مہنگائی اور موجودہ سیاسی بحران
ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں۔
پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے جلوس اسلام آباد پہنچنے پر سیاسی بحران اپنی انتہا پر پہنچ گیا ہے۔ یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ تمام تر حکومتی پروپیگنڈے کے باوجود جلوس کے شرکاء پر امن رہے۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کے جلوس پر پتھراؤ کیا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ حکومت نے بھی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے حالات پر قابو پا لیا۔
دونوں فریق یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالات کا معمولی سا بگاڑ سب کچھ ختم کر سکتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ خاص طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں کو جاتا ہے جب ان کو ماڈل ٹاؤن میں قید کر کے کھانا اور پانی بند کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود آفرین ہے کہ ان لوگوں نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ بھوک پیاس گرمی ہر طرح کی سختی کو صبر و ہمت سے برداشت کرتے رہے۔ اس تمام تر آزمائش کا پاکستان عوامی تحریک کی خواتین نے جس طرح خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا وہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے۔
اب یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ان خواتین ورکرز کا مقابلہ شاید ہی کوئی دوسری جماعت کر سکے۔ یہ خواتین نہ صرف منظم تھیں بلکہ ان کا سیاسی شعور بھی بلند تھا۔ یہ ان خواتین کی طرح نہیں تھی جنھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر جلسہ گاہ لایا جاتا ہے۔ لیکن یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ یہ خواتین و مرد جب بھوک پیاس برداشت کر رہے تھے توکسی بھی حکومتی ادارے نے ان کی مدد نہیں کی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ پاکستانی شہری نہیں کسی دشمن ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔
حالانکہ جنیوا کنونشن کے تحت دشمن قیدی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ جب کہ ہم تو مسلمان ہیں، ہماری ذمے داریاں تو اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ حالات اتنے بدترین تھے کہ پاکستان عوامی تحریک کا ایک عہدیدار انتقال کر گیا، کنٹینر ناکہ بندی کی وجہ سے اسے بروقت اسپتال نہ پہنچایا جا سکا۔ عوامی تحریک ہو یا تحریک انصاف دونوں کے کارکنوں نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی پر امن رہے جب کہ ان دونوں جماعتوں کے خلاف دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا رہا لیکن عوام نے خود دیکھا ہے کہ حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا کس نے ارتکاب کیا ہے۔
یہ 2013ء کا ڈاکٹر طاہر القادری کا انتہائی پر امن لانگ مارچ ہی تھا جس میں لاہور سے لے کر اسلام آباد تک ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا اور پنجاب حکومت نے بھی اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی کیونکہ مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی تھی کہ زرداری حکومت کا جلد از جلد دھڑن تختہ ہوجائے۔ پچھلے لانگ مارچ میں ڈاکٹر طاہر القادری پر ان کے مخالفین نے شدید تنقید کی کہ وہ خود تو کنٹینر میں آرام فرماتے رہے اور ان کے کارکن دسمبر کی سخت سردی میں کھلے آسمان تلے سکڑتے رہے۔
ان ناقدین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ان کے کارکنوں نے بھی اپنے قائد کی اس بات کا برا منایا ہے۔ جب کسی ایک کارکن نے بھی اس بات کا برا نہیں منایا بلکہ وہ اسے اپنے قائد کی صحت و سلامتی کے لیے انتہائی ضروری سمجھتے تھے تو پھر آپ کون ہوتے ہیں تنقید کرنے والے۔ کیا یہ کارکن پسٹل پوائنٹ پر یا سرکاری خرچے پر لائے گئے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو انھیں جلسہ گاہ چھوڑنے سے کون روک سکتا تھا۔ ہر جماعت کے کارکنوں کے لیے اپنے لیڈر و قائد کی صحت و سلامتی سب سے مقدم ہوتی ہے کیونکہ اگر لیڈر کو کچھ ہو جائے تو جماعتی تحریک کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
اب حالیہ لانگ مارچ کو دیکھیں کہ یہ سخت ترین گرمی جس میں چالیس گھنٹے کے سفر نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی طبیعت ناساز کر دی تو عمران خان آرام کرنے اپنی رہائش گاہ چلے گئے تو اعتراض کس بات کا یا مخالفین اس بات کے منتظر تھے کہ ان دونوں کی صحت کو ایسا نقصان پہنچ جاتا کہ دونوں اسپتال پہنچ جاتے اور دھرنے سے حکومت کی جان چھوٹ جاتی۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں۔ وہ دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں سے ہیں۔ انھیں انگریزی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے مقرر ہیں جو کئی گھنٹوں بلا تکان تقریر کر سکتے ہیں۔ مجمعے پر جادو کر دیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسلام پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالم اسلام میں ان سے بڑا اسکالر شاید ہی کوئی اور ہو۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت کے چاہنے والے خوفزدہ ہیں کہ کہیں اس ڈریکولا جمہوریت کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ خاطر جمع رکھیں یہ پیٹ بھروں کا مسئلہ ہے۔۔۔ دس کروڑ بھوکوں کا نہیں جو رات کو بھوکے سوتے ہیں، پاؤں سے ننگے، تن پر کپڑے نہیں، بھوک نے انھیں جانوروں کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ دونوں ہی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب ٹیلیفون پر رابطے میں ایک کثیر تعداد آج بھی پرویز مشرف کی حامی نظر آتی ہے۔
پوچھنے پر وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس دور میں مہنگائی کم، دو وقت کی روٹی میسر اور چار پیسے بچ جاتے تھے۔ یہ سب لوگ غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پاکستان میں اکثریت ہے اور یہ سب وہ لوگ ہیں جو بڑی شدت سے تبدیلی کے منتظر ہیں۔ ان کا تعلق چاروں صوبوں سے ہے۔یہ لوگ فوج پر یہ تنقید بھی برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ پڑھتے ہوئے اپنے ذہن میں رکھیں کہ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ لوگوں کے یہ وہ جذبات ہیں جو ٹیلیفون کے ذریعے مجھ تک پہنچتے ہیں، مہنگائی اور مہنگی بجلی نے عوام کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی مہنگی بجلی کبھی نہ تھی۔ اس صورت حال میں اگر غیر جمہوری تبدیلی آ جائے تو لوگ مٹھائی نہ بانٹیں تو کیا کریں؟ یوٹیلیٹی بلز نصف ہو جائیں گے۔ عوام ڈاکٹر طاہر القادری کی اس نوید پر کان نہ دھریں تو کیا کریں۔
۔۔۔موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے اہم تاریخیں 19-18 اور 22-21 اگست ہیں۔
سیل فون:۔0346-4527997