کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا
طاہر القادری کے اعلان نے البتہ پنجاب حکومت کو پریشان کر دیا۔۔۔
حکومت کو سلیوٹ ہے کہ اس نے اپنے دو دشمنوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ اتنے کنٹینرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ پنجاب کے شہریوں نے پورا ہفتہ ایک عذاب میں گزارا۔ ناکوں کی انتہا ہو گئی، اس کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری نے یوم شہدا پر ایک بڑا شو لگا لیا۔ انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو تین دن کے لیے بٹھا لیا۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ انقلاب سے نمٹنے کے بعد آزادی مارچ پر بھی آسانی سے قابو پالے گی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنا انقلاب مارچ بھی آزادی مارچ کے ساتھ یعنی 14اگست کو لے کر چلیں گے۔ وفاقی اور صوبائی وزراء ڈاکٹر طاہر القادری کو کنٹینر بابا کہا کرتے تھے اور جب اس کنٹینر بابا کے انقلاب مارچ کو روکنے کی حکمت عملی بنائی گئی تو پورے پنجاب کو کنٹینروں میں بند کر دیا گیا۔ موٹر سائیکل اور بسیں بند کر دی گئیں۔ سیکڑوں کارکن گرفتار ہوئے۔لوگ پٹرول کے لیے مارے مارے پھرتے رہے۔صورت حال میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوتی۔ کنٹینر موجود ہیں جب کہ پٹرول بھی نایاب۔ اس حکومت کا کمال ملاحظہ فرمائیں۔ رکاوٹیں ہٹاتی ہے تب ہلاکتیں ہوتی ہیں' رکاوٹیں لگاتی ہے پھر لوگ جان سے جاتے ہیں۔
طاہر القادری کی رہائش گاہ کے اطراف میں ''رکاوٹیں''کھڑی کرنے کا کیا فائدہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب جب جی چاہتا تھا کیمروں کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور گھنٹوں خطاب کر کے فاتحانہ انداز میں گھر کے اندر چلے جاتے تھے۔ اس کے بعد رانا مشہودپریس کانفرنس کرکے حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے رہے۔ افسوس میاں صاحب نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ دو بار ان کا اقتدار ختم ہوا۔ انھیں معاہدے کے تحت جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا تو میاں صاحب کو دس سالہ مدت سے پہلے وطن واپسی کا موقع مل گیا۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ اس حکومت کو پہلے چھ ماہ میں ہی تختہ مشق بنانا شروع کیا گیا۔ ابتدا سے ہی زرداری صاحب کا میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا۔ حکومت جانے کی تاریخیں تک دی گئیں مگر آصف زرداری ثابت قدم رہے۔ انھوں نے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمتی پالیسی اپناتے ہوئے اپنا پانچ سالہ دور اقتدار پورا کر لیا۔ میاں صاحب نے اقتدار میں آنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔
مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ مل گیا۔ پیپلز پارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار سنبھال لیا۔ عمران خان سے بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑا پیچھے کی طرف سفر کریں تو منظر نامہ یوں ہے کہ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا مسلم لیگ ن الیکشن جیت جائے گی لیکن اتنے بھاری مینڈیٹ کی توقع نہیں تھی۔ ٹرن آئوٹ بھی بھاری تھا جس کا کریڈٹ یقیناً ملکی سیاست میں آنے والی تیسری سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے۔
نتائج آگئے تو کپتان نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ الیکشن ٹربیونل میں بھی گئے مگر کیس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ حکومت نے وعدے بھی کیے مگر عملی اقدام کی طرف آنے سے گریزاں رہی۔ حکومت کو شاید یہ احساس دلا دیا گیا کہ اگر ان چار حلقوں میں کوئی گڑ بڑ پکڑی گئی تو کہیں سارا الیکشن ہی مشکوک نہ ہو جائے۔ حکومت بھاری مینڈیٹ کے زعم میں رہی۔ عمران خان سڑکوں پر آ گئے۔ طاہر القادری نے بھی وطن واپسی کا اعلان کر دیا۔
عمران کے احتجاج سے کوئی بڑی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔ طاہر القادری کے اعلان نے البتہ پنجاب حکومت کو پریشان کر دیا۔طاہر القادری کی رہائش گاہ کے ارد گرد رکاوٹیں ہٹانے کے لیے اچانک آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ گلو بٹ کی گاڑیاں توڑ پرفارمنس اور پولیس کی فائرنگ نے سارا نقشہ تبدیل کر دیا۔ منہاج القرآن کے 14 کارکن پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ قریب تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کی وجہ سے طاہر القادری وطن واپسی موخر کر دیتے کہ سانحہ ماڈل ٹائون نے انھیں آنے کا موقع فراہم کر دیا۔
میاں صاحب کی آخری حکومت 1999ء میں ختم ہوئی تھی۔ 2013ء میں انھوں نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو وہ یہ بھول گئے کہ اب الیکٹرانک میڈیا کے کیمرے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں گلو بٹ کی پرفارمنس کا کسی کو پتہ تک نہ چلتا۔ آج کیمرے کی آنکھ اس طرح کے واقعات پوری دنیا کو دکھا رہی ہے۔
حکومت نے پاکستان عوامی تحریک کے یوم شہدا کے احتجاج کو طاقت سے روکنے کی کوشش کر کے دیکھ لیا۔ سب انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہزاروں لوگ طاہر القادری کی اپیل پر جمع ہو گئے۔ پرسوں14 اگست ہے۔ آزادی مارچ کے ساتھ انقلاب مارچ بھی ہو گا۔ چوہدری برادران اور شیخ رشید اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ آزادی اور انقلاب مارچ کے اتحاد کا کریڈٹ البتہ حکومت کو جاتا ہے۔
حکومت بند گلی میں جا چکی ہے۔ واپسی کا راستہ نظر نہیں آ رہا۔ مذاکرات کا وقت مدت پہلے ختم ہو چکا۔ طاہر القادری چھوٹے بھائی کا استعفیٰ مانگتے ہیں اور عمران خان بڑے بھائی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی وزیروں کے بیانات میں اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ حالات پر قابو پا لیا جائے گا۔ میاں صاحب کی باڈی لینگوئج مختلف ہے۔ کائونٹ ڈائون شروع ہو چکا۔ حکومت صبح گئی یا شام گئی والی کیفیت میں ہے۔ ہماری دعا ہے جو بھی ہو' اس ملک کے حق میں بہتر ہو۔