اپنے وطن سے دور رہ کر ہی مکان اور گھر کے فرق کا پتا چلتا ہے شفیق سلیمی

47ء میں ہجرت کرنے والوں نے گھر بنالیا، تلاش رزق کے لیے وطن چھوڑنے والے گھر نہیں بناسکتے، شفیق سلیمی


Mehmood Ul Hassan August 07, 2014
معروف شاعر شفیق سلیمی کے حالات وخیالات۔ فوٹو: فائل

ہجرت کا موضوع دنیابھرکی شاعری میں برتا گیا ہے۔اردو میں بھی ہجرت کے تجربے پر تخلیقی اظہار کی روایت موجود رہی ہے جس کو1947ء کی تقسیم نے اور بھی آگے بڑھایا۔

اس وقت ہجرت کرنے والوں کو نئے ملک میں اپنا مستقل ٹھکانہ مل گیا اور انھوں نے ادھر اپنا گھر بنا لیا، جس میں رہتے ہوئے پرانے گھر کو بس یاد کیا جاسکتا تھا لیکن ادھر دوبارہ جاکر آباد ہوجانے کا معاملہ ختم شد۔اس ہجرت کے بعد آنے والے برسوں میں ایک نئی ہجرت تلاش معاش کے سلسلے میں شروع ہوتی ہے اور دبئی چلو قسم کا کلچر پروان چڑھتا ہے جس میں خرابی یہ رہی کہ آپ جہاں کہیں بھی چلے جائیں گھر نہیں بناسکتے اور پلٹ کر بار بار چھوڑے دیار کو دیکھتے ہیں اور ادھر جانے کے امکان کی ایک کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ ہجرت بغرض روزگار کے تجربے کو معروف شاعر افتخار عارف نے اپنے اس شعر میں عمدگی سے بیان کیا ہے۔

شکم کی آگ لیے پھررہی ہے شہربہ شہر
سگِ زمانہ ہیں، ہم کیا، ہماری ہجرت کیا

شفیق سلیمی بھی ہمارے عہد کے ان نمایاں شعرا میں سے ہیں جن کے ہاں ایسی ہجرت کے تجربے کی گونج سنائی دیتی ہے۔وہ وطن چھوڑ کرجہاں بسے، اسے بے نام دیارقراردیتے ہیں۔اس حوالے سے ان کا یہ شعرتو ضرب المثل بن چکا ہے۔

بے نام دیاروں کا سفرکیسا لگا ہے
اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے
ایک اورجگہ کہتے ہیں:
بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہوآئے
کچھ درد تھے، چن لائے کچھ اشک تھے روآئے

احمد ندیم قاسمی جنھیں شفیق سلیمی ادب میں گرو کا درجہ دیتے ہیں، ان کے بقول:'' شفیق سلیمی کے ہجرتی اشعار کہ ان میں جو ہمہ گیرکرب اوراس کرب سے دم گھونٹ دینے والاجو جبرہے، اس کی مثالیں کہیں اورذرا کم کم ہی دستیاب ہیں۔شفیق سلیمی اپنے وطن سے دورجاکرروزی کمانے کی جدوجہد کرنے والے لوگوں کے جذبات کوجس صداقت اورسلیقے کے ساتھ زبان دیتا ہے، وہ فی الحال اسی کا حصہ ہے۔''



شفیق سلیمی کا کہنا ہے'' کچھ پانے کے لیے کچھ کھونے کے عمل نے بہت کچھ دیا ہے۔ وطن چھوڑنے سے ہی مکان اور گھر کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ آپ پلٹ کرگھرکی طرف دیکھتے ہیں، ادھرجانے کے بارے میں سوچتے ہیں، اورسولی پرلٹکے رہتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے جس آسودگی کی تلاش میں زمین چھوڑی ہے، وہ بھی نہیں مل رہی۔

بیچ بیچ میں گھر آنا بھی ہوتا ہے لیکن پھر پرائے دیس جاناپڑتا ہے۔ کوئی عزیزفوت ہوجائے تواس کے جنازے کو کندھا دینے سے محروم رہتے ہیں۔ اس میں کبھی معاشی مجبوری آڑے آتی ہے توکبھی قانونی مجبوری۔ کبھی وقت پر فلائٹ ہی نہیں ملتی۔ میرے ساتھ خود یہ ہوا کہ والدہ کی وفات پر پاکستان آنا چاہتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔میرا شعرہے

تلاشِ رزق میں نکلا ہوا ہوں
وگرنہ کون گھر کو چھوڑتا ہے

وطن چھوڑنے سے قبل حالات کا جبرمعرض اظہار میں آتا رہا اور بعد میں وطن سے دوری کے کرب کو انھوں نے تخلیقی سطح پر بیان کیا۔ اس سارے کے لیے انھوں نے غزل کو چنا۔ نظم سے انھیں کد نہیں، اور وہ خود بھی کبھی کبھاراس صنف کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں لیکن بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کا بتانا ہے کہ انھیں غزل کی فارم میں کبھی بھی کچھ کہنے کے لیے تنگی کا احساس نہیں ہوا اوروہ بڑی سہولت سے دل کی بات کہتے رہے۔ معاشی جبر نے انھیں گھرسے بے گھرکیا، اس لیے وہ نظام زرسے نفرت بھی کرتے ہیں

یہ ہونا تو ہے، لیکن کب یہ ہوگا
قبائے زر کا لیر و لیر ہونا

شفیق سلیمی سے شاعری کے تعلق سے اور بھی بات کرتے ہیں، بیچ میں ان کے حالات زندگی کا بیان ہوجائے۔ شفیق سلیمی نے1941ء میں امرتسر کے قریب ایک مقام پریت نگر میں زمیندار چودھری فتح محمد کے ہاں آنکھ کھولی۔ پریت نگرکوسوشلسٹ نظریات کے حامل سکھ انجینئراورادیب گوربخش سنگھ نے آباد کیا تھا۔ معروف اداکار بلراج ساہنی کا بنگلہ بھی ادھر تھا۔ترقی پسند ادیبوں کا ادھرآنا لگارہتا۔شفیق سلیمی اوران کے چھوٹے بھائی اور معروف شاعرجلیل عالی کا خیال ہے کہ ان کے ہاں ادب کے جراثیم جو پیدا ہوئے تویہ شاید پریت نگرکی اس علم پرور فضا ہی کا اثر تھا جس میں زندگی کی ابتدائی برسوں میں انھوں نے سانس لیا۔

سردار گور بخش سنگھ نے بعد ازتقسیم ان کے والد کو خط بھی لکھا جو اتفاق سے محفوظ رہ گیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ سردارکے خیال میں ' جوپاکستان ہجرت کرگئے وہ شکوہ کناں ہیں کہ انھیں پناہ گیرکہا جارہا ہے مگرپھربھی وہ اپنوں میں تو چلے گئے اور میرے جیسے لوگ اپنوں میں رہتے ہوئے پناہ گیر ہوگئے۔'سردار نے خط میں شفیق سلیمی کے خاندان کے سامان اوراپنے بنگلے کو نذرآتش کرنے کی بھی اطلاع دی ۔ معروف فکشن نگار اپندرناتھ اشک بھی پریت نگرمیں رہے، اس بابت ہمیں دیوندر ستیارتھی کے مضمون بعنوان '' ڈاچی کا فنکار'' سے پتا چلتا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں ''ان دنوں اشک ہندی، اردو ''پریت لڑی''کے مدیرکی حیثیت سے پریت نگر میں مقیم تھا۔''

بیس بائیس برس قبل شفیق سلیمی پریت نگرگئے تو دیکھا کہ اب اس علاقے میں چھاؤنی بن چکی ہے۔ ماضی سے اس خطۂ زمین کا تقابل اس واسطے نہیں کرسکتے کہ ہجرت کے ہنگام وہ محض چھ برس کے تھے اور چند ایک دھندلی سی یادوں کے سوا کچھ بھی ان کے ذہن میں نہیں۔

ان کے والد سرگرم سیاسی ورکراورمقامی سطح پرمسلم لیگ کے عہدے دارتھے۔وہ امرتسرچھوڑنا نہیں چاہتے تھے مگرمجبوراً انھیں ہجرت کرنی پڑی۔بتاتے ہیں کہ ان کا علاقہ تحصیل اجنالہ میں آتا تھا اور گورداسپورکی طرح جس نے پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن آخری وقت میں اسے ہندوستان میں شامل کردیا گیا۔ ہجرت کے بعد کچھ عرصہ تو ان کا خاندان گوجرانوالہ میں رہا پھرکوٹ رادھا کشن اٹھ آیا۔ یہیں کے مقامی اسکولوں میں انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ پڑھنے لکھنے کا آغازبھی اس زمانے میں ہوا۔ادھرقائم ایک لائبریری نے شوق مطالعہ کوپروان چڑھایا۔ دسویں جماعت میں پہلا شعرکہا

