کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
فلیٹوں کا قبضہ بھی کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر نہیں دے سکتا جس کے اجرا کے لیے بلڈنگ کنٹرول ۔۔۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ایکسپو سینٹر میں 3 روزہ بین القوامی نمائش کا انعقاد کیا جس میں سیاسی، سماجی شخصیات، تاجر نمایندوں، سفارتکاروں، غیر ملکی ماہرین، بین الاقوامی اور مقامی تعمیراتی کمپنیوں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
بکنگ پر عوام کو 50 فیصد تک رعایت دی گئی، تعمیراتی کمپنیوں نے لاہور، حیدر آباد، اسلام آباد، پنڈی اور مری میں بھی اپنے منصوبوں کے اسٹال لگائے تھے نمائش میں شرکت کرنے والے افراد کے لیے بکنگ پر 10 فیصد کی رعایت، ڈسکاؤنٹ کارڈ اور اسٹیکرز متعارف کرائے گئے تھے اس نمائش میں 130 کمپنیز نے اسٹال لگائے تھے جن میں 24 غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ آباد کے مطابق نمائش میں غیر ملکی تعمیراتی کمپنیوں سے 200 ملین ڈالر کے تحریری معاہدات ہوئے اور آیندہ چند ماہ میں مزید 800 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدات متوقع ہیں۔
نمائش کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس نمائش سے غیر ملکی ماہرین کے تجربات جاننے اور سمجھنے کا موقع ملے گا تعمیراتی صنعت میں نئی جدت پیدا ہو گی اور تعمیرات سے منسلک دیگر صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا۔ ملک میں تعمیراتی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے اور روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں آباد کی جانب سے انٹرنیشنل ایکسپو 2014ء کا انعقاد ایک بہت خوش کن اقدام ہے۔
اس نمائش کے انعقاد کے لیے آباد نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر جو کوششیں کیں اور جس طرح متعلقہ حکومتی اداروں، ارباب اقتدار و اختیار اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور عوام الناس کی توجہ اس اہم موضوع کی جانب مبذول کرائی اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ لینڈ پلانرز، انجینئرز، آرکیٹکٹس، سائنسی ماہرین، اور غیر ملکی تعمیراتی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو پاکستان میں ایک جگہ جمع کر کے یہاں تعمیرات و سرمایہ کاری کی ترغیب دی ہے معاہدات کیے اور مزید معاہدات کی یقین دہانیاں حاصل کیں ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔
پاکستان میں روٹی کے بعد رہائش کا سلسلہ دن بہ دن گمبھیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے کروڑوں افراد کرایہ کے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔ بے گھر اور اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ پیشہ ور قبضہ، لینڈ مافیا گروہ منظم و متحرک ہو چکے ہیں جو سرکاری و نجی املاک پر قبضہ کر کے رہائش سے محروم عوام سے رقم بٹور کر غیر قانونی اور کچی آبادیاں قائم کراتے ہیں۔
حکومت اور حکومتی ادارے عوام کو درپیش رہائش کے سب سے بنیادی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دیتے دوسری جانب زمینوں کی بندر بانٹ، تقسیم، انعامات و نوازشات کا سلسلہ جاری رہتا ہے بااثر افراد منسٹر کوٹہ، متبادل اراضی اور سوسائٹیز اور رفاہی اداروں کے نام پر کوڑیوں کے دام پر زمینیں حاصل کر کے اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں زمینوں کا ریکارڈ نہیں ہوتا، زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں شروع کر دی جاتی ہیں، مقررہ وقت اور قیمت پر قبضہ نہیں دیا جاتا، دکھایا اور بتایا کچھ جاتا اور کیا کچھ اور جاتا ہے۔ الاٹیز کو چال بازیوں سے نادہندہ قرار دے کر ایک ہی جائیداد کئی کئی مرتبہ فروخت کر دی جاتی ہے۔
بسا اوقات ایسے افراد آپس کے تنازعات بلکہ خود ساختہ تنازعات پیدا کر کے غائب ہو جاتے ہیں اور غریب الاٹیز کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیتے ہیں۔ حکومتی رہائشی اسکیمیں بہت کم آتی ہیں جن میں پلاٹوں یا فلیٹوں وغیرہ کی تعداد بھی قلیل ہوتی ہے پھر قیمت وصول کرنے کے باوجود سالہا سال ڈویلپمنٹ کی جاتی ہے نہ قبضہ دیا جاتا ہے، تیار شدہ املاک پر پولیس والوں، قدرتی آفات کے متاثرین اور قبضہ مافیا کی جانب سے قبضہ کیے جانے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
