طاہر القادری اور عمران کے جانثار

توانائی کا سستا متبادل حاصل کرنے میں ابھی کئی دہائیاں درکار ہیں۔


Zamrad Naqvi August 10, 2014

اسرائیل امریکا کی 53ویں ریاست ہے یہ اور بات ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں واقع ہے۔ پچھلے کالم پر بہت سے قارئین کا ردعمل سامنے آیا جس میں انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اس نکتے کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔ امریکا اسرائیل کے حوالے سے کتنا حساس ہے اس کا اندازہ اگست کے شروع میں امریکی دفتر خارجہ کی نائب ترجمان کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسرائیل کی طرف سے وزیر خارجہ جان کیری کو حماس کا دوست قرار دیے جانے پر اسے جارحیت سے تعبیر کیا ہے۔

امریکی خاتون ترجمان نے جان کیری کے خلاف اسرائیل کے لغو الزامات کی بوچھاڑ پر کہا کہ اسرائیل میں ایسی آوازیں سنی گئی ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک جارحانہ اور لغو بات ہے۔ امریکی ترجمان نے مزید کہا کہ امریکا نے اسرائیل کو پوری طرح مدد اور حمایت دی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہماری اسرائیل کے لیے یہ حمایت اس وقت بھی جاری رہی جب ہم اس معاملے میں تنہا رہ گئے۔

ہمیں اس وقت بڑی حیرانگی ہوئی ہے جب ہم ایک طرف مغربی حکومتوں کے بلند و بانگ انسانی حقوق کے دعوؤں کو دیکھتے ہیں دوسری طرف غزہ کے فلسطینیوں پر مجرمانہ حملوں پر انھی حکومتوں کو اسرائیل کی طرف داری کرتے دیکھتے ہیں تو یقین نہیں آتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سرمایہ داری نظام کے تحفظ کے لیے فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے کیونکہ اگر اسرائیل کو شکست ہوتی ہے اور اس کا وجود خطرے میں پڑتا ہے تو سرمایہ داری نظام کے خاتمہ کو کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ اس نظام کی بقا مشرق وسطیٰ کے سستے تیل اور اس کی مسلسل فراہمی پر ہے کیونکہ توانائی کے جتنے بھی متبادل ذرایع ہیں وہ خاصے مہنگے ہیں۔

توانائی کا سستا متبادل حاصل کرنے میں ابھی کئی دہائیاں درکار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس نکتے کو بہت عرصہ پہلے پا لیا تھا چنانچہ انھوں نے عرب حکومتوں کو تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا مشورہ دیا جس کی سزا انھیں پھانسی کی صورت میں ملی۔ سرمایہ داری نظام کی بقا تیل اور دوسرے قدرتی وسائل کی سستے داموں حصول میں ہی ہے۔ اس لیے عام آدمی جب امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اسرائیل کی ناز برداری کرتے دیکھتا ہے تو اسے سمجھ میں نہیں آتا یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے۔ آخر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کونسی کمزوری اس کے پاس ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے اسرائیل کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کی جان اسرائیل نامی طوطے میں ہے۔ سستے داموں تیل ہی مغربی ملکوں کی خوش حالی کا باعث ہے اور اس خوش حالی کا سارا دارومدار اسرائیل پر ہے یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل کے حصول کے لیے اگر ایک طرف اسرائیل کا وجود عمل میں لایا گیا تو اسرائیل کی مدد اور حفاظت کے لیے عرب بادشاہتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

سرمایہ داری نظام پر آج سے کئی سال پہلے جو بحران آیا تھا جس میں بہت سے بینک اور انشورنس کمپنیاں دیوالیہ ہوکر بند ہو گئیں تھیں۔ آج بھی سرمایہ داری نظام اس بحران سے باہر نہیں نکل سکا اور اس بحران کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر عرب ملکوں نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ اب بہت سے مغربی معیشت دان یہ کہنے لگے ہیں کہ سرمایہ داری نظام اس بیماری سے اس وقت ہی روبصحت ہو سکتا ہے جب وہ سوشلسٹ معیشت کو اپنا لے۔

یہ سرمایہ داری نظام کو خطرہ ہی تھا جس کے پیش نظر برصغیر کو تقسیم کیا گیا۔ جو سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھا۔ اس کے لیے برصغیر کی پرامن نہیں خونی تقسیم بھی ضروری تھی تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان خون کی لکیر کھینچ دی جائے۔ پاکستان کو توڑنا بھی ضروری تھا۔ سوویت یونین کا خاتمہ بھی سرمایہ داری نظام کو بحران سے نجات نہ دلا سکا۔ وہ نظام جس میں چند ممالک اور گروہ پوری دنیا کی دولت پر قابض ہو کر اسے اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ اس لیے ہمارے پورے خطے کی تقسیم نو پھر سے ضروری ہو گئی ہے جس کے لیے عسکریت پسندوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جو عراق و شام میں مذہب کے نام پر قتل و غارت برپا کیے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ وہی عسکریت پسند ہیں جن کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ضیاء الحق تو امیر المومنین نہ بن سکے لیکن ان کی نظریاتی باقیات میں یہ سوچ زندہ ہے اور وہ اس کو پاکستانی اور افغان عسکریت پسندوں کے ذریعے شرمندہ تعبیر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ سیاسی و مذہبی باقیات ہی تھیں جنہوں نے طویل مدت تک شمالی وزیرستان آپریشن کو روکے رکھا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے پاک فوج کا جس نے شمالی وزیرستان آپریشن کر کے پاکستان کو عراق و شام بننے سے روک کر ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔

سرمایہ داری اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں بھارت میں سرمایہ دارانہ جمہوریت پچھلے تقریباً 70 سال سے قائم ہے لیکن اس جمہوریت کا ثمر یہ ہے کہ 60 سے 80 کروڑ بھارتی شہریوں کو ایک وقت کی روٹی ملنا بھی یقینی نہیں اور تازہ ترین بھارتی انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس میں کثیر تعداد میں جرائم پیشہ اور قاتل منتخب ہوکر آئے ہیں اور یہی سرمایہ دارانہ جمہوریت پاکستان میں بھی رائج ہے جس کے بارے میں پاکستانی عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں کہ مسلسل انتخابات (70 سال) کے بعد آخر کار پاکستان میں جنت وجود میں آ جائے گی لیکن اس خواب کی تعبیر تو صرف ''عوامی جمہوریت'' کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری ہوں یا عمران خان ان کے چاہنے والوں کا ذرا غور سے مشاہدہ کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی مایوسی کی انتہا دیکھیں کہ وہ نظام کی تبدیلی کے لیے جان ہتھیلی پر لیے پھر رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی بغاوت کا آغاز تو نہیں۔ سوچ کی یہ تبدیلی انقلاب نہیں تو اور کیا ہے۔ جب کہ ہمارا ایک طبقہ جو عالمی سامراجیت کا ہی ذیلی حصہ ہے۔ہمیں سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنانے کی تلقین کررہا ہے۔

نواز شریف حکومت اگست ستمبر سے ایک طویل آزمائشی دور میں داخل ہو جائے گی۔ حکمران حد درجہ محتاط رہیں۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں