پاکستان ایک نظر میں خلوص ہے تو ثابت کرو

اگر انتخابات سے پہلے کچھ زیادہ ہی دعوے کر لئے تھے تو اب کم سے کم اپنا خلوص ہی ثابت کرنے کے لیے کچھ کر جاؤ۔


Rizwan Tahir Mubeen August 07, 2014
اگر انتخابات سے پہلے کچھ زیادہ ہی دعوے کر لئے تھے تو اب کم سے کم اپنا خلوص ہی ثابت کرنے کے لیے کچھ کر جاؤ۔ فوٹو اے ایف پی

لگتا ہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت جمہوریت کی حامی صرف اسی وجہ سے ہے کہ اس میں ان کے لئے زیادہ ''مواقع'' ہیں۔ اگرچے ہمارے وردی والے تقریباً ہر ہی حاکم کی ''مدد'' کو سیاست دانوں کی کھیپ ضرور میسر آئی۔ اس کے باوجود ''قومی مفاد'' یہ رہا کہ جمہوریت والا چکر ٹھیک ہے بھئی، اب اگر گیارہ، گیارہ سال کوئی کرسی نہ چھوڑے، تو اپنی ''باری'' کے لیے تو نسلیں درکار ہوں گی۔

ہمارا مقصود کسی فوجی حکومت کی حمایت قطعاً نہیں،مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کے بعد اقتدار ہمیشہ انہی ہاتھوں میں گردش کرتا رہا، جن کے ہاتھوں میں آج ہے۔ تعجب ہے اس کے باوجود بھی 60 سالہ تاریخ میں ہم جتنا محظوظ حکومتوں کے گرنے سے ہوئے اتنا شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہوا ہو۔

بانیان پاکستان کو منظر سے ہٹانے کے بعد اس ملک کے دائمی حاکم بننے والی مقتدر اشرافیہ نے اتنی تیزی سے وزرائے اعظم بدلے کہ بھارتی وزیراعظم نہرو نے کہا ''میں اتنے جلدی دھوتیاں نہیں بدلتا، جتنے جلدی پاکستان کے وزیراعظم بدل جاتے ہیں۔'' یہ زمانہ تھا 1953ء تا 1958ء، جب بالترتیب محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیرزخان نون وزیراعظم رہے۔

پھر فوجی اور غیر فوجی حکومتوں کی آنکھ مچولیوں کے سلسلے، جب بھی اچانک اخبارات کے ضمیمے نکلتے کہ ''حکومت کی چھٹی!'' تو عجیب عید کا سا سماں ہوتا۔ حکومت چاہے کتنی ہی بھاری بھرکم رہی ہو، قوم جلد ہی مایوس اور اگلے کسی مسیحا کی منتظر نظرآتی، جوں ہی کسی کا دھڑن تختہ ہوتا تو یک دم امید سَحر بڑھ جاتی۔ 1999ء میں پرویز مشرف کی حکومت آنے کے بعد یہ ''خوشی'' آخری بار دیکھی گئی۔

اس کے بعد ہر حکومت دھیرے سے یا سلیقے سے ہی رخصت ہوئی یا کی گئی۔ اچانک طبل روانگی بجنا ماضی کا حصہ بنا، بتایا یہ گیا اب سیاسی کھلاڑی ''بالغ'' ہو گئے کہ اب ملی ملی کھا،میرا مطلب آیا کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ ''تیسری'' قوت آجاتی ہے، پھر نہ ہم اور نہ تم، کیا فائدہ، پڑے پڑے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ احتساب کا ''روگ'' الگ،ہمارے اصطبل کے گھوڑے بھی سرکاری خزانے سے بادام اور دودھ کھانے کو ترس جاتے ہیں، مگر اب شاید لگتا ہے کہ پھر وہی ''دھڑن تختے'' والے زمانے لوٹ آئے ہیں۔ عمران خان طیش میں ہیں کہ نوازشریف عیش میں ہیں۔ لگے ہاتھوں طاہر القادری بھی پھر انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں کہ بس اب اسی مہینے ''آوے ہی آوے''۔

ہونق سرکار کہتی ہے، ہم ڈرے نہیں،دھرنے کے متوازی یوم آزادی کی تقریبات کا اعلان کر دیا اور بضد کہ نہیں بھئی بس یوں ہی، اسلام آباد فوج کے حوالے کر دیا۔ مگر مانیں کیسے کہ ایک سال میں ہی جان پر بن گئی ہے،کہاں پیر نہیں اٹھ رہے تھے اور اب وفاقی وزیر سعد رفیق کہتے ہیں کہ سر کے بل چل کے جانے کو تیار ہوں۔

اب تو پنجاب حکومت نے طاہر القادری کے خلاف تشدد پر اکسانے کا مقدمہ بھی درج کرا دیا ہے۔ ن لیگی راہ نما تہمینہ دولتانہ کہتی ہیں کہ ہم نے تو فوج سے ٹکر لی، تحریک انصاف کیا چیز ہے!۔ یعنی واضح اعتراف کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ 1980ء میں فوجی حکومت سے شروع ہونے والا نواز شریف کا اقتدار آج پنجاب کے وزارت اعلی سے ہوتا ہوا وزارت عظمیٰ کی انتہا پر ہے۔ اور پہلی بار بھی نہیں تیسری بار وزیراعظم بنے، تہمینہ دولتانہ ٹھیک کہتی ہیں کہ انہوں نے ہر بار فوج سے ٹکر لی!

بے نظیر کی تو دونوں حکومتیں صدر کے ہاتھوں رخصت ہوئیں، مگر نوازشریف نے آئی جے آئی کے ذریعے حاصل ہونے والی پہلی وزارت عظمیٰ بھی اس صدارتی اختیار سے قربان نہ ہونے دی۔1993ء میں صدر اسحق خان کے ہاتھوں برطرف حکومت عدالت سے بحال کرائی اور پھر اس وقت کے آرمی چیف کے ہاتھوں استعفے پر مجبور ہوئے۔ فرق یہ ہوا کہ ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تمہیں بھی لے ڈوبیں گے'' کے مصداق اپنے حریف صدر کو بھی ساتھ لے گئے۔

دوسری باری 1997 ء میں تن تنہا دو تہائی اکثریت کے ساتھ وارد ہوئے۔ آتے کے ساتھ ہی صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار ہی چھین لیا اور شاید سکھ کا سانس لیا،مگر فوج کے ساتھ الجھے اور پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے جدہ روانہ ہونا پڑا۔

تقدیر نے انہیں آج ایک بار پھر مضبوط حکومت کا قائد بنا دیا۔ مگر اس ''مضبوطی'' کی انتہا یہ ہے کہ سال بھر میں ہی ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ سیاست دانوں نے سیکھ لیا، مگر کیا خاک سیکھا سوائے جمہوریت، جمہوریت کی کھوکھلی گردان کے، انہوں نے یہ کیوں نہیں جانا کہ اقتدار کے تحفظ کا راستہ عوامی حمایت سے ہے۔ اگر انتخابات سے پہلے کچھ زیادہ ہی دعوے کر لئے تھے تو اب کم سے کم اپنا خلوص ہی ثابت کرنے کے لیے کچھ کر جاؤ۔ مانا بہت مسائل ہوں گے جو بجلی تک نہیں دے سکتے، آٹا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہیں روک سکتے، اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو کیا تمہارے پاس اپنے خلوص کو ثابت کرنے کی بھی اہلیت نہیں؟ سچائی ثابت کرنے کے لیے تمہیں کوئی قرضہ لینے کی نوبت نہیں آئے گی!

لگتا ایسا ہے کہ نوازشریف نے گردشِ اقتدار میں بِتائے 33 برسوں میں یہ کام بھی نہیں سیکھا یا پھر وہ۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں