دکھیاری ماؤں کا قافلہ
مسلمانوں کی تباہی اور دین اسلام کو مٹانے کے لیے یہودیوں کا بڑا ہاتھ ہے
دکھیاری ماؤں کا قافلہ دور دور تک جاتا ہوا نظر آرہا ہے، ان کے سینے سے مردہ اور زخمی بچے چمٹے ہوئے ہیں، خود بھی خون و خاک میں نہا چکی ہیں لیکن اولاد کی محبت اپنے دکھ پر حاوی ہے وہ اپنے بچوں کو دفنانا اور اسپتال میں علاج کے لیے لے جانا چاہتی ہیں لیکن دشمن سر راہ اس قافلے کو گولیوں سے چھلنی کردیتا ہے۔
وقفے وقفے سے آگ، دھوئیں کی یلغار اور لہو میں لت پت لاشوں اور زخمیوں کی چیخ و پکار بڑے بڑوں کے دل دہلا رہی ہے، لیکن نہیں دل دہل رہے ہیں تو صیہونیوں کے اسرائیلی فوجی وردی میں ملبوس، تندرست و توانا اور اپنے مضبوط بوٹوں سے ننھے بچوں کے کلیجے مسل رہے ہیں، صنف نازک کو زدوکوب کر رہے ہیں، لیکن یہ مسلمان خواتین، بہادروجری ہیں انھیں صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی جرأت و شجاعت یاد ہے۔ وہ ان درندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حالات کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ غزہ میں قدم قدم پر پھول جیسے بچے مردہ حالت میں موسم بہار میں کھلنے والے سرخ پھولوں کی طرح زمین کی گود پر لیٹے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لے رہے ہیں۔
بہشت میں جانے کے لیے ان کے ہی لہو نے انھیں لال رنگ کے لباس میں ملبوس کردیا ہے، والدین کے کلیجے انھیں دیکھ کر پھٹے جا رہے ہیں وہ خود بھی زخمی و بے آسرا ہیں لیکن وہ یہ سوچ کر غمزدہ ہو رہے ہیں کہ یہ وہی پھول ہیں جو ان کے آنگن میں کھلے تھے ان کی مہک سے پورا گھر معطر ہوگیا تھا۔ ماں کی آغوش میں انھوں نے آنکھیں کھولیں اور بولنا سیکھا تھا، وہ اپنے ننھے منے قدموں سے گھر کی چار دیواری میں بھاگے دوڑے تھے اور جب ہوش سنبھالا تو گھر سے باہر نکلے اور دنیا کو اور اس کی رنگینیوں کو دیکھا ، غباروں اور تتلیوں کا تعاقب کیا اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوڑے بھاگے اور پھر تھک ہار کر اپنے جنت جیسے گھروں میں آکر نیند کی آغوش میں کھو گئے، اب اس جگہ ان کے گھر نہیں ہیں ان کے ماں باپ بھی نہ جانے کہاں گم ہوگئے ہیں۔
ان کے ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں، اب آگ اور دھوئیں کے بادل ہیں اور اسپتال ہے، لیکن افسوس صیہونیوں نے اسپتال میں بھی بمباری کردی، وہ فلسطینیوں کو چن چن کر مار رہے ہیں وہ آگے بڑھتے جا رہے ہیں آبادیوں کو مسمار کرتے ہوئے ننھے پھولوں کو اپنے وزنی جوتوں تلے دباتے ہوئے حملے کر رہے ہیں انھوں نے اسکول بھی نہیں چھوڑے۔ کتنے سفاک ہیں یہ لوگ؟سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے بھی آخر کار اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیان دے ہی دیا اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھرکے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ فلسطین کا ساتھ دیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔
ماہ رمضان میں فلسطینی تن تنہا صیہونیوں اور نصرانیوں کا مقابلہ کرتے رہے کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچا جب کہ اسرائیل کو سپر طاقتوں امریکا اور برطانیہ کا ہر لحاظ سے تعاون اور مدد حاصل ہے، لیکن ہمارے یہاں بیان اور ریلیوں تک ہی امداد و تعاون محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
مسلمانوں کی تباہی اور دین اسلام کو مٹانے کے لیے یہودیوں کا بڑا ہاتھ ہے تباہ کن ایجادات سے دنیا کو دہلائے دے رہے ہیں، یہودی جینیاتی اور عسکری سائنس کی ترقی کے لیے دھن دولت دل کھول کر خرچ کر رہے ہیں، بے شک یہودی کسی کا دوست اور ہمدرد نہیں بن سکتا ہے، یہ وہی یہودی ہیں جن کے ظلم و ستم کے سبب حضرت عیسیٰ کو اللہ نے دنیا سے اٹھا لیا، ورنہ یہ قوم صلیب پر چڑھا چکی تھی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو جن لوگوں نے طرح طرح کی اذیتیں دیں اور ان کی جان لینے کی کوشش کی ان ہی کے ماننے والے یہودیوں کے ساتھ ملے ہوئے اور ان کے غلام بنے ہوئے ہیں، اگر آج بھی انھیں موقع میسر آجائے تو اپنے ہی پیغمبر کو یہودیوں کے ساتھ مل کر دوبارہ مصلوب کرنے کی کوشش کریں گے۔
