اور کر رہا ہے۔ سو ہمدردانہ بنیاد پر انھیں بھی معاف کرتے ہیں۔
کیا ہی بہتر ہو کہ اگست کی اس صبح اُن تجزیہ کاروں کو بھی معاف کر دیا جائے، جو اپنے الفاظ اور خیالات میں جذباتیت کا مضر صحت تڑکا لگاتے ہیں۔ سچ چھپا کر تہذیبی نرگسیت کا جادو جگاتے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے جنگ جنگ چلاتے ہیں۔ مغرب کو مطعون ٹھہراتے ہیں، اور چھٹیاں پیرس میں مناتے ہیں۔ خدا لگتی کہیں، ان کے خام تجزیوں اور پیش گوئیوں نے بہت زخم دیے ہیں ہم کو۔ لیکن آج درگزر کا دن ہے، سو انھیں بھی معاف کیا۔
ہم نے اپنے ایٹمی سائنس دانوں اور اعلیٰ منصفوں کو بھی معاف کیا، جنھوں نے قوم کی عطا کردہ عزت کی ذرا پروا نہیں کی۔ غیرسنجیدہ بیانات داغے۔ مشکوک اقدامات کیے۔ اُن آمروں کو بھی جانے دیں، جنھوں نے مارشل لا لگا لگا کر ملک کو عشروں پیچھے دھکیل دیا۔ جعلی سیاست داں پیدا کیے۔ اپنی غفلت کا ملبا بے چاری جمہوریت پر ڈالا۔ شدت پسندوں کو بھی بخش دیں، جن کے رکاب ہمارے خون سے بھرگئے۔
متعصب مذہبی علما کے معاملے میں درگزر اپنائیں، جن کی لائوڈ اسپیکرز سے بُلند ہوتی صدائوں نے سماعتوں کو چھید ڈالا۔ ہم اپنے اُن ادیبوں اور شاعروں کو بھی معاف کرتے ہیں، جو گروہ بندیوں میں الجھے ہیں۔ مافیا بنے بیٹھے ہیں۔ جس کا نظریہ بھائے، فقط اُسے پڑھتے ہیں۔ اور جسے اپنا مخالف پائیں، اس سے جھگڑتے ہیں۔ اُن کھلاڑیوں کو بھی معاف کیا، جو دس دس پراٹھے کھاتے ہیں، فٹنس کی اہمیت قہقہوں میں اڑاتے ہیں، دعوے کرتے ہوئے بیرون ملک جاتے ہیں، اور ہار کر خاموشی سے لوٹ آتے ہیں۔
صحافی، اینکرپرسنز کو بھی بخش دیا جائے، جو اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے۔ بیوروکریٹس کو بھی معاف کر دیا جائے، جو عوام سے کٹ گئے، اپنا جہاں الگ آباد کیا۔ جب معاف ہی کرنا ہے، تو ماہرین تعلیم، ماہرین قانون، ماہر معیشت کو بھی معاف کر دیا جائے۔
تو صاحبو، ہم نے سب کو معاف کیا۔ اور یہ مشق اب ہمیں تحریر کے اختتام تک لے آئی ہے۔ اگر آپ کو سرنگ کے آخر میں روشنی دکھائی نہیں دے رہی، تو راقم الحروف معذرت چاہتا ہے کہ اُس کا دعویٰ، اس عہد کے تجزیہ کاروں کی پیش گوئیوں کے مانند، کھوٹا نکلا۔
ویسے راقم الحروف کو آپ سے معافی مانگنی بھی چاہیے کہ اُس کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ وہ آپ کو تو عاقبت نااندیشوں کو معاف کرنے کی نصیحت کر رہا ہے، مگر خود انھیں معاف کرنے کو تیار نہیں۔ بھلا اِن بدبختوں کو بھی معاف کیا جاسکتا ہے، جنھوں نے ملک کا بھٹا بٹھا دیا۔ عوام کے خوابوں کو ادھیڑ ڈالا۔ خوابوں کی فصل روند دی۔ ہماری تو آرزو ہے کہ جو قصوروار ہے، سزا پائے۔ حوالات بھر دیں، کچھ کو ملک بدر کریں، کچھ کو سولی پر چڑھا دیں۔
آپ کا پتہ نہیں، مگر ہم تو اُنھیں معاف کرنے کو قطعی تیار نہیں۔ ایسی رجائیت پسندی کا کیا اچار ڈالنا ہے، جو فقط بگاڑ کو مہمیز کرے، تباہی کو کچھ اور نزدیک لے آئے۔ وہ لاکھ کہیں:
ایک، دو، تین، چار، پانچ نہیں
میری ساری خطائیں معاف کرو
مگر ہم تو معاف نہیں کرنے والے۔ اِدھر اُدھر سے خیالات کشید کرتے ہیں جناب۔ اور آج کل اِدھر اُدھر فقط انتشار ہے، ا ور بے شمار ہے۔