زرداری پھر بھاری
جمہوری نظام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کے بحران سے نکلنے کا حل موجود ہوتا ہے...
2013 کے عام انتخابات ہوچکے تھے' مسلم لیگ ن کی فتح کا جشن جاری تھا' آصف علی زرداری نے اپنی صدارت کا آخری روز بلاول ہائوس لاہور میں گزارا تھا' رات کو انھوں نے سینئر صحافیوں کو مدعو کر رکھا تھا' میں اور محترم ایاز خان صاحب بھی اس موقع پر موجود تھے۔
یہ ایک یاد گار رات تھی' انھوں نے کھل کر اور کبھی ڈھکے چھپے انداز میں بہت باتیں کیں' یہاں ہی انھوں نے 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کی بات کی تھی' انھوں نے آر اوز کا نام لیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو 30 سے چالیس نشستوں پر ہرایا گیا تھا' اسی کے ساتھ انھوں نے کہا تھا کہ جمہوریت اور نظام بچانے کے لیے انھوں نے نتائج تسلیم کیے ہیں' شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت مل گئی تھی۔
پیپلز پارٹی اقتدار سے باہر نہیں ہوئی تھی' جتنا نقصان اسے پنجاب میں پہنچا' اس سے بڑھ کر سندھ میں مسلم لیگ ن کو پہنچ چکا تھا' وہ سندھ سے مکمل طور پر فارغ کر دی گئی تھی' مسلم لیگ ن کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کرنے والے سندھی قوم پرست شکست کے زخموں کو اب تک چاٹ رہے ہیں۔ وہ بھی سندھ میں انتخابی دھاندلی کا واویلا کر تے ہیں لیکن ن لیگ ان کی آواز میں آواز ملانے سے ڈرتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں اے این پی اور جے یو آئی ف بھی دھاندلی کی بات کرتی ہیں لیکن مسلم لیگ ن نے اس پر بھی بلند آواز میں بات نہیں کی' یہاں مولانا فضل الرحمن کو ایک دو وزارتیں دے کر خاموش کر دیا گیا جب کہ اے این پی بیچاری مار کھا کر بھی جمہوریت جمہوریت پکارنے پر مجبور ہے۔
تحریک انصاف بھی صرف پنجاب میں دھاندلی کی بات کرتی رہی'خیبر پختونخوا میں اس نے حکومت بھی بنا لی' آج وہ اسمبلیوں سے استعفے دے رہی ہے' اگر وہ عام انتخابات کے فوراً بعد ہی یہ کام کر لیتی تو اس کے موقف میں تضاد پیدا ہوتا اور آپ کو یہ کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری پالیسی قیادت اپنے اپنے مفادات کا کھیل تو کھیلنے میں ماہر ہے لیکن ملک اور نظام بچانے کے لیے مفادات کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہوتی' سیاسی قیادت اپنے اپنے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں نام رہی ہے' اس رات آصف علی زرداری مستقبل کے حوالے سے پاکستان کا جو نقشہ کھینچ رہے تھے وہ بہت تشویشناک تھا۔
انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو شام جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کتنی بار کوششیں کی گئیں۔ یہ کوششیں صرف اس سے ناکام ہو جاتی ہیں کہ عام آدمی اس میں شامل نہیں ہوتا۔ لیکن آج حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ فرقہ واریت کی ایک چنگاری ہر طرف آگ بھڑکا سکتی ہے۔
سچی بات ہے کہ مجھے وطن عزیز کے حالات اچھے نظر نہیں آتے'اس وقت مجھے آصف علی زرداری کی شام والی بات اپیل نہیں کی تھی لیکن آج مجھے آصف علی زرداری کے کہے ہوئے الفاظ یاد آ رہے ہیں' اسلام آباد میں لگ بھگ ایک ہفتے سے ہزاروں لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
دھرنوں میں نوجوان بچیاں اور ادھیڑ عمر خواتین اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ بیٹھی ہیں' پاکستان میں یہ بالکل نیا مظہر ہیں' آپ دھرنوں میں رقص کرنے والی خواتین اور نوجوانوں کا مذاق اڑا کر یا ذومعنی فقرے کس کر اپنے دل کو تسلی تو دے سکتے ہیں لیکن اس سچ کو نہیں چھپا سکتے کہ اتنے روز تک ان خواتین اور نوجوانوں کا رقص کرتے رہنا پاکستان کی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہے۔
ذرا سوچیے آخر یہ بھی اپنے والدین کی اولادیں ہیں' کون سا باپ اپنے بچوں کو کسی لالچ میں ایسی جگہ بھیجے گا جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ خود کو ''جمہوریت کا داعی'' قرار دینے والوں کو اس صورت حال کو ہنسی مذاق یا ٹھٹھہ میں نہیں اڑانا چاہیے بلکہ جمہوریت والوں کو بھی جمہوریت کا سبق یاد دلانا چاہیے کہ جمہوریت کا مطلب حزب اختلاف کے مطالبات پر غور کرنا بھی ہوتا ہے' خود کو سچا' قانونی' آئینی سمجھنا اور دوسروں کو غیر آئینی تصور کرنا جمہوری روح نہیں ہے۔
جمہوری نظام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کے بحران سے نکلنے کا حل موجود ہوتا ہے۔ ایک بار پھر آصف علی زرداری کی مثال دینا پڑ رہی ہے' آپ اس پر برا نہ منائیے گا' مجھے معاف کر دیجیے گا کہ میرے ذہن میں اس وقت کوئی اور مثال موجود نہیں ہے' آج کے وزیراعظم اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف نے معزول ججز کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا تھا' آصف علی زرداری کو اچھی طرح علم تھا کہ اگرافتخار محمد چوہدری چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہو جاتے ہیں تو وہ انھیں کوئی رعایت نہیں دیں گے' اس کے باوجود ان کی حکومت نے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو بحال کر دیا۔
اس بحالی میں بھی آئینی و قانونی پیچیدگیاں موجود تھیں لیکن جمہوریت اور آئین میں کہیں نہ کہیں کوئی راستہ موجود ہوتا ہے۔ انھی چیف جسٹس نے توہین عدالت کے جرم میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے ہٹا دیا اور وہ ہٹ گئے جب کہ نظام چلتا رہا' میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا' یہاں بھی جمہوریت سرخرو رہی' آج بھی بظاہر حالات بند گلی میں ہیں' لیکن ایسا نہیں ہے کہ راستہ موجود نہیں ہے' یہ الگ بات ہے کہ جان بوجھ کر یہ راستہ اختیار نہیں کیا جا رہا۔ عقل و فہم اور دور اندیشی پر غصہ اور ضد حاوی ہے۔
میرے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف خود ڈیڈ لاک توڑنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں' مذاکرات کا دروازہ کھل چکا ہے' انھوں نے اچھا کیا کہ آصف علی زرداری کو خود ٹیلی فون کیا جس کے نتیجے میں وہ پاکستان آ چکے ہیں' میری رائے یہ ہے کہ اگر آصف علی زرداری خود عمران خان' ڈاکٹر طاہر القادری' چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین سے ملاقاتیں کریں تو ایسی جادوگری ہو سکتی ہے جس پر پورا ملک حیران رہ جائے گا۔
وزیراعظم صاحب' جمہوریت بچانے کا مشن آصف علی زرداری کے سپرد کر دیں' آپ بھی بچ جائیں گے اور جمہوریت بھی محفوظ رہے گی ورنہ سچی بات ہے کہ جس برق رفتاری سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے محروم اور پسماندہ طبقات میں اشرافیہ کے خلاف غصہ اور انتقام بڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ اور انتقام ہی ہے جو اسلام آباد کے ریڈ زون میں رقص کر رہا ہے اور دھرنا دیے بیٹھا ہے۔ اس پر کان دھریے اسے طاقت سے دبانے کی کوشش نہ کریں' اسی میں بہتری ہے۔