تاکہ یہودیوں کے ذریعے انھیں مال و زر حاصل ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کی حفاظت فرمائی حضرت ابراہیم کو آگ سے محفوظ رکھا، حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے بحفاظت آزاد کیا، حضرت یوسف کو اپنے سوتیلے بھائیوں کے نہ کہ شر سے بچایا، بلکہ ان کے والد حضرت یعقوب سے بخیرو خوبی ملاقات کروائی، بے شک اللہ بڑی حکمت اور بڑی قدرت والا ہے۔
دنیا کے تمام کام اس کے حکم کے مطابق چل رہے ہیں، آج امت مسلمہ گمراہی میں مبتلا ہے، تعیشات زندگی ان کا نصب العین بن چکا ہے تو پھر حالات تو ابتر ہوں گے ہی، تباہی، بربادی مسلمانوں کی ہلاکت و شہادت کے حقائق ہر جگہ موجود ہیں، دنیا بھر کے مسلمان پریشان ہیں اپنے تحفظ کے لیے سرگرداں ہیں۔ مسلمان خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کفار و نصاریٰ کو ان کی لاپرواہی و کوتاہ عقلی سے فائدہ اٹھانا ہی تھا سو ایسا ہی ہوا۔
یہودیوں کا پوری دنیا کی مصنوعات، خصوصاً غذائی اشیا کو بنانے والی تمام بڑی بڑی کمپنیوں پر مکمل قبضہ ہے لیکن افسوس ہمارے مسلم حکمرانوں کو ان حالات کی ذرا پروا نہیں ان کی مصنوعات کی اشتہار بازی اور خرید و فروخت میں امرا و غربا پیش پیش ہیں فلسطین خون میں نہاگیا ہے لیکن آج بھی ہر ہوٹل، ریستوران، سپراسٹور، غرض ہر جگہ اسرائیل کی بنائی ہوئی چیزیں فروخت ہو رہی ہیں بے شعور اور بدعقل لوگ ایک طرف امریکا اور اسرائیل سے نفرت کر رہے ہیں تو دوسری طرف انھیں منافع بھی پہنچا رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں خصوصاً اپنے فلسطینی بھائیوں سے محبت و اتحاد کے نعرے بھی لگا رہے ہیں زبانی کلامی باتوں سے بھلا کیا فائدہ؟
دراصل یہودی لابی دنیا کی تاریخ کو بدل دینے کے جنون میں دیوانہ وار مبتلا ہے اس مقصد کے لیے اس نے بہت سی ایجادات کی ہیں ساتھ میں ذہن کو تابع کرنے والی ٹیکنالوجی ایجاد کرلی ہے جس کی مدد سے وہ انسانی ذہنوں کو تابع کرسکیں گے اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ یہ سب کام دجال کو لانے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور دجال دنیا میں تباہی لے کر آئے گا ۔اسرائیل کا منصوبہ انتہائی خطرناک ہے وہ نعوذ باللہ قدرت کے نظام میں خلل ڈالنے کے لیے بے شمار شیطانی منصوبے بنا چکا ہے اور اب ان کی تکمیل کا وقت ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ دجال کے آنے تک زمین کو تسخیر کرلیا جائے نعوذباللہ نظام قدرت پر ان کا ہی قبضہ ہو اور جینے کا حق اسے ہی دیا جائے گا جو دجال کو خدا مانے گا جو انکار کرے گا تو اس کے لیے جینا ناممکن ہوگا۔ دجال کے حوالے سے حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ ''مجھ سے میرے رب نے جو عہد لیا ہے وہ یہ ہے کہ دجال اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگا اور مجھے دیکھ کر اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح سیسہ پگھلتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردے گا۔'' یہودی اپنی جانوں کو بچانے کی فکر میں ہوں گے تو ہر شے بول اٹھے گی۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکارنے لگیں گے کہ اے مسلمان! میرے پیچھے ایک کافر ہے، آ اور تو اسے قتل کردے، یقینا اس وقت یہودیوں کے لیے کوئی پناہ نہ ہوگی وہ چھپتے پھریں گے لیکن جہاں بھی وہ جائے پناہ تلاش کریں گے وہ تمام چیزیں مثلاً پتھر، دیواریں، جانور، درخت کہیں گے کہ یہ میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، کہتے ہیں کہ ببول کا درخت یہودیوں کا درخت ہے وہ نہیں بولے گا، اسی لیے یہودی ببول کے درخت زیادہ اگاتے ہیں کہ وہی ان کی حفاظت گاہ ثابت ہوگی۔ لیکن یہ ان کی بھول ہے اللہ کے حکم سے یہودیوں کی موت لکھی جاچکی ہے وہ بچ نہ سکیں گے۔ حضرت مہدی کی آمد کا مقصد بھی اس دنیا سے برائیوں کا خاتمہ ہوگا اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمان سکھ کا سانس لیں گے، اور دین اسلام کا نقارہ خوب بجے گا۔