کل کے دشمن آج کے دