عید آزادی منائیے مگر۔۔۔

خواتین اس تہوار کی اصل روح کو سمجھیں


Rizwan Tahir Mubeen August 11, 2014
خواتین اس تہوار کی اصل روح کو سمجھیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: تہواروں کی رُت صنف نازک کی شرکت کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ چاہے یہ تہوار مذہبی ہوں یا قومی۔۔۔ خواتین کی بھرپور شرکت اس میں چار چاند لگا دیتی ہے۔۔۔ تہوار کی مناسبت سے کھانے پینے کے خصوصی اہتمام، پہناوے اور میل ملاقات تک۔۔۔ سب کچھ خواتین کی شرکت سے دو چند ہو جاتا ہے۔

کچھ تہوار ایسے ہوتے ہیں، جن میں اس اہتمام سے زیادہ اس کے پس منظراورمقصد کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوم آزادی کا شمار بھی اسی قسم کے تہواروں میں ہوتا ہے، جو باقاعدہ دعوت فکر دیتے ہیں۔ خواتین عید اور بقر عید کی طرح اگرچے اس تہوار میں بھی رنگ بھرتی ہیں۔ اس دن گھروں کو جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے اور قومی پرچم آویزاں کیے جاتے ہیں۔ بہت سی خواتین اس دن کے پکوان اور پہناووں کے لیے بھی خصوصی اہتمام کرتی ہیں۔ بالخصوص جس گھر میں اسکول جانے والے بچے ہوں تو گویا اس دن کا لطف اور بھی بڑھ جاتا ہے، تاہم عمومی طور پر اس میں محض خوشی کا رنگ ہی غالب نظر آتا ہے اور تفکر کا پہلو زیادہ نمایاں نہیں ہوتا۔ اس تفکر کا پہلو پس منظر سے حال اور پھر مستقبل تک دراز ہے۔

اس دن کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ کس طرح اس دن مسلمانان ہند کے لیے ایک جداگانہ مملکت کا قیام عمل میں آیا۔۔۔ نصف صدی بیشتر برصغیر کے اس روایت پسند سماج کی خواتین نے بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔۔۔ عابدی بیگم (بی اماں) سے لے کر محترمہ فاطمہ جناح، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم رعنا لیاقت علی اور بیگم مولانا محمد علی جوہر،سمیت ان گنت گوشہ نشیں خواتین نے بھی اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا۔



ایک تحریک تھی، جو سیاسی محاذ پر لڑی جا رہی تھی، تو دوسری طرف سماجی محاذ تھا۔۔۔ رائے عامہ کی ہمواری سے لے کر قائداعظم اور مسلم لیگ کے پیغام کو گھر، گھر پہنچانے تک ان خواتین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ یہ بھرپور سیاسی جدوجہد آخر میں کٹھن تر ہوتی چلی گئی، لیکن اس کے باوجود خواتین نے استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

تحریک پاکستان کی ابتدا سے 14 اگست 1947ء کو اس کے قیام تک، ہر کٹھن مرحلے پر انہوں نے اپنی جانب سے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔۔۔ اپنی جدوجہد کا ثمر حاصل کرنے کے لیے وہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ اس مملکت کی طرف ہجرت پر کمر بستہ ہوئیں۔۔۔ اس نقل مکانی کے دوران خواتین کو کیا کیا امتحان درپیش نہ ہوئے۔۔۔ وہ خواتین جو ایک گلی سے دوسری گلی تک کا سفر بھی پردہ پڑی ہوئی ڈولیوں میں کیا کرتی تھیں، انہیں بے سروسامانی کی حالت میں اپنے گھروں سے نکلنا پڑا۔۔۔ آزمایش کے اس مرحلے پر بھی انہوں نے ثابت قدمی سے ان تمام صعوبتوں کو جھیلا اور سرخرو ہوئیں۔



کوئی بھی تحریک دراصل خواتین کی ہی شمولیت سے ہمہ جہت اور مکمل ہوتی ہے اور تحریک پاکستان میں اس ضرورت کی بخوبی تکمیل کی گئی۔۔۔ خواتین کی شمولیت کے بنا اس منزل کا حصول قطعی طور پر ممکن نہ تھا۔۔۔ مرد اگر باقاعدہ اس تحریک کا حصہ بنے ہوئے تھے، تو گھروں کا ماحول اور جوش و ولولہ انہی خواتین کی آگہی اور بلند عزم و حوصلے کی دلیل دے رہا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد ایک طرف نئی مملکت کے منہ زور مسائل تھے تو دوسری طرف بانیان پاکستان کی جلد رحلت، جس کے بعد ملک طوائف الملوکی کا شکار ہو کر دو لخت ہو گیا۔۔۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ عام خواتین بھی اپنی سیاسی فکر پختہ کریں اور تحریک پاکستان کے دوران شروع ہونے والا سیاسی شعور مزید پروان چڑھے، تاکہ کاروبار ریاست میں پورے سماج کی سیاسی شرکت ممکن ہو، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ قیام پاکستان کے بعد خواتین کا سیاسی کردار گھٹ گیا تھا، بلکہ انہوں نے تو سیاسی میدان میں پہلے کے مقابلے میں بہت تیزی سے اپنی کام یابی کے جھنڈے گاڑے۔۔۔ تحریک پاکستان کی صف اول کی خواتین نے بعد کی سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی دیگر خواتین نے بھی اپنے بیدار سیاسی شعور کا ثبوت دیا، لیکن عام خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کے سیاسی شعور میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا۔۔۔ جس کی وجہ سے سیاست پر ان کی کوئی رائے ہوتی ہی نہیں، اکثر خواتین انتخابات کے موقع پر بھی دیگر اہل خانہ کے فیصلے کے مطابق ہی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتی ہیں۔



خواتین سے اگر سیاسی معاملات پر بات کی بھی جائے، تو وہ سیاست کے منفی تاثر کے تحت سخت ناپسندیدگی کا اظہار کر کے پیچھے ہٹ جاتی ہیں، لیکن سیاسی معاملات سے آگاہی کا مقصد صرف حالات حاضرہ تک تو محدود نہیں۔۔۔ یہ تو براہ راست ماضی سے بھی جڑی ہے اور اس کی جڑیں اور گہری ہوتی ہوئی تاریخ میں پیوست ہیں۔ بات اگر یوم آزادی کی مناسبت سے کی جائے، تو ہمارے ملک کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اس لیے مرد حضرات کے ساتھ خواتین کو بھی اس دن کو مکمل تاریخی پس منظر کے ساتھ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔

بصورت دیگر اس دن کی حیثیت محض تہوار برائے تہوار کی ہی رہ جائے گی۔۔۔ سماج کی کوئی عورت چاہے وہ کسی شعبے سے وابستہ ہو یا گھریلو خاتون ہو، اسے بھی بالکل اسی طرح اس دن کے مقصد کو جاننے کی ضرورت ہے، جس طرح کسی مرد کو ہے، کیوں کہ یہ اس ملک کے قیام کا دن ہے۔۔۔ اس دن سے اس ریاست کی بنیاد جڑی ہے۔۔۔ اور بہ حیثیت ایک شہری کے سب پر اس کی اساس سے واقفیت لازم ہے۔ اگر یوم آزادی اس کے پس منظر کے ساتھ منایا جائے گا، تو یقیناً اس دن ہماری مسرت کو ایک ٹھوس بنیاد اور مقصدیت حاصل ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں