زرداری کی شاندار اینٹری
سراج الحق کی بات دوسری ہے وہ سیاسی ہی نہیں مذہبی جماعت کے امیر ہیں اور وہ اس سسٹم کو بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں
سنا ہے پاکستان کا کوئی کرکٹ میچ تھا۔ کسی نے یہ بھی بتایا کہ سری لنکا 276 رنز کا ٹارگٹ حاصل کر کے پاکستان میچ جیت بھی گیا۔ کرکٹ سے لاتعلقی کی اپنی اس حالت پر مجھے خود بھی حیرت ہو رہی ہے لیکن کیا کروں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو میچ جاری ہے اس سے نظریں ہٹائے نہیں ہٹتیں۔
اس دوران کل مرد حر اور آج کے مرد بحران آصف علی زرداری کی انٹری نے کسی اور طرف دھیان دینے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ پیپلز پارٹی والوں کا یہ دعویٰ ماننا پڑے گا کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔ آصف علی زرداری جس شان بے نیازی سے آئے اور جیسے انھوں نے ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں' اس سے یوں لگا کہ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ سیاست کے طفل مکتب ہیں۔
سراج الحق کی بات دوسری ہے وہ سیاسی ہی نہیں مذہبی جماعت کے امیر ہیں اور وہ اس سسٹم کو بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ علی بابا 40 چور ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے دعوے بھی سنائی دیتے تھے۔
انھیں الٹا لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ وہ صدر تھے تو وزیر اعلی پنجاب لاہور ایئر پورٹ پر ان کے استقبال کے لیے نہیں جاتے تھے۔ آج وہ صدر نہیں ہیں مگر ہفتے کی دوپہر جب وہ جاتی عمرہ پہنچے تو وزیر اعظم نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ اور ہاں یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے چند ہفتے قبل کہا تھا وزیر اعظم بادشاہ نہ بنیں۔
حسب حال ایک مثال دی جا سکتی ہے لیکن وہ یہاں درج کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ سیاست کی یہی خوبی ہے۔ ضرورت پڑنے پر سب جائز ہو جاتا ہے۔ ان دنوں کانوں میں سب سے زیادہ پڑنے والی آواز جمہوریت کی ہے۔ آئین، قانون اور سسٹم کا ذکر بھی کافی ہو رہا ہے۔ تھرڈ امپائر کی طرف بھی اشارہ ہو رہا ہے۔ ممکنہ خونریزی کا حوالہ بھی کہیں نہ کہیں سنائی دے جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان جمہوریت کے حق میں قراردادیں پاس کر چکے لیکن آزادی اور انقلاب دھرنے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کپتان کا اعلان ہے کہ وہ ایک سال تک یہاں سے نہیں جائے گا۔
طاہر القادری مطالبات منوانے تک ریڈ زون کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ لڑائی اعصاب شکن دور میں داخل ہو چکی ہے۔ حکومت کے لیے بری خبر یہ ہے کہ کپتان کو کنٹینر پر مزے کی نیند آنے لگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہاں مزید بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی ٹیموں میں مذاکرات ٹوٹ چکے ہیں۔ حکومت نے وزیر اعظم کے ایک ماہ کے لیے رخصت پر جانے کی تجویز بھی مسترد کر دی ہے۔ ملت کے ہر فرد کے ذہن اور زبان پر ایک ہی سوال ہے ''آگے کیا ہو گا''۔ تجزیہ نگار دور دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
