اردو ادب کے اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی
برصغیر پاک و ہند کی کوئی بھی ایسی ادبی، علمی شخصیت اور شاعر ایسا نہیں ہے جس کے اُستاد اختر انصاری اکبر۔۔۔۔
KARACHI:
اندرونِ سندھ میں اردو ادب اور شاعری کے لیے جتنی خدمات اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کی ہیں۔۔۔ شاید اُس کی کوئی دیگر مثال نہیں مل سکتی۔ اُنہوں نے ادبی جریدے ''نئی قدریں'' کا اہتمام کیا اور اپنی عمرکے آخری حصے تک وہ نئی قدریں شایع کرتے رہے۔ اُن کے کئی مجموعہ کلام بھی چھپ چکے ہیں۔ اُن کے تنقیدی مضامین بھی شایع ہوچکے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی کوئی بھی ایسی ادبی، علمی شخصیت اور شاعر ایسا نہیں ہے جس کے اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی سے تعلقات اور خط و کتابت نہیں تھی۔ اختر انصاری اکبر آبادی مخصوص مزاج اور رویے کے ادیب وشاعر تھے۔ اُن کے چاہنے والے بھی بے شمار تھے اور حریفوں کی بھی قطار لگی رہتی تھی۔ لیکن سب ہی تسلیم کرتے ہیںکہ اخترانصاری اکبر آبادی ایک ایسے ستون تھے جسے اُن کا کوئی حریف گرا نہیں سکا تھا، بدترین معاشی مشکلات، ہوٹلوں میں سکونت کی ہجرت اور مسائل کے باوجود اختر انصاری اکبر آبادی نے اردو ادب اور شاعری کے چراغ کو حیدر آباد میں بجھنے نہیں دیا اور وہ یکسوئی کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق بھی اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کی ادبی خدمات کا اعتراف کرچکے ہیں۔ بعض ادبی حلقے تو بجا طور پر اختر انصاری اکبر آبادی کو'' اندرونِ سندھ کا بابائے اردو'' قرار دے چکے ہیں۔ سابق سینیٹر اشتیاق اظہر سے بھی اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کے گہرے مراسم تھے۔ اشتیاق اظہر شاعر اور ادیب تھے اور حسرت موہانی مرحوم پر اُن کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں، اشتیاق اظہر مرحوم کی کتاب ''قائد اعظم اور صحافت'' ایک اہم تحقیق ہے۔
اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کے پاس نایاب کتابوں کا بھی ذخیرہ تھا، اُن کے ذاتی کاغذات ادب کے حوالے سے اہمیت رکھتے تھے وہ گاڑی کھاتے میں عموماً سوٹ پہن کر شام کو پان کی دکان پر مخصوص انداز میں سگریٹ پیا کرتے تھے، فقط علم و ادب سے تعلق رکھنے والے حلقہ احباب سے اُن کے رابطے تھے۔ وہ اپنی شخصیت کے بارے میں بہت حساس تھے، اسی لیے تعلقات رکھنے میں بہت محتاط تھے اور اُن کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ غیر ضروری گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔
وہ مردم شناس تھے اور حیدر آباد کی تمام اہم شخصیات سے اُن کے قریبی تعلقات تھے۔ ممتاز شاعر نوح ناروی مرحوم نے اُن کے بارے میں لکھا ہے کہ اختر انصاری اکبر آبادی کی مجھ سے ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن میں نے اُن کی نظموں کا مجموعہ اور اُن کے لکھے ہوئے افسانے دیکھنے کی طرح دیکھے ہیں۔ اگرچہ افسانوں سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں، تاہم نظموں کو دیکھتے ہوئے میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ایک ہونہار شاعر ہیں اور بالخصوص خمسہ لکھنے میں اُنہیں کمال حاصل ہے۔
ممتاز ادیب و شاعر شان الحق حقی کی رائے تھی کہ اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم عموماً چُست، برجستہ اور بیساختہ مصرعے لگاتے ہیں اور واقعی اصل شعر کو اپنی مرصع سازی سے چمکا دیتے ہیں۔ ممتاز شاعر جوش ملیسانی نے اعتراف کیا تھا کہ اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم ملک کے خوش گو شعراء میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ اردو ادب کی اہم شخصیت حکیم یوسف حسن مرحوم مدیر ''نیرنگ خیال'' مرحوم نے صنف خمسہ کے حوالے سے اُنہیں قادر الکلام شاعر قرار دیا تھا۔
روزنامہ ''ڈان'' میں اہم عہدے پر فائز فضل احمد صدیقی نے استاد اختر انصاری اکبر آبادی کی علمی اور ادبی خود اعتمادی کا اعتراف کیا تھا۔ اپنے مجموعہ کلام جام نو میں علامہ اقبال کی غزل کی تظمین میں اُن کے درجہ ذیل اشعار حوالے کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
اختر جو آئے واعظ دیں بزم ناز میں
واعظ جو ہو غلامی عشوۂ طراز میں
واعظ پیے جو انجمن دل نواز میں
واعظ ثبوت لائے جومئے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کی نظمیں اختر شیروانی مرحوم کی طرح شباب و شعر، کیف و رنگ کی آئینہ دار ہیں۔ اُن کی نظموں میں رومان کے ساتھ ساتھ پیام بھی ہے، اُن کی نظموں کا مجموعہ ''کیف و رنگ'' اُن کے بے نظیر اشعار کا مظہر ہے۔ اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی 17 اگست 1984ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
استاد اختر انصاری کا آخری وقت تک ساتھ صابر وسیم ، اقبال سہوانی اور رشید جمال نے نبھایا۔اُن کی ادبی تحریک نئی قدریں کو اقبال سہوانی آج تک زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سندھی اُردو ادبی روابط اور لسانی رابطوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، جو کہ استاد اکبر آبادی کا مشن تھا۔ اختر انصاری کا اُدھورا ادبی کام بھی طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم پر پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق ہوتی اور اُن کی علمی، ادبی خدمات کو تسلیم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا، اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ادارہ کوئی تنظیم ذمے داری سنبھالے اور اختر انصاری اکبر آبادی کے حوالے سے کتاب شایع کرے تاکہ اردو ادب اور شاعری کے لیے استاد اختر انصاری اکبر آبادی کی خدمات اور حیدر آباد سے اُن کے تعلق کو محفوظ کیا جاسکے۔اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کے انتقال کے بعد اُنہیں یکسر بھلادیا گیا۔ اُن کی برسی بھی چپ چاپ گزر جاتی ہے۔