پاکستان ایک نظر میں یہ کون لوگ ہیں

سکھوں کے لئے پاکستان اتنا ہی متبرک اور مقدس ہے جیسے مسلمانوں کے لیے مکہ یا مدینہ۔


شہباز علی خان August 08, 2014
سکھوں کے لئے پاکستان اتنا ہی متبرک اور مقدس ہے جیسے مسلمانوں کے لیے مکہ یا مدینہ فوٹو اے ایف پی

لو جی،اب یہ دن بھی آنے تھے کہ پاکستان کی سب سے چھوٹی اقلیت سکھ برادری بھی قتل و غارت ،دہشت گرد ی اور عدم تحفظ کا شکار ہو گئی۔ کم و بیش 25000 کی اقلیت پر شکار پور، دادو، پنو عاقل گردواروں پر حملوں کے بعد پشاور میں جگ موہن سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں پر حملہ اور جگ موہن سنگھ کے قتل نے پاکستانی معاشرے کی گرتی ہوئی اقداراور حکومتی نا اہلی کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔

مملکت خداد اد پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا جس میں قائد اعظم نے اقلیتوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کا تحفظ اسلامی اقدار کے مطابق کیا جائے گا،مگر ذرا ایک لمحے کو ٹھہرئے یہاں ہم اقلیتوں کی بات کیا کریں ،جب مسلمان خود ہی کبھی مسلک اور فرقے کی بنیاد پر تو کبھی لسانیت اور کبھی صوبایت کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں ۔اب تک دہشت گردی کا شکار ہونے والے 55 ہزار پاکستانی مسلمان ہی تو تھے جو اپنے ہم مذہب نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں دہشت گردی کا شکار ہوئے اور پھر اہل تشیع ، ہزارہ برادری، اسماعیلی، دیو بندی، بریلوی یا دیگر مسلک کی بنیاد پر گردنیں کٹوانے والے بھی تو مسلمان ہوتے ہیں اور مارنے والے بھی مسلمان ہی کہلواتے ہیں،حد تو یہ ہے کہ گردنیں کاٹتے ہوئے با آواز بلند تکبیر پڑھی جاتی ہے اور کمال ڈھیٹائی سے تمام منظر کو ریکارڈ کر کے یہ وڈیو کسی سماجی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جاتی ہے۔

تو ایسے میں عیسائیوں کے گرجا گھروں پر حملے، جانی نقصان اور بستیوں کی بستیاں جلانے یا ہندؤوں کی املاک پر حملے اور ان کی بچیوں کے اغواء اور زبردستی مذہب تبدیلی یا قادیانیوں کی عباد ت گاہوں پر حملے اور آئے روز قتل پر کیا ماتم کیا جائے ۔ اس سارے منظر کے باوجود میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ محض بیس ہزار کی پر امن اقلیت سکھ بھی دہشت گردی کا شکار ہونگے۔اس موقع پر مجھے اپنے پرانے دوست گلجیت سنگھ کی باتیں یاد آتی ہیں کہ؛
'' سکھوں کے لئے پاکستان اتنا ہی متبرک اور مقدس ہے جیسے مسلمانوں کے لئے مکہ یا مدینہ ''۔



گلجیت سنگھ کی تصویر

گلجیت سنگھ کی اس بات سے مجھے اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ سکھ نہ تو کبھی کسی جرائم پیشہ کاروائیوں کا حصہ بنے اور نہ ہی کسی مسلکی یا مذہبی انتشار سے کبھی کوئی لین دین رہا۔

میں بھی ہر پاکستانی کی طرح ذہنی انتشار کا شکار ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جنہوں نے پشاور کے جگ موہن سنگھ کو بھی نہ بخشا ۔ان کا مذہب کیا ہے؟ان کی قومیت کیا ہے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر ان کے پیچھے کون سے ہاتھ ہیں؟ ویسے یہ سوال ہیں تو بے کار مگر پھر بھی اٹھانے میں کیا ہرج ہے کہ حکومت کہاں کھڑی ہے؟ کیا جگ موہن سنگھ کی حفاظت کرنا کسی کی ذمہ داری تھی؟اور کیا جگ موہن سنگھ کے قاتلوں کو پکڑنا بھی کسی کی ذمہ داری ہے؟اور کیا جگ موہن سنگھ کے قتل پر کوئی مارکیٹ یہ کوئی شہر بند ہوگا؟کیا سیاست یا مذہب کے ٹھیکیدار جگ موہن سنگھ کے قتل پر کوئی ہڑتال یا لانگ مارچ یا انقلاب مارچ کریں گے؟۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان میں پھیلی ہوئی کم و بیش پچیس ہزار کی اقلیت کی اوقات ہی کیا ہے۔یوں لگتا ہے کہ جگ موہن سنگھ سکھ برادری کا نہ پہلا مقتول ہے نہ آخری۔ اور اب پاکستان میں بسے والے سکھوں کو اپنی فکر کرنا چاہیے ۔کیونکہ نہ تو حضرت عمرؓ جیسے حکمران ہیں کہ فرات کے کنارے پر کتا بھی بھوک سے مر جائے تو عمرؓ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ۔ویسے بھی حکمرانوں کو اپنے ذاتی مسائل سے یہ فرصت کہاں کہ وہ جگ موہن سنگھ جیسے بے وقعت انسان جس کا تعلق بھی ایک بے وقعت اقلیت برادری سے ہو اس کے لئے کون کھڑا ہو گا؟۔

اور کون انصاف دلائے گا؟ بہتر تو یہ ہے کہ جیسے سندھ میں بسنے والے ہندو دہشت گردی ، اغواء برائے تاوان ، قتل اور مذہب کی جبری تبدیلیوں سے تنگ آ کر نقل مکانی کر رہے ہیں ،سکھ برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنا کوئی بندوبست کر لیں۔سنتے ہیں کہ یہاں سے ہزاروں میل دور کینیڈا نام کا ایک ملک ہے جس میں سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں،سکھوں کو آج یا کل کچھ نہ کچھ ضرور سوچنا پڑے گا کیونکہ ان کی باری بھی لگ چکی ہے اور اب یہ '' نا معلوم دہشت گرد '' صرف جگ موہن سنگھ پراکتفانہیں کریں گے۔

سکھ برادری تو ویسے بھی چند ماہ قبل اپنے گردواروں پر حملوں اور مقدس کتاب کے جلانے پر احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی جسارت کر چکے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ اور ڈی چوک ایک معمولی بے وقعتی کے لئے نہیں ہے بلکہ لاکھوں ووٹوں سے منتخب معزز ارکان پارلیمنٹ کے لئے ہے، یا پھر ڈیڑھ دولاکھ انقلابی ہوں پھر ان کااستحقاق پارلیمنٹ کے اندر یا باہر احتجاج کرنے کا ہوتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں