بے چین ہے کیوں یہ سمندر بھی
سمندر انسانوں کی طرح ڈرا سہما ہوا نہیں ہے۔ سمندر آزاد ہے۔
کراچی کی خوبصورتی سمندر ہے۔ سمندر کا اپنا الگ ہی مزاج ہے۔ سمندر گہرا، پراسرار اور ناقابل یقین ہے۔ خوبصورتی کے ساتھ بے یقینی ہو اگر تو وہ بے اختیار اپنی جانب کھینچتی ہے۔ لہٰذا سمندر کی کشش لوگوں کو قریب جانے پر اکساتی ہے، مگر اس کی جارحانہ فطرت خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔
سمندر کے رنگ بے شمار ہیں۔ اس کی لہروں کا آہنگ اظہار کرتا ہے۔ لہریں دکھ سے ہمکلام ہوتی ہیں اور نمکین پانی مظلوموں کے آنسوؤں کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ یہ مستقل احتجاج کرتا ہے، جو اس کی لہروں کا فطری انداز بھی ہے۔ بہت سے مالیکیولز سے تشکیل پانے والا سمندر، اجتماعیت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ انسان کے اندر کا ترجمان بھی ہے۔ احساس مصلحتاً خاموش ہو، مگر ذہن، جسم و روح طغیانی کا شکار ہوتے ہیں۔ سمندر کا شور ہمہ وقت ذہن کے قید خانے کے قریب سنائی دیتا ہے۔ مگر انسان کا دل اور احساس سمندر کی گہرائی کو بھی مات کر جاتے ہیں۔ بقول حضرت سلطان باہو:
دل دریا سمندروں ڈونگھے
کون دلاں دیاں جانے ہو
سمندر انسانوں کی طرح ڈرا سہما ہوا نہیں ہے۔ سمندر آزاد ہے۔ آزادی کا گیت سننے انسان بار بار لہروں کے قریب جاتے ہیں۔ سمندر آزادی کا جشن مناتا ہے اور انسان ان دیکھی زنجیروں کا سوگ مناتے ہیں۔ سمندر کے قریب کھڑے ہیں۔ یہ موسم لہروں کی طغیانی کا موسم ہے۔ پہلے سے اطلاعات مل چکی تھیں کہ سمندر کی بے باک و وحشی لہریں، کسی بھی المیے کو جنم دے سکتی ہیں۔ لہٰذا اس موسم میں سمندر کی لہروں سے دور رہا جائے تو بہتر ہے۔
کراچی کی زندگی بہت مصروف ہے۔ یہ مضطرب، پر آشوب اور تھکا دینے والی ہے۔ لمحے بے اختیار ہاتھوں سے سرکتے جاتے ہیں۔ سورج کی جھلسا دینے والی تپش، ٹریفک کا دھواں، بے ہنگم آوازوں کا شور، سروں پر منڈلاتے خطرات اور فاصلوں کا زہر انڈیلتے لوگ جب بے زار ہو جاتے ہیں، تو سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ گرمی کی چھٹیاں ہیں لہٰذا پورا ساحل سمندر لوگوں سے آباد ہے۔
مگر اس مرتبہ سمندر کا مزاج بدلا ہوا ہے۔ اس نے زمین سے آسمان تک گرے (سرمئی) رنگ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ یہ رنگ قدامت اور دانشمندی کا مظہر ہے۔
اداسی و بے یقینی کا رنگ بھی ہے۔ آج سمندر افسردہ بھی ہے اور اندوہناک بھی۔ لوگ لہروں کے قریب ہیں۔ وہ لہروں کو چھونے کی چاہ میں آگے بڑھتے رہے کہ یکایک ایک تیز لہر نمودار ہوئی اور سرپٹ کنارے کی طرف دوڑنے لگی۔ لوگ بے اختیار چیخ پڑے۔ پیچھے کی طرف دوڑنے لگے۔ ہنستے اور مذاق کرتے ہوئے۔ وہ زمینی خطرات کو تو ویسے بھی جھیل رہے ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں سنسناتی گولیاں ان کے قریب سے گزر جاتی ہیں۔ لہٰذا سمندر سے کیا ڈرنا۔
''بھئی! آج تو سمندر کے تیور بڑے خراب سے ہیں۔'' میری دوست سنیتا نے تمام بچوں سے پیچھے جانے کو کہا، جو مزید آگے جانا چاہتے ہیں۔
سمندر کے لبوں پر کوئی ادھوری سی بات ہے۔ آنسوؤں میں تر۔ حالانکہ ہمارے موڈ ہشاش بشاش ہیں۔ بعض اوقات دل اداس ہو تو باہر کے موسم بھی اسی دھند کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ لیکن جو زمین و فطرت کے قریب ہوتے ہیں وہ اس کا خالص مزاج سمجھ پاتے ہیں۔ Mystic صوفی یا یوگی فطرت کو زندہ سمجھتے ہیں۔ فطرت ان سے ہمکلام ہوتی ہے۔
ایک بہت بڑا سیاہ بادل کا ٹکڑا سمندر کی وسعتوں کے اوپر تیرنے لگا۔ باقی آسمان ہلکے بادلوں سے ڈھک گیا۔ یہ سیاہ بادل مستقل سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہا ہے۔ اور سورج ہے کہ زمین پر کرنیں نچھاور کرنے کی چاہ میں بادل سے مستقل برسر پیکار۔ ایک لمحہ ایسا آیا جب سورج کی کرنیں، بادل کے شکنجے سے نکل کر، مور کے پروں جیسی دکھائی دینے لگیں۔ دھوپ و چھاؤں کا حسین منظر ہے ہر طرف۔ اب لہروں پر سورج کی کرنوں کے ستارے جھلملانے لگے۔ سمندر آسمان کے عشق میں مبتلا ہے شاید۔ جو رنگ آسمان کا ہوتا ہے، وہی پیرہن لہریں اوڑھ لیتی ہیں۔ اگر آسمان کے رنگ نہ ہوتے تو شاید سمندر کا حسن بھی بے معنی ہوتا۔ سمندر نسبت کی روشنی ہے۔ تعلق کی تمثیل ہے۔ انتشار بھی ہے تو وحدت بھی۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پانی زندہ حقیقت ہے۔ اس کے پاس یادداشت ہے۔ وہ انسانوں کی طرح ردعمل دکھاتا ہے۔ پانی یہ بات بھی جانتا ہے کہ کون اس کے قریب ہے۔ اگر کوئی مخلص شخص قریب ہے، تو لہریں بے اختیار رقص کرتی ہیں، بصورت دیگر اپنی بے ساختہ خوشی کھو بیٹھتی ہیں۔ یہ وہی سمندر ہے، جسے امریکا کے مشہور ناول نگار ارنیسٹ ہیمنگوے نے اپنے ناول ''اولڈ مین اینڈ دی سی'' کا موضوع بنایا ہے۔ یہ ناول اس کے ہیرو ''سنتیاگو'' کی کئی دن سمندر میں تنہا جدوجہد کی انوکھی داستان ہے۔
ناول کا یہ سدا بہار جملہ کہ: ''انسان تباہ تو ہو سکتا ہے مگر شکست زدہ نہیں۔'' یہ حقیقت ہے کہ جسم ہار جاتا ہے مگر احساس و جذبہ ناقابل تسخیر ہیں۔ زندگی کی کہانی میں، سچے جذبوں کا اثر نہ ہو اگر، تو یہ داستان بے اثر رہ جاتی ہے۔ اور وقت بھی اس کا بوجھ اٹھا کر، گمنامی کے راستوں کی طرف پھینک دیتا ہے۔ سچا احساس امر ہے، وہ لافانی ہے سمندر کی طرح، جسے تاریخ مدتوں یاد رکھتی ہے۔
لہریں گہرائی میں جا کر پلٹتی ہیں، سمندر کی جڑوں کی مہک فضا میں پھیل جاتی ہے۔ خوشبو، نروس سسٹم کی کارکردگی بہتر بناتی ہے۔ یہ فطری مہک مزاج، ذہنی دباؤ، افسردگی و خود اعتمادی کو مضبوط کرتی ہے۔ فطرت کی مہک ذہن و جسم کے رابطوں کو مزید مستحکم کرتی ہیں۔ جس سے انسانی حسیں و سوجھ بوجھ جلا پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ چھٹیوں میں سمندروں کا رخ کرتے ہیں۔ پہاڑوں کی طرف رخت سفر باندھ لیتے ہیں اور سبزہ زاروں میں پہنچ کر اپنے تھکے ماندے احساس کو بے ساختہ خوشی میں بدل دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انسان کی سونگھنے کی حس فعال ہے، تو ذہن بھی اتنا ہی متحرک رہتا ہے۔ اور وجدانی کیفیات کی طرف ذہن کی بند کھڑکی کھل جاتی ہے۔
آج سمندر کی لہریں بے چین ہیں۔ دور تک نہ لائف گارڈز دکھائی دیے اور نہ کوئی مانیٹرنگ جو لوگوں کو خطرناک لہروں کی طرف جانے سے روکتیں۔ قلم 144 کا اطلاق بھی بے اثر دکھائی دیتا ہے۔ عوامی زندگی کے بہت سے المیے ہیں۔ جن میں بے خبری، ناسمجھی اور ہٹ دھرمی جیسے بے زار کن رویے بھی شامل ہیں۔ عوامی شعور بھی کسی قدیم اور خستہ حال گاڑی کی طرح رینگتے ہوئے چل رہا ہے۔ بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ آخری خبریں آنے تک سمندر چالیس سے زیادہ جانوں کو نگل چکا ہے۔ زندگی کے تضادات سے دور سمندر کی دلجوئی کے چند لمحے بھی منتشر ذہنوں کو راس نہ آ سکے۔ اس دن سمندر کی اداسی، آنے والے لمحوں کے دکھ سے بوجھل تھی شاید ۔