عمران پر یہ تنقید ہو سکتی ہے کہ وہ اتنی جلدی حکومت کو گرانے کیوں نکل پڑے۔ البتہ طاہر القادری کے پاس یہاں تک آنے کا جواز موجود ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون نہ ہوتا تو طاہر القادری کے اقدام کو بڑی آسانی سے غلط قرار دیا جا سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ لانگ مارچ ہی کرتے۔ اب علامہ صاحب کا سب سے بڑا مطالبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب سمیت 21 افراد کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرانا ہے۔ اس ایشو پر ڈاکٹر طاہر القادری کو اخلاقی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتیں ان کے اس موقف کی حامی ہیں۔
کپتان کے انتہائی اقدام کی بنیاد چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے سے پڑی تھی۔ حکومت اس مطالبے کو تسلیم کر کے اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتی تو بات یہاں تک نہ پہنچتی۔ حکومت نے کپتان کا مطالبہ تو نہیں مانا مگر چیئرمین نادرا طارق ملک کو ضرور تبدیل کر دیا۔ بات بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ آج دو دو دھرنے حکومت کا منہ چڑانے کے لیے ریڈ زون میں موجود ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی میں دوبارہ مذاکرات کے لیے عرق ریزی کرنا پڑے گی۔ طاہر القادری سے سعد رفیق ملاقات کر کے آئے ہیں۔ اس محاذ پر پیشرفت کی امید پیدا ہوئی ہے۔ کپتان کو بھی نیا پاکستان بنانے کی جلدی ہے کیونکہ انھیں دوسری شادی بھی کرنی ہے۔ اتنے حبس زدہ ماحول میں بھی کوئی نہ کوئی اچھی خبر آ جاتی ہے تو توقع پیدا ہونے لگتی ہے کہ شاید مسئلہ حل ہو جائے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب اچھا ہے یا ہونے والا ہے۔
اسلام آباد میں معمولات زندگی کافی متاثر ہوئے ہو رہے ہیں۔ شاہراہ دستور پر صورتحال اور زیادہ خراب ہے۔ ججوں کو بھی آنے جانے میں مشکلات ہیں۔ ایک جسٹس صاحب نے کہا انھیں عدالت پہنچنے میں بیس منٹ کی تاخیر ہوگئی۔ اس پر کسی نے یوں تبصرہ کیا۔ یہاں بیس بیس سال مقدموں کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اب اس تبصرے پر کیا تبصرہ کیا جائے؟ میرا خیال ہے حکومت اس کرائسز سے نکل بھی گئی تو آرام سے نہیں چل سکے گی۔ اس سارے عمل میں حکومت کا تو نقصان ہو گا ہی ملک بہت خسارے میں چلا جائے گا۔ اللہ رحم کرے۔ یہ سلسلہ کچھ دن اور جاری رہا تو مجھے گلیوں اور بازاروں میں لڑائی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
فساد پھیل گیا تو خدانخواستہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ وہ اس سیاسی میچ کے امپائر ہیں۔ ان کے بقول بات تھرڈ امپائر تک گئی تو بہت گڑ بڑ ہو جائے گی۔ میرا سوال یہ ہے کہ تھرڈ امپائر کب تک خاموش تماشائی بنا رہے گا۔ مسئلہ سیاسی ہے اور سیاستدانوں کو ہی حل کرنا ہے۔ اگر وہ ناکام ہوئے تو پھر کیا ہو گا۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں آصف علی زرداری سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک سیاسی اسکول کھولیں جہاں سیاستدانوں کو تربیت دی جائے۔ حالیہ بحران میں مجھے تو آصف علی زرداری سے بڑا کوئی سیاستدان نظر نہیں آیا۔
ادھر جن کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار ہے' وہ اپنی اپنی انائوں کے اسیر ہیں' ہر کوئی قائد ہے' پاکستانی کوئی نہیں' ہر قائد اتنا ضدی ہے کہ معمولی سے لچک کو بھی اپنی توہین سمجھتا ہے' اس موقع پر مجھے ایک شعر بہت اچھا لگا ہے جو میرے ایک دوست نے ایس ایم ایس کیا ہے' مجھے یہ حسب حال لگتا ہے' آپ کی نذر کرتا ہوں۔
شاید کہ یہ زمانہ انھیں پوجنے لگے
کچھ لوگ اس خیال سے پتھر کے ہو گئے
میری قائدین سے اپیل ہے کہ وہ پتھر کے نہ بنیں بلکہ پاکستانی بنیں' اگر وہ پاکستانی بن جائیں تو بحران اسی روز حل ہو جائے گا۔