نجکاری معاشی استحصال
آج سے 128برس قبل یکم مئی 1886 کو شکاگو کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کی جد وجہد کے لیے اپنے۔۔۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ 21 ویں صدی کی دنیا میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ آج کی دنیا میں زمینوں اور ملکوں پر قبضے کے مقابلے میں وہاں کی کاروباری منڈیوں ، وسائل اور معیشت پر قبضے کے لیے جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ افغانستان، عراق پر حملہ اس سلسلے کی کڑی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (W.T.O) کا قیام عالمی استحصالی قوتوں کا ایسا ہی ایک منصوبہ ہے جس کے ذریعے ہمارے جیسے ملکوں کی معیشت اور وسائل پر حاوی ہوتا ہے۔
اس پر مستزاد ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ''کرشمہ سازیاں'' ایک اور تازیانے کے مترادف ہے، ڈبلیو ٹی او کے حوالے سے دنیا میں فری مارکیٹ اکانومی کی بات کی جاتی ہے اور عالم گیریت کے نام پر بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ انھیں یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ غلامانہ دور کا نظام رائج کریں، ٹھیکیداری کے ظالمانہ طریقہ کار کے مطابق ارزاں اجرتوں پر ملازمین رکھیں، ان کے حقوق کو پامال کریں اور وسائل و معیشت پر قبضہ کریں۔ ڈبلیو ٹی او کے تحت ہمارے ملک میں محنت کشوں اور مزدور تنظیموں کے لیے بے شمار مسائل پیدا کیے گئے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مزدوروں کے استحصالی قوانین کو ختم کیا جائے اور منصفانہ لیبر پالیسی بناکر قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے تاکہ مزدوروں کو ان کی محنت کا حقیقی ثمر مل سکے۔
آج سے 128برس قبل یکم مئی 1886 کو شکاگو کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کی جد وجہد کے لیے اپنے لہو کے نذرانے دیے تھے اور آیندہ کی جدوجہد کے لیے ایک سمت کا تعین کردیا تھا مگر آج جب کہ پوری دنیا میں صنعتی ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے اور گلوبلائزیشن و ڈبلیو ٹی او کا دور دورہ ہے تو مزدوروں کے حالات مزید دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں، سرمایہ دار طبقہ مزدوروں کا استحصال کر رہا ہے، پاکستان کے مزدوروں پر بھی استحصالی طبقہ حاوی نظر آتا ہے، حالانکہ آئین میں مزدوروں کو انجمن سازی کا حق دیا گیا ہے۔
پی پی پی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے مزدوروں و محنت کشوں، کسانوں اور مزارعوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی انھیں اپنے حق کے لیے لڑنے کا شعور دیا، مزدور تنظیموں کا حوصلہ بلند کیا اور مزدور طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیاں متعارف کرائیں، ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ (EOBI) جیسا مزدور دوست ادارہ قائم کیا جہاں سے آج بھی مزدور طبقہ فیض یاب ہو رہا ہے جب کہ موجودہ حکومت مزدوروں کے معاشی قتل عام کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس کے سر پہ نج کاری کا بھوت سوار ہے۔ ہر حکومت کی پہلی ترجیح عوام کو باعزت روزگار، تعلیم و طبی سہولتیں اور سر چھپانے کے لیے سستی رہائش فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن حکومت آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنے ہی عوام کو مشکلات سے دو چار کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ وہ نج کاری کی تلوار سے مزدوروں کے روزگار کو ٹکڑے کرنے کی خواہاں ہے جب کہ پیپلزپارٹی اس کے ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پی پی پی کی مزدور دوستی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل اور سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربانی اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان و کہنہ مشق سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے گزشتہ ہفتے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور نج کاری کے ضمن میں مزدور طبقے کے امکانی استحصال پر کھل کر اظہار کرتے ہوئے حکومتی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ حکومت نج کاری کے ذریعے لوگوں کو بے روزگار کرکے قومی ادارے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے داموں فروخت کردے گی۔ نج کاری پالیسی در حقیقت آئی ایم ایف اور بین الاقوامی سامراج کی شرائط کو پورا کرنے کا ایجنڈا ہے تاہم مزدور یقین رکھیں کہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے پیپلزپارٹی پارلیمنٹ سے سڑکوں تک ان کے ساتھ ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر رضا ربانی نے بتایا کہ انھوں نے چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو خطوط روانہ کردیے ہیں جن کے متن کا تعلق حکومت کی نج کاری پالیسی ہے۔ خط میں وزرائے اعلیٰ سے کہا گیا ہے کہ ''آپ کو اپنی ذمے داریوں سے آگاہ کرنا میرے فرائض میں شامل نہیں ہے آپ کو اپنے حقوق کا بخوبی علم ہوگا۔ حکومت کی نج کاری پالیسی آئی ایم ایف اور سامراج کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے سامنے آئی ہے۔ حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک ادارہ جو منافع بخش ادارہ ہے اس کے محدود شیئر کی نج کاری کی جائے گی اور پی آئی اے کی دسمبر تک نج کاری کی جائے گی۔
حکومت نے نج کاری کے لیے جن اداروں کی فہرست جاری کی ہے ان اداروں کا تعلق آئل و گیس کے شعبے سے ہے اور یہ صوبائی معاملہ ہے صوبوں کے ملکیتی اداروں کی نج کاری مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر کرنا غیر آئینی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کیس میں سپریم کورٹ نے کہاکہ دوبارہ سی سی آئی سے منظوری لی جائے۔ اگرچہ حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی ہے مگر صوبوں کے پاس آئینی و قانونی اختیار ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں سے منظوری لے کر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی صوبہ کسی بات پر ناخوش ہے تو وہ سی سی آئی کی کلاز 7 کے تحت یہ معاملہ پارلیمان میں پیش کرواسکتا ہے۔
تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست ہے کہ ان معاملات پر صوبائی اسمبلیوں میں بحث کروائیں اور اس قسم کی نج کاری کے خلاف صوبائی اسمبلیوں سے قرارداد منظور کروائیں۔
مذکورہ پریس کانفرنس میں رضا ربانی اور فرحت اﷲ بابر نے نج کاری کمیشن کے چیئرمین کے اس بیان کی شدید مذمت کی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم قومی ایئر لائنز سے آٹھ ہزار ملازمین فارغ کریں گے۔ حکومت نے یہ وضاحت نہیں کی کہ پی آئی اے کے 28 فی صد حصص کی نج کاری ہوگی یا 51 شیئرز کی۔
دونوں معزز سینیٹرز نے مزدوروں کو یقین دلایا کہ ہم سڑکوں پر اور پارلیمنٹ میں مزدوروں کا معاملہ اٹھائیں گے۔ حساس اور اسٹریٹجک اداروں کی نج کاری نہیں ہونی چاہیے۔ پی پی پی نے کے ای ایس سی کی نج کاری کی بھی مخالفت کی تھی اس کے نتائج دیکھ لیے۔ پاکستان کے مزدور خاطر جمع رکھیں۔ پیپلزپارٹی ان کے حقوق کے تحفظ اور نج کاری کے ذریعے ان کے معاشی استحصال کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے گی۔