سپر ہائی وے پر 40 سال قبل شروع کی گئی رہائشی اسکیم نمبر 33 بنیادی سہولتوں اور ڈویلپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی پورے طور پر آباد نہیں ہو سکی ہے۔ بنیادی شہری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے الاٹیز اپنے گھروں کی تعمیر نہیں کر پاتے اور ایسی جگہوں پر غیرقانونی آبادیاں قائم ہو جاتی ہیں انسداد تجاوزات کا محکمہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ کہہ کر اپنے فرائض سے عہدہ برآء ہو جاتے ہیں کہ زمینیں خالی کرانے سے امن و امان کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے اور بعض مرتبہ ایسا ہوا بھی ہے کہ ان محکموں کے افراد کو ناجائز قابضین اور لینڈ مافیا کی جانب سے جانی و مالی نقصان اٹھا کر دوڑنا بھی پڑا ہے۔ متعلقہ ادارے قبضہ شدہ زمین کا متبادل دینے سے بھی یہ کہہ کر صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس متبادل زمین موجود نہیں ہے۔
چیئرمین آباد نے بتایا کہ ملک میں 80 لاکھ مکانات کی کمی ہے اور ہم سالانہ 2 لاکھ مکانات تیار کرتے ہیں جس میں سے حکومت کو 20 ارب روپے ریونیو مل رہا ہے اگر حکومت تعاون کرے تو ہم 4 لاکھ مکانات سالانہ تیار کر سکتے ہیں جس سے حکومت کو 40 ارب روپے کا ریونیو ملے گا اور تعمیرات سے منسلک دیگر صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا اس وقت تعمیرات کی صنعت سے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اس صنعت کے فروغ سے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔
چیئرمین آباد کے مطابق ملک میں 65 فیصد شہری کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں اگر باقی ماندہ 35 فیصد آبادی کے نصف کو کرایہ دار تسلیم کر لیا جائے تو یہ 80 فیصد سے زائد آبادی بن جاتی ہے جن کے پاس اپنی ذاتی رہائش نہیں ہے جو غیر قانونی کچی یا عارضی آبادیوں یا کرایہ کی رہائش گاہوں میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں جن کی وجہ سے وراثت اور مالکان اور کرایہ داروں کے درمیان تنازعات جنم لے رہے ہیں جن کی لمبی تفصیل جن کا ذکر آیندہ کالم میں کیا جائے گا۔
آج کل جائیداد کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر غریب و متوسط طبقے کے لیے تو ذاتی رہائش کا حصول ایک خواب بن چکا ہے ایک اوسط درجے اور اوسط آبادی میں مکان کی قیمت 60 سے 70 لاکھ کے قریب ہے۔ کرایہ بھی کم ازکم 10 تا 15 ہزار اور ایڈوانس کی رقم بھی لاکھوں میں ہے جس کی وجہ سے عوام کا رجحان فلیٹوں اور پورشنز کی طرف بڑھ رہا ہے جن کی قیمتیں مکانات کی قیمتوں سے 30 سے 50 فیصد تک کم ہوتی ہیں اس سلسلے میں بلاشبہ بلڈرز نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جنکی وجہ سے مکانات خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے لاکھوں افراد فلیٹوں، کاٹیچز اور پورشنز کی صورت میں اپنے لیے چھت کا سایہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لیکن بلڈر میں ایک بڑی تعداد ایسے بلڈرز کی ہے جو تعمیراتی معیار، ماحولیاتی ضروریات، پانی، بجلی، پارکنگ اور صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں اور مستقبل کی ضروریات کو نظرانداز کر جاتے ہیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین جن کے تحت انھیں تعمیراتی پروجیکٹ کی تشہیر اور تعمیر کی اجازت دی جاتی ہے بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ، تعمیری رقبے میں کمی، نقشے میں تبدیلی، قبضے میں تاخیر اور ناقص میٹریل کے استعمال کی شکایات عام ہوتی ہیں حالانکہ کوئی بلڈر، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی تعمیراتی منصوبے کی تشہیر اور آغاز کر سکتا ہے نہ ہی مجوزہ قیمتوں میں اضافہ یا تعمیر میں ترمیم یا تاخیر کر سکتا ہے۔
فلیٹوں کا قبضہ بھی کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر نہیں دے سکتا جس کے اجرا کے لیے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تمام مطلوبہ معیارات کا جائزہ لیتی ہے پھر یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ بلڈرز اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی دونوں اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں، اگر الاٹیز بلڈرز کے خلاف شکایات کرتے ہیں تو اتھارٹی بلڈرز کو محض شوکاز نوٹس دینے پر اکتفا کرتی ہے یا زیادہ سے زیادہ اس بلڈر کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ مگر یہ بلڈر پھر کسی نئے نام سے نیا منصوبہ شروع کر دیتا ہے۔