خیالی پلاؤ عمران خان اور آزادی مارچ کا اصل ایجنڈا کیا ہے

درحقیقت عمران خان نے پاکستان کرکٹ کے لئے اپنی سیاست کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔


Hassaan Khalid August 19, 2014
درحقیقت عمران خان نے پاکستان کرکٹ کے لئے اپنی سیاست کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ فوٹو فائل

صرف ڈیڑھ دو ماہ قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حالات اس قدر بے یقینی کی صورت اختیار کر جائیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دو سیاسی جماعتیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ لانگ مارچ کر رہی ہیں اور برسراقتدار جماعت ان کا ہدف ہے۔ جبکہ باقی ماندہ جماعتیں اس بحران میں اپنا اپنا ''کردار'' ادا کرنے نکل پڑی ہیں۔ لوگوں کو پہلے ہی سیاست کا چسکا لگ ہے۔ مختصر یہ کہ ہم سب بری طرح سے لانگ مارچوں کے لائے ہوئے بحران میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ عام لوگ اور تجزیہ نگار اس پر تو بات کر رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، یا کیا ہو گا، لیکن کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ یہ سب ہوا کیوں ہے؟ اب جبکہ حقائق میرے علم میں آ چکے ہیں،میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر ترین رہنماؤں کو بھی اس بات کی خبر نہیں ہے کہ آزادی مارچ ہر قیمت پر نکالنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا، جبکہ ان کے ابتدائی مطالبات مان لئے گئے تھے۔ اپنی معلومات کی روشنی میں، میں یہ دعوی بھی کر سکتا ہوں کہ اگر آزادی مارچ سے پہلے وزیراعظم مستعفی بھی ہو جاتے تب بھی عمران خان نے آزادی مارچ لے کر اسلام آباد آنا تھا۔ درحقیقت اس ساری صورتحال کے پیچھے ایک بظاہر ناقابل یقین کہانی ہے، جو کہ گزشتہ سے پیوستہ روز ایک ''ذرائع'' سے میرے علم میں آئی ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ کہانی سننے کے بعد آپ کو تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ رواں سال کے آغاز میں شارجہ میں کھیلے گئے ایک ٹیسٹ میں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف یادگار کامیابی حاصل کی تھی۔ مذکورہ میچ میں پاکستان نے چوتھی اننگز میں 302 زنز کا ہدف، جبکہ پانچ رنز فی اوور سے زیادہ کی اوسط درکار تھی، حاصل کر کے ریکارڈ قائم کیا، کپتان مصباح الحق نے ناقابل فراموش اننگز کھیلی تھی۔ یہ جان کر آپ کو صدمہ پہنچے گا کہ مذکورہ میچ فکس تھا۔ اگرچہ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے، مگر یہ سری لنکن کپتان انجیلو میتھیوز اور مصباح الحق کے درمیان ہونے والی ایک ڈیل کا نتیجہ تھا۔ مصباح الحق نے انجیلو میتیھیوز سے ''درخواست'' کی تھی کہ ''یہ ہمارے کوچ ڈیو واٹمور کا آخری میچ ہے، ہمیں موقع دیں کہ ہم اسے جیت کر اپنے کوچ کو اچھی یادوں کا تحفہ دیں۔''



فوٹو: اے ایف پی

میتھیوز نے کہا، ''ٹھیک ہے، لیکن آپ کو اس کے لئے اگست میں ہونے والی سیریز میں ہم سے دونوں ٹیسٹ میچ ہارنے ہوں گے۔ ہم بھی اپنے مایہ ناز بیٹسمین جے وردہنے کو اسی طرح شاندار انداز میں الوداع کہنا چاہتے ہیں۔''



فوٹو: اے ایف پی

مصباح الحق کے سر پر فوری طور پر ہیرو بننے کا بھوت سوار تھا، انہوں نے بلا سوچے سمجھے ہاں کر دی۔ چنانچہ سری لنکا نے وہ میچ پاکستان کو جتوایا۔ اب جب اگست میں سری لنکا سے ٹیسٹ سیریز کا وقت قریب آیا، مصباح الحق کی نیندیں حرام ہونے لگیں۔ وہ سوچنے لگے کہ لوگوں کو یہ کیونکر ہضم ہو گا کہ وہ سری لنکا جیسی ٹیم سے دو لگاتار میچ ہار جائیں؟ پھر ان کے کیرئیر کا خاتمہ بھی یقینی تھا۔ انہیں اپنا مستقبل تباہ ہوتا نظر آیا۔

ان حالات میں انہوں نے اپنے ''نیازی بھائی'' عمران خان کے گھر کا رخ کیا، تاکہ کوئی حل ڈھونڈا جائے۔ عمران خان کو جب اصل حقیقت کا پتا چلا تو انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ انہوں نے مصباح الحق کو وہ جھاڑ پلائی کہ الامان و الحفیظ۔ مصباح الحق کی آنکھوں سے بہنے والے موٹے موٹے آنسو بھی ان کا دل نہ پگھلا سکے۔

انہوں نے مصباح الحق کو صاف جواب دے دیا،''بھائی! اب خود نتائج کا سامنا کرو۔ میں تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتا۔''

مصباح الحق جو رونے کے بعد اب ہچکیاں لے رہے تھے، ان سے بھی نہ رہ گیا۔ وہ پھٹ پڑے اور کہنے لگے،''تو ٹھیک ہے پھر۔ میں بھی یہ دونوں میچ نہیں ہاروں گا۔ میتھیوز ہمارے درمیان ہونے والا معاہدہ منظر عام پر لے آئے گا، جس سے ملک کی بدنامی ہو گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ پر پابندی لگ جائے۔''

اب عمران خان بھلے کتنے ہی ایماندار سہی، کرکٹ ان کی پہلی محبت ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے سینچے گئے پاکستان کرکٹ کے اس پودے کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے کچھ لمحے خاموشی اختیار کی اور پھر مصباح الحق کو تسلی دیتے ہوئے کہا،''جاؤ، میں نے حل سوچ لیا ہے۔ تم بھلے دونوں میچ ہارجانا۔ تم سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔''

خوشی سے مصباح الحق کی باچھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بے تابی سے پوچھا، ''مگر وہ کیسے؟''

عمران نے کہا،''یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اور اب چلے جاؤ یہاں سے اور آئندہ اپنی شکل مت دکھانا۔''

مصباح الحق فوراً وہاں سے کھسک گئے۔

تو میر ے عزیز ہم وطنو! یہ وہ کہانی ہے، جو ملک کو ان حالات کی طرف دھکیل لائی ہے۔ عمران خان کو مجبوراً آزادی مارچ کا اعلان کرنا پڑا۔ اور اس کی تاریخ بھی ٹیسٹ سیریز کے عین درمیان میں رکھی، تاکہ کسی کی توجہ کرکٹ کی طرف نہ جائے۔ یہ وہ ''اصل ایجنڈا'' تھا، جس کا آج تک لوگوں کو پتا نہیں چل سکا۔ وہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عمران خان کو مارچ پر اکسایا ہے، جبکہ دراصل یہ عمران خان ہیں، جنہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو استعمال کیا ہے۔ جی ہاں، ہمارا کپتان اتنا بھولا بھی نہیں ہے۔ سترہ، اٹھارہ سال کی سیاست نے اسے بہت کچھ سکھایا ہے۔

آج کل بہت سے لوگ عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں۔ حقیقت میں انہوں نے پاکستان کرکٹ کے لیے اپنی سیاست کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ انھوں نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ اور ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اس کا کریڈٹ بھی نہیں لے سکتے۔ میرے خیال میں عمران خان ہم سب کی ہمدردی کے مستحق ہیں!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