قومی سلامتی کے تقاضے

کمیونٹی جمہوریت کا بنیادی عنصر ہوتی ہے لیکن اچھی گورننس کی تعمیر کے سلسلے میں اس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔...


اکرام سہگل August 14, 2014

پاکستانی اسٹیٹ (بشمول عسکری) کی قومی سلامتی جسے متذکرہ دونوں اداروں نے مل کر تشکیل دیا اس کے بارے میں عمومی تفہیم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کا قومی مفاد حقیقت میں کیا ہے۔ اس کی حدود و قیود کیا ہیں اور قومی مفاد کو سیاسی اقتصادی اور عسکری مفادات سے اس طرح علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کی تشکیل کے لیے لازم ہے کہ اس حوالے سے باخبر افراد تمام معلومات کا تجزیہ کریں اور ریاست کے اہم ادارے اس معاملے پر غور و خوض اور بحث مباحثہ کریں جب کہ پاکستان کے عوام کو بھی ایک لازمی جزو کے طور پر اس عمل میں شریک رکھا جائے۔ ان پر اعتماد کیا جائے اور ان کے مفادات کو بہر صورت مقدم رکھا جائے۔

کمیونٹی جمہوریت کا بنیادی عنصر ہوتی ہے لیکن اچھی گورننس کی تعمیر کے سلسلے میں اس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ سویلین حکومت کے سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی ہی ملک کے داخلی عدم استحکام پر منتج ہوتی ہے۔ مختلف اداروں کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سب سے اوپر اقربا پروری اور کرپشن ہے جن کو روکنے کے لیے بے لاگ احتساب ناگزیر ہے۔ اگرچہ جاگیرداری نظام دنیا بھر میں تقریباً معدوم کر دیا گیا ہے مگر پاکستان میں یہ اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔

جاگیرداری کا سب سے قریبی پہلو اقربا پروری ہے جو کہ عدم کارکردگی اور بری حکمرانی کی بنیادی وجہ بنتا ہے۔ اقربا پروری اور کرپشن جب مل جاتے ہیں تو یہ جمہوریت کے خلاف نہایت مہلک ہتھیار بن جاتا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز نہ صرف معاشرتی سطح پر بلکہ حکومتی سطح پر بھی اپنی منزل کھو بیٹھتے ہیں۔

قومی سیکیورٹی کی کارکردگی میں ایک روحانی پہلو بھی پایا جاتا ہے اور وہ ہے ملک کی آبادی میں قومی یکجہتی کا احساس اس قدر نمایاں ہونا چاہیے کہ تمام شہریوں کو مساویانہ شناخت اور مساویانہ سلوک سے ممیز کیا جائے۔ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک اور اونچ نیچ روا نہ رکھی جائے۔ جیسا کہ 1971 میں مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ کیا گیا چنانچہ ان کے لیے خلوص دل کے ساتھ خود کو ایک ہی قوم کا حصہ سمجھنا ممکن نہ رہا۔

اس سے اول اول سیاسی انتشار اور اس کے بعد سلامتی سے متعلقہ مسائل شروع ہو گئے۔ اس موقعے پر آبادی کے مختلف عناصر نہ صرف خود کو نسلی طور پر بلکہ ثقافتی، نظریاتی اور اعتقادی اعتبار سے بھی مختلف محسوس کرنے لگے۔ جب معاشرہ سماجی تنظیموں اور قبائلی برادریوں میں تقسیم ہو جائے اور کسی علاقے کے لوگ خود کو اقتصادی طور پر بھی غیر ترقی یافتہ محسوس کرنے لگیں تو قومی یکجہتی کے لیے بڑا چیلنج پیدا ہو جاتا ہے۔

ترکی میں گزشتہ اتوار کو طیب اردگان کا انتخاب ملک کا اولین صدارتی انتخاب تھا جو براہ راست ووٹ کے ذریعے عمل میں آیا اور جس میں اردگان نے 51.8 فیصد ووٹ لے کر مکمل اکثریت حاصل کی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انھوں نے اور ان کی پارٹی نے 12 سال تک بطور وزیر اعظم بے حد اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا حالانکہ وہ معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار تھا۔ اس حوالے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان میں اول تو یہ ہے کہ نہ صرف سربراہ بلکہ ملک کے دیگر اہم مناصب کے لیے براہ راست انتخاب کا طریقہ استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ محض چند افراد کے ووٹوں سے انھیں منتخب کیا جائے جس میں کہ باآسانی رد و بدل کیا جا سکتا ہو۔

دوئم پچاس فیصد سے زیادہ ووٹوں کی مکمل اکثریت حاصل کرنا لازمی ہونی چاہیے۔ اردگان کے معاملے میں پہلے ہی رائونڈ میں انھوں نے واضح اکثریت حاصل کر لی جس کے نتیجے میں رن آف الیکشن کا موقع ہی نہیں آیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نسلی، فرقہ وارنہ اور قبائلی اختلافات نمایاں ہیں یہاں پر متناسب نمایندگی ناگزیر ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مساوی مواقعے میسر آ سکیں اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی آواز سنی جا سکے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کم از کم 25 فیصد نشستیں ہارنے والے امیدواروں کے لیے مخصوص ہونی چاہئیں تا کہ وہ بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ سینیٹ کا انتخاب بھی براہ راست ووٹنگ سے کیا جانا چاہیے کیونکہ بلواسطہ انتخاب میں ہیرا پھیری کے خاصے امکانات ہوتے ہیں، ملک میں ایک فول پروف انتخابی نظام وضح کیا جانا چاہیے تا کہ فراڈ اور دھاندلی کا کوئی امکان نہ ہو سکے۔ اگر انتخابی عمل کے تقدس کو ملحوظ رکھا جاتا تو آج ہم کسی لانگ مارچ کے خطرے سے دو چار نہ ہوتے۔

ہم آج کس قسم کی جمہوریت پر عمل کر رہے ہیں جب کہ ووٹ دینے والوں کو گراس روٹ کی سطح پر خود پر حکمرانی کا کوئی احساس ہی نہیں لوکل باڈیز کے انتخابات کے بغیر جن کو عام انتخابات سے پہلے براہ راست ووٹ کے ذریعے منعقد کرایا جانا چاہیے اس کے بعد صوبائی اسمبلیوں' قومی اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات بھی ڈائریکٹ ووٹ سے ہونے چاہئیں تب ہی جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں گے۔ علاوہ ازیں بڑی اسمبلیوں اور سینیٹ کے لیے منتخب ہونے والے تمام امیدوار لوکل باڈی کی سطح پر منتخب ہونے کے قابل ضرور ہونے چاہئیں۔

متوقع اسمبلی امیدواروں کے احتساب کا انتظام لازمی طور پر کیا جائے۔ انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے امیدواروں پر لازم ہو کہ وہ اپنے اثاثوں کا صاف صاف اعلان کریں اور انکم ٹیکس کی ادائیگی کی دستاویزات بھی لازمی طور پر جمع کروائیں جن کی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظور کردہ دو آڈٹ فرمیں تصدیق کریں۔ اگر ان پیش کردہ معلومات میں کوئی تفاوت ہو تو اس سے امیدوار خود بخود نااہل قرار پا جائے۔

دروغ حلفی یا جان بوجھ کر غلط معلومات داخل کرانے والوں کے مواخذے کے بغیر کوئی احتساب مکمل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہم عادی جھوٹ بولنے والوں یا دھوکا دہی کرنے والوں کو اپنے حقیقی رہنمائوں کے طور پر قبول کرسکتے ہیں؟ بعینہ جو شخص بیلٹ بکس میں ہیر پھیر کرنے کا مرتکب ہو اسے اور اس کے فیملی ممبرز کو از خود انتخاب کے لیے نااہل قرار دے دیا جانا چاہیے۔

اس موقعے پر یہ بات بھی ضروری ہے کہ مسلح افواج اور عدلیہ کے ادارے ان وجوہات کا تجزیہ کریں کہ جس کی وجہ سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انھیں اصلاح احوال پر اولین توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے سیاستدان (اور کچھ فوجی لیڈرز) اپنے ذاتی مفادات کو قومی امور پر مقدم کر لیتے ہیں وہ اختیارات کا بے محابہ استعمال کرتے ہیں اور قومی سلامتی کے بارے میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہیں جب کہ عوام کے جائز مفادات اور قانونی استحقاق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ قومی سلامتی کے مقاصد اس وقت تک پورے نہیں ہو سکتے جب تک اچھی حکمرانی کو نافذ نہ کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں