میڈیا واچ ڈاگ آج کے الف نون اور کنٹینرز

ہمیں اپنے حکمرانوں کو خوابوں کی دنیا سے نکالنا ہوگا کہ معاشروں میں سو فیصد نہ تو شر ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی خیر.


شہباز علی خان August 15, 2014
ہمیں اپنے حکمرانوں کو خوابوں کی دنیا سے نکالنا ہوگا کیوں کہ معاشروں میں 100 فیصد نہ تو شر ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی خیر. فوٹو اے ایف پی

انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ دو چیزیں لے کر آتا ہے،خیر اور شر، پھر اس کے بعد اس کی ساری زندگی انہی عناصرمیں رہتے اور انہی سے لڑتے جھگڑتے گزر جاتی ہے۔یہ دونوں عناصر ایک دوسرے کے بالکل ساتھ ساتھ چلتے ہیں،جہاں خیر ہوگی وہاں شر بھی ہوگا۔ 1965 میں ہمارے ایک قومی چینل پر ایک ایسی ہی سیریز کاآغاز ہوا جس میں اس وقت کے معاشرتی اتار چڑھاؤ کی عکاسی کامیڈی کے انداز میں کی گئی۔اس سیریز کا نام اس دور کے ناموں سے بہت منفرد تھا۔ " الف نون" آج بھی ہم اگر اس کی اقساط کو دیکھیں تو یہ آج کے دور کا احاطہ کرتی دکھائی دیں گی۔

اس ڈرامے کا نام اس کے دو مرکزی کرداروں کے نام کے پہلے حروف پر تھا۔ " الن" اور " ننھا" ۔ کمال احمد رضوی اور رفیع خاور دونوں کرداروں نے اس وقت جب سنگل کیمرے کا رواج تھا بہت شاندار کام کیا۔یہ سیریز مختلف ادوار میں آن ائیر ہوتی رہی۔مگر اس کی تمام اقساط اپنے مرکزی خیال کے ارد گرد مضبوطی سے گھومتی رہیں۔کمال احمد رضوی نے اسے لکھا اور خود اس میں "الن" کا کردار جہاں بہت خوبصورتی سے ادا کیا وہیں اس کے ڈائیلاگز میں ایسے الفاظ کا چناؤ کیا کہ جب وہ ادا ہوئے توانہوں نے دیکھنے والے کو اس طرح اپنے اندر سمو لیا، ناظرین خود کو اس سیریز کا کردار سمجھنے لگے جیسے یہ کوئی عام کمرشل ،تفریحی ڈرامہ نہیں ہے ۔

الن کا کردار انسانی خصلت کے سیاہ رنگ کو پیش کرتا،ایک خواہشات کا غلام ایک ایسا شخص جو لالچ کا شکار ہے،وہ ہر آنے کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتا کہ اسے وہ اس طرح بے وقوف بنا کر مالی مفاد حاصل کر سکتا ہے۔دوسرا کردار ننھے کا تھا جو کہ سادگی اور سچائی کے معصوم رنگوں کو اپنے اندر پروئے ہوئے ہے،وہ دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں مگر پھر بھی ایک دوسرے کی خصلت کو بدلنے سے قاصر ہیں۔

ہم اگر جولائی 1977 تک کا دور اٹھا کر دیکھیں اس میں میڈیا کی کوئی بھی شاخ ہو،ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ان میں کام کرنے والے فنکار، صحافی، لکھاری ان میں آپ کو ایک چیز مشترک محسوس ہوگی اور وہ تھی ان کی سادگی ان کا سچاپن ان کا اپنے پروفیشن کے ساتھ مخلص ہونا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سنہری دور تھا جو کہ ملاوٹ کے تمام اجزاء کے موجود ہوتے ہوئے ملاوٹ اور منافقت سے پاک تھا۔معاشرے میں جرائم اس وقت بھی تھے،مگر ان میں اخلاقی جرائم کی اتنی شدت نہیں تھی جتنی ہمیںآج کے جدید دور میں بھرمار دکھائی دیتی ہے۔وہ تانگوں کا دور تھا،رات کے سناٹے میں جب گھوڑوں کے ٹاپیں سنائی دیتی تودل میں خوشی کا احساس دلاتی کہ ضرور ٹرین سے کوئی مہمان کی آمد آمد ہے۔عید ہو یا کوئی بھی تہواراسے سب مل کر مناتے تھے، فرقے اس وقت بھی تھے مگر خلفاء راشدین کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی تھی۔ جہاد کی طرف پہلا قدم اپنے نفس کی جنگ سے ہوتا تھا نہ کہ ریاست کے ہی خلاف۔

آخر پھر ایسا کیا ہوا؟

فنکار بدل گئے۔قلمقار بھی وہ نہ رہے۔ہمارے ڈراموں میں سماجی مسائل کی جگہ نفسیاتی الجھنوں نے لے لی،محبت جیسے پاکیزہ جذبے کو اور طرح سے پیش کر دیا گیا۔ایک بے ہنگم تکون کرداروں پر ناظرین کو الجھا کر رکھ دیا،وہ گھرانے جو ٹیلی ویژن کے سامنے ایک معیاری تفریح اور سکون کی غرض سے بیٹھتے تھے اب ان کے اندر عجیب سی خواہشوں نے ابھرنا شروع کر دیا۔محنت سے کامیابی حاصل کرنے کا تصور ختم ہو گیا۔

اس ایک " انقلاب " 1977 نے معاشرہ ہی بدل دیا، اور پھر ایک ایسا تسلسل شروع ہوا کہ اب معاشرے میں چار سال کی بچی کھیلنے نکلتی ہے تو اس کا لاشہ ملتا ہے، ایک بچہ دینی تعلیم کے لئے بھیجا جاتا ہے تو اس کے چیتھڑے خود کش جیکٹ سے چپکے ہوئے ملتے ہیں۔سسٹم میں رخنہ پڑا تو ہر طرف بے سکونی کے کانٹے ہماری زندگیوں میں بڑھتے ہی گئے،قانون کی آنکھوں پر پٹی تو پہلے ہی تھی اس کے ہاتھ بھی اس کی پشت پر لگا دئیے گئے۔جیلیں بھرتی گئیں۔صنعت اجڑتی گئی۔سرمایہ باہر محفوظ تصور ہونے لگا۔یہاں صرف غربت ہی بچی یا بیماریاں۔

ہمیں خود کو اور اپنے حکمرانوں کو بھی خوابوں کی دنیا سے نکالنا ہوگا کہ معاشروں میں سو فیصد نہ تو شر ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی خیر۔ وہ ہمیں یوں بھگا بھگا کر نہ ماریں۔ ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں زندہ رہنے دیں۔ یہ اشرافیہ اقتدار میں ہوں تب بھی کنٹینر ہی ہمارا راستہ روکتے ہیں انہیں نکال باہر کریں تو بھی کنٹینرز ہمیں پیس رہے ہوتے ہیں، یہ سب مل کر ہمیں ایک بار کسی بڑے سے کنٹینر میں ڈال کر سمند ر میں کیوں نہیں پھینک دیتے؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