سبز آگ کا شیدائی…
ان کا فن یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دکھ کے کینوس کو اپنے انداز بیان، اپنے تخیّل کی بلند پروازی سے لامحدود وسعت عطا کی ہے
دل خلوص سے معمور ہے جو اَب درد بن چکا ہے؛ روح اپنے قید خانے پر رحم کیے بغیر دنیا جہان کے جہان معنی کی سیر کرانے میں مگن ہے'بدن کا قید خانہ کوئٹہ سے لاہور اور لاہور سے کراچی اور ملک کے ادھر ادھر بکھرے پڑے تباہ حال شہروں اور قصبات کے دوروں پر اس طرح مامور ہے جیسے عبادت میں مشغول ہو؛ اور اس پر شعری وجدان جو کبھی خاک اور کبھی روح میں ڈبکیاں لگاکر موتی نما شعر نکال کر اپنے ارد گرد اساطیری مناظر یکے بعد دیگرے سجا رہا ہے؛ تو اس تھکا دینے والے سفر کے بعد جب وہ گھر لوٹتا ہے تو بستر پر دراز ہونے کے بعد نیند اور بے خوابی کی درمیانی کیفیت میں طاقچے پر رکھے دیے کے لیے ایک انوکھی چیز بن جاتا ہے، دیے کی آنکھ سوچتی ہے کہ یہ سفر سے تھک کر آیا ہوا کمخواب سوگیا ہے یا تاحال سفر میں ہے۔ ''ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سو چکا ہوں'دیے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے۔''
یہ دانیال طریر ہے جس کا اسپِ خیال نظم سے غزل اور غزل سے تنقید کی سرزمینِ بے آب و گیاہ میں بے تھکان دوڑتا ہے۔ ایک تازہ کار شاعرِ نظم کے تناظر میں جب ہم ان کی غزل پڑھتے ہیں تو دو چیزیں ہمیں خاص طور پر اپنی جانب کھینچتی ہیں اور یہ احساس دلاتی ہیں کہ غزل میں آپ کو ایک جانا پہچانا دانیال طریر جلوہ گر ملے گا، جس نے اقلیم غزل میں قدم دھر تو دیا ہے لیکن نظم کا سحر ابھی خوابوں کی بے طرح خوگر آنکھوں سے اُترا نہیں ہے۔ ایک، سماجی زندگی کے مخصوص علائم اور ثقافت کے گہرے مظاہر؛ دوم اسطورہ، جس کو وہ عجیب طرح سے برت کر قدیم و جدید کے مابین قابل گزر پل بنا دیتا ہے۔
یہ اس روح کے سبب ہے جو قرار کے پردے میں متمکن دکھائی دیتی ہے لیکن اسے بے قراری کے پَر لگے ہیں اور وہ پھڑپھڑانے سے باز نہیں آتے۔ میں دانیال سے ملا نہیں ہوں لیکن انھیں تصویر میں دیکھ کر ہربار حیرت سے ضرور ملتا ہوں' سوچتا ہوں کہ شاید اس روح سے ملاقات ہوجائے جس نے اپنی مٹی کا بدن پہنا ہے لیکن اس پہناوے کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے نہیں دیا اور پھر دیومالائی جہانوں سے بھی اپنے انداز میں ہاتھ ملانے پہنچ جاتا ہے۔''الٹے ہاتھوں ہم نے جتنی دعائیں مانگی ہیں 'جلتی دھوپ اور تو ہے ان کا حاصل اے صحرا۔تماشے کے سبھی کردار مارے جا چکے ہیں'کہانی صرف اک تلوار لے کر جا رہی ہے۔رکھنے سے ڈر رہا ہوں اسے آگ کے قریب'رستے میں ایک سانپ ملا ہے جما ہوا۔''
دانیال طریر کی غزل کے مضامین پر بات کرنا کچھ آسان ہرگز نہیں ہے۔ ایک طرف مضامین کی کہکشاں تو دوسری طرف ہر مضمون میں جہان معنی کا ورود۔ شاعر کا تعلق بلوچستان سے ہو، وہ شاعر جو اپنے آب و گِل میں کسی مجذوب کی طرح بھیگا اٹا ہو؛ اور وہ ویران شہروں اور آباد پہاڑوں کے پس منظر میں اپنی درد بھری آواز نہ بلند کرتا ہو' ممکن نہیں۔ اس لیے ان کا درد غزل کی ترنگ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ ''آخر جسم بھی دیواروں کو سونپ گئے'دروازوں میں آنکھیں دھرنے والے لوگ۔درختو! مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو'فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے۔کھیت جب سوکھ گئے تب ہمیں احساس ہوا'گاؤں تک شہر کے موسم کو سڑک لے آئی۔''
دانیال نے اپنی غزل میں درد کے خالص زمینی رشتوں کی شش جہات سے روشناس کرایا ہے۔ خواہ وہ روشنی کے التباس کا دکھ ہو، ریت برساتے بادل کا دکھ ہو، خون اگلتے پھولوں کا دکھ ہو، آنکھ سے خواب کے چرائے جانے کا دکھ ہو، جیتے جاگتے قصبات کی ویرانی کا دکھ ہو، خواہ حدنگاہ تک ظلم پرزبانوں کی خموشی کا دکھ ہو، ان کی غزل اس درد سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے پُردرد اشعار نہایت دل موہ لینے والی اساطیری فضا تخلیق کرتے ہیں۔
ان کا فن یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دکھ کے کینوس کو اپنے انداز بیان، اپنے تخیّل کی بلند پروازی، جدید استعاراتی و تشبیہاتی نظام سے لامحدود وسعت عطا کی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ دکھ ہمیں کائناتی محسوس ہوتا ہے۔''میں سبز پرندے کی طرح شہر سے جاؤں'پیڑوں کو مری نقل مکانی نظر آئے۔شام ناراض پرندے کی طرح لوٹ گئی'رات کو آ کے ڈرائیں نہ بلائیں، آمین۔یہیں ستاروں بھری جھیل کے کنارے پر 'پڑی ہوئی تھی محبت مری ہوئی میری۔''
اگر میں کہوں کہ دانیال طریر اپنے اشعار میں متعدد شعوری و غیر شعوری رویوں کی رداؤں میں لپٹا ہوا ملتا ہے تو یہ کچھ غلط نہ ہوگا۔ وہ اسرار کا شیدائی تو ہے ہی وگرنہ بستر پر کروٹ بدلتے، سرہانے کی ایک طرف رکھی اسطورے کو دیکھ کر مسکرانے کا سامان کیوں کرتا؛ مگر وہم کو بھی وہ اپنی ثقافت کے کسی اہم اور مقدس مظہر کی طرح پیار کرتا نظر آتا ہے۔
دانیال کے شعری نظام تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ اس بنیادی مزاج تک پہنچا جائے جو ان کے شعری رویوں کے خدوخال کی وضاحت میں معاون ہوسکتا ہے۔دانیال نے اپنے ماحول کو اس طرح اوڑھا ہے کہ وہم بھی ان کی نظروں میں قدروقیمت اختیار کرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل میں ہمیں نہایت تازہ کاری اور لب و لہجے کی انفرادیت اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ''میں نیست اور نبود کی اک کیفیت میں تھا'جب وہم ہست و بود میں گوندھا گیا مجھے۔''
اساطیر کی بات ہو تو ''یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے'' کہہ کر بات کرتا ہے۔ لیکن اپنے اردگرد پر نگاہ پڑتی ہے تو شعری طبیعت میں گھن گرج آجاتی ہے ''جنونی ہوگیا ہے میرے دریاؤں کا پانی'' اور''پتنگا ایک پاگل ہوگیا ہے روشنی میں'' اور''نہیں آیا یہ اژدر پربتوں کی سیر کرنے،زمینوں کے خزانوں تک پہنچنا چاہتا ہے'' جیسے سیاسی اور انتظامی زمینی حقیقتوں کو کھولتا چلا جاتا ہے۔ وہم کے علاوہ اژدر،خوف اورخدا ایسے عناصر ہیں جو اُن کے شعری مزاج کو سمجھنے میں معاون ہیں۔
دریاؤں کا قاتل پانی، پیڑ پر اژدر اور خوف تو انھیں اپنے ماحول پر مسلط ملا ہے مگر خدا وہ عنصر ہے جس تک وہ اس روح کے ذریعے پہنچا ہے جو اگلے زمانوں کی محبت میں بری طرح گرفتار ہے۔ خدا اُن کی شعری کائنات میں بنیادی عنصر کے طور پر کارفرما ہے جس کے ساتھ تمام تر بے بسی کے باوجود وہ رشتہ توڑنے پرتیار نہیں۔
دانیال بھی ایک عام آدمی کی طرح طلسماتی دنیاؤں کی کشش کے آگے بے بس ہے۔ سبز آگ، سبز مٹی، سبز پرندے، سبز پری ایسی علامتیں ہیں جن سے وہ اپنے اشعار کے گرد ایک طلسماتی دنیا بسا دیتا ہے۔ آج کا دور میجک رئیلزم کا دور ہے اگرچہ ہر دور میجک رئیلزم کا دور رہا ہے مگر آج اس نے بڑے سائنسی انداز میں نیا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور یہ مزید پرکشش ہوگئی ہے۔ چونکہ وہ اپنے سماج، ثقافت اور زمین سے جڑا ایک حقیقت پسند تخلیق کار ہے' اس لیے اپنی تخلیقی اُپج کو طلسمی پردوں پر ابھارنا ان کا ایک عام تخلیقی رویہ بن چکا ہے۔ ''یہ طلسمات کی دنیا ہے یہاں کیا معلوم 'ایک دن مصر کے اہرام کو پر لگ جائیں۔پھول پھنکارتے ہیں ڈستے ہیں'کیا عجائب بھری کہانی ہے۔''
دانیال کی غزل کو نظمیہ احساس کا پرتو سمجھ کر یا کہ کر نظر انداز کیا جانا آسان نہیں' کیوں کہ جدید طرز اظہار اور آج کی المیاتی زندگی سے جنم لینے والے خیالات ان کی غزل کو ایسے طلسماتی رنگ دے رہے ہیں جو دیگر خواص کے ساتھ ساتھ دل پذیر بھی ہیں۔''تجھے سنائی نہ دی کیا دکھائی بھی نہیں دی 'دعا چراغ کی لو پر دھری ہوئی میری۔مجھے تو لاج کے اُجلے لباس میں وہ بدن 'گلاب برف میں جیسے چھپاؤ ایسا تھا۔ حنائی پاؤں رگڑتے ہوئے نہ گھاس پہ چل، تجھے خبر ہے کہ بھاتی ہے سبز آگ مجھے۔''