تجھے اپنا بنایا سبھی چھوڑ ڈالے
یہی بس سلیمی خطا ہوگئی

پہلے پہل تواس تخلیقی سفر میں تنہا تھے لیکن جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ برادر خوردجلیل عالی بھی اس راہ کے مسافرہیں، تو پھر دونوں بھائیوں میں شعروشاعری کے بارے میں تبادلۂ خیال ہونے لگا۔میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لیا۔ ادبی محفلوں میں آنے جانے لگے۔ تعلیم کی طرف طبیعت نہ آئی اورلاہور چھوڑ کرفیصل آباد سدھارے۔ ادھر آنا ان کے حق میں اس لیے نیک فال ثابت ہوا کہ اب وہ پڑھائی میں چل نکلے۔

میونسپل کامرس کالج نیا نیا قائم ہوا تھا، یہاں انھوں نے آئی کام کیا اورپھربی کام آنرز۔ پہلی بار کلاس میں گئے تو ایک سابق ہم جماعت استاد کے روپ میں نظرآئے۔ انھوں نے پرنسپل کو ان کے شعروشاعری سے شغف کا بتایا توانھوں نے خوش ہوکر سو روپیہ وظیفہ مقررکردیا اور فیس بھی معاف کردی۔ کالج کی طرف سے انھوں نے شاعری اور بیت بازی کے کئی مقابلوں میں کامیابی حاصل کرکے ادارے کا نام روشن کیا۔اس سفرمیں معروف شاعر علی اکبر عباس ان کے پارٹنر ہوتے۔ فیصل آباد میں قیام کے دوران ہی عدیم ہاشمی اورافتخارنسیم سے دوستی ہوئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کئی جگہ نوکری کی لیکن کہیں قدم جم نہ سکے تو آخرکار باہر جاتے ہی بنی۔ باہر جانے سے قبل یہ شاعرکے طورپرمعروف ہوگئے تھے، جس میں بنیادی کرداراحمد ندیم قاسمی اوران کے '' فنون'' کا تھا۔ شاعروں ادیبوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تو تھا لیکن وہ شاعر ہونے کا پتا نہیں دیتے تھے۔



خالد احمد سے ان کی دوستی بھی اس زمانے میں استوار ہوئی، جو عمر بھر کے ساتھ میں بدل گئی۔ خالد احمد نے ایک روزاصرار کرکے ان سے شعرسنے تویاراغیار کو خبر ہوئی کہ موصوف اچھے شاعر بھی ہیں۔ شاعری کے معاملے میں اصل بریک تھرو انھیں جہلم کے ایک مشاعرے سے ملا جس کے ختم ہونے پراحمد ندیم قاسمی ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرا خیال تھا کہ آپ شوقیہ فنکارہیں لیکن آپ تو باقاعدہ شاعرنکلے، اس لیے یہ غزل ''فنون ''کے لیے دے ہی دیں۔ ''فنون'' میں ایک بارچھپے تو پھر تواتر سے موقر رسالے میں ان کی غزلیں جگہ پانے لگیں۔باہرجانے سے شاعری میں نیا موڑ آیا اور ان کا ایکسپریشن تبدیل ہوگیا اور اب ہجرت کے تجربات شاعری کا موضوع بننے لگے۔

احمد ندیم قاسمی سے تعلق پروہ فخرکرتے ہیں۔ اردو کے اس ممتازادیب سے محبت اورارادت مندی اگران کی طرف سے رہی توان کی طرف سے بھی محبت کا زمزمہ بہتا رہا۔شفیق سلیمی بتاتے ہیں کہ بیٹی کی شادی میں بعض قریبی دوستوں نے بھی عدم شرکت پر عذرتراشے مگراحمد ندیم قاسمی نہ صرف شادی میں شرکت کے لیے آئے بلکہ رخصتی تک موجود رہے۔ ادیبوں میں خالد احمد سے گاڑھی چھنتی تھی۔ان کی موت سے بہت آزردہ ہیں۔ان کے ذکر پر آواز روہانسی ہوجاتی ہے۔خالد احمد کو دوست ہی نہیں اپنا استاد بھی قرار دیتے ہیں،کہ فنِ شعرکی بہت سے باریکیاں ان سے سیکھیں۔

شاعری کے قاری کے طور پرشروع شروع میں سب سے بڑھ کرساحرلدھیانوی کے کلام نے اپنی طرف کھینچا۔''تلخیاں''انھیں زبانی یاد تھی۔ احمد ندیم قاسمی کی شاعری بھی پسند ہے لیکن فیض احمد فیض نے زیادہ متاثرکیا۔ایک بارکسی نے پسندیدہ شعرکے بارے میں پوچھا توفوری طور پر فیض کا شعر ہی ذہن میں آیا

مہلت ہی نہ دی فیض ہمیں بخیہ گری نے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا

ناصرکاظمی،ظفراقبال، شہزاد احمد ، اور احمد مشتاق کو بھی لگ کرپڑھا۔کلاسیک میں میر، غالب، سودا اورمومن کے قائل ہیں۔
اردو میں نظمیں بھی انھوں نے کہی ہیں لیکن بہت کم۔پنجابی میں اس سے معاملہ الٹ ہے کہ یہاں نظموں کا تناسب غزلوں سے زیادہ ہے۔جدید پنجابی شاعری میں احمد راہی اورامرتا پریتم اچھے لگے۔ان کے خیال میں بشیرمنذرپنجابی کے جتنے اچھے شاعر ہیں، اس اعتبار سے انھیں رتبہ نہیں دیا گیا۔

ان کی پہلی کتاب '' تمازت''1990 میں اور ''تپش'' 2009ء میں شائع ہوئی۔تیسرے مجموعے کا مواد موجود اورجلد ہی اس کو سامنے لانے کا ارادہ ہے۔خود کوغیرمنظم آدمی قراردیتے ہیں ، اس لیے لکھا کلام اکثر گم کربیٹھتے ہیں اورپھراس کی تلاش میں جان کھپاتے ہیں۔جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ معروف شاعرجلیل عالی ان کے چھوٹے بھائی ہیں، یہ بات مگر زیادہ عام نہیں۔ایک بارفتح محمد ملک بیرون ملک ملے تو گفتگو میں جلیل عالی کا ذکرہوا توافسوس ظاہرکرتے ہوئے بتا نے لگے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ شفیق سلیمی نے ان کا کہا سن لیا اور تھوڑے توقف کے بعد فتح محمد ملک سے کہا کہ جلیل عالی کی والدہ میری بھی والدہ تھیں۔

ان بھائیوں کی طبیعتوں اورشاعری کے آہنگ دونوں میں ہی فرق ہے۔ چھوٹے نے بڑے بھائی کی شاعری کو کس نظر سے دیکھااس کی تھوڑی سے جھلک آپ بھی دیکھ لیں۔ ''شفیق سلیمی اجنبی سرزمین پرزندگی بسرکرنے کے دوران جن تجربات و مشاہدات سے گزراہے، اس کی شاعری میں ان کا انعکاس ایک فطری بات ہے مگراس نے ان تجربات و مشاہدات کو اپنے خاص انداز اور مختلف زاویے سے یوں بیان کیا ہے کہ ان پرعمومیت کے تاثر کو غالب نہیں آنے دیا۔'' ان کے بھائی منیر منتظر افسانے لکھتے ہیں اور گاؤں میں مقیم بھائی حفیظ سلیمی بھی شعر کہتے ہیں۔سلیمی ان کے نام کا حصہ ہے، جس سے گمان گزرتا ہے کہ یہ شاید ان کا تخلص ہوگا لیکن یہ ان کا خاندانی نام ہے۔

کہتے ہیں کہ ارائیں برادری کی اس شاخ سے ان کا تعلق ہے جو سمجھتی ہے کہ ان کے اجداد عرب سے آئے اور محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے سلیم نام کے ایک محترم سے ان کا شجرہ نسب شروع ہوتا ہے تو اس مناسبت سے وہ سلیمی کہلواتے ہیں۔ شفیق سلیمی نے پچیس برس متحدہ عرب امارات کی خاک چھانی۔ شہر سے دورآباد مزدوروں کے بچوں کے لیے تعلیمی ادارہ قائم ہوا تواس سے متعلق ہوگئے اور تدریس کے علاوہ انتظامی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے۔یو اے ای میں قیام کے دوران کئی بھارتی ڈراموں کے ٹائٹل سانگ بھی ان کے قلم سے نکلے۔

کہتے ہیں، اب تو وہ پروفیشنل شاعر بن چکے ہیں اور بہت سے ایسے کچے پکے شاعر جن کو شاعری کی کتاب چھپوا کر مصنف بننے کا شوق ہوتا ہے، ان کی بامعاوضہ رہنمائی کردیتے ہیں۔ البتہ جس کسی میں واقعی کوئی جوہر نظر آجائے تواس کو مفت مشورے دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ مستقبل میں وہ نثر نگاری کا ارادہ باندھ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں