پاکستان ایک ںظر میں تم کراچی بدل سکتے ہو

کراچی کو بدلنے اور انتشار و اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ہمیں متحد ویکجاہونا پڑے گا۔


محمد نعیم August 19, 2014
کراچی وہ واحد شہر ہے ہرزبان، مذہب ،نسل اور علاقے کے لوگ آپ کو نظر آئیں گے اور یہ وہ شہر ہے جس نے روزگار کے لیے کبھی بھی کسی کے لیے دروازے بند نہیں کیے۔ فوٹو: رائٹرز

2004 وہ سال تھا جب میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے کراچی کا رُخ کیا۔2010کے اختتام تک میں ایم۔اے تک اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ یہاں گزرے 6سالوں میں کراچی کی آب و ہوا اور طرزِ زندگی نے ایسامتاثر کیا ،کہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے آبائی شہر نہ جا سکا۔ میں نے یہیں ملازمت شروع کر دی اور پھر دو سال بعد ہی میں نے کراچی کے گھرانے میں شادی کر لی۔میرا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے جبکہ میری شادی کراچی کے ایک اردو بولنے والے خاندان میں ہوئی، یوں اس بندھن نے دو الگ زبان، قومیت اور جدا رسوم و رواج کے خاندانوں کو آپس میں جوڑ دیا۔

کراچی کا طرزِ زندگی میری طبعیت کے اتنا موافق ہے کہ اب شاید میرے لیے پاکستان کے کسی اور شہر میں رہنا بہت مشکل ہو۔ کیوں کہ جو بات میں نے کراچی میں دیکھی ہے وہ مجھے کسی اور شہر میں نظر نہیں آئی۔

یہ وہ واحد شہر ہے جس میں پاکستان میں بولی جانے والی ہرزبان، مذہب ،نسل اور علاقے کے لوگ آپ کو نظر آئیں گے۔ پاکستان کی علاقائی ثقافت چاہے وہ کسی بھی صوبے کی خاصیت ہو اس کی جھلک آپ کو کراچی میں بھی ضرور نظر آئے گی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر ہونے کے ناطے ملک کے طول و عرض سے لوگ حصول روزگار کے لیے کراچی کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیر و ترقی میں اضافے کے ساتھ ساتھ کراچی نے اپنے دامن میں مزید آنے والوں کو جائے پناہ دینے کے دروازے کبھی بند نہیں کیے۔ بلکہ یہ مواقع کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

ذرائع ابلاغ پر کراچی کے شب و روز کی نشر کی جانے والی خبروں کے بعد ایک ایسا فرد جو کراچی سے دور بیٹھا ہے اس کی نظر میں کراچی ایک خطرناک،غیر محفوظ اور سکونت کے اعتبار سے بالکل غیر موزوں شہر ہے۔ لوگ کراچی کے نام سے خوف کھاتے ہیں۔ لیکن خوف کے اس خول سے باہر نکل کر جینے والے اہل کراچی اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ یہاں محبت و اخوت، بھائی چارے اور ایک دوسرے کے احترام و ہمدردی کی ہزاروں چلتی پھرتی مثالیں موجود ہیں۔ اگر پرتشدد واقعات اور جرائم کی بدنما پرت اس شہر کے تعارف سے ہٹا دی جائے تو آج بھی ایک خوبصورت، منظم اور ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات رکھنے والے باسیوں کا شہر دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔صرف لفاظی کی حد تک نہیں ، میں نے کراچی میں رہنے والوں میں اجتماعی اور انفرادی دنوں سطح پر نیکی و ہمدردی کے وہ جذبات دیکھے ہیں جو کسی اور شہر میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس شہر میں سکون سے رہ رہا ہوں اور مجھے کراچی کا شہری ہونے پر فخر ہے۔

اب بات کی جائے یہاں کی مشکلات کی تو اس میں سرفہرست قتل،چوری ڈکیتی،اغوااور عدم تحفظ جیسے مسائل ہیں۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو ان مسائل اور ان سے پیدا ہونے والی مایوسی اور خوف کی کیفیت میں زیادہ کردار ہمیں اپنا نظر آتا ہے۔ آبادیوں کی اکائی انسان ہوتے ہیں اور انسانوں کے اعمال پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر آج معاشرے کا ہرفرد سوچے کہ بدامنی و دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے وہ کیا کردار ادا کر سکتا ہے اور پھر اس سوچ کے بعد وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے لگ جائے تو میرا خیال ہے ہمارے آدھے مسائل خودبخود حل ہو جائیں۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ غربت، بدحالی اور خوف نے لوگوں کے حوصلوں کو پست کر دیا ہے۔ مال و دولت اور اقتدار و طاقت کے حصول کے لیے چند شرپسند طاقتیں اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہیں اور پھر عوام کی اکثریت اختلاف و انتشار کی اس آگ میں جلنے لگتی ہے۔ کچھ قصور ایسی صورتحال کے ردعمل میں پیدا ہونے والی عدم برداشت کی کیفیت کا بھی ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو ذرا ذرا سی بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔

انتشار و اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ہمیں متحد ویکجاہونا پڑے گا، بچپن میں لکڑیوں کے گٹھر والی کہانی کی طرح!پھر ہمیں کوئی توڑ نہیں سکے گا۔ پورا شہربدامنی کے چنگل سے نکل جائے گا اور نفاق کے بیج بونے والے بھی بے نقاب ہو کر ناکام و نامراد ہوں گے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی شرح کو کم کرنے کے لیے ہمیں عفوودرگزر اور تحمل جیسی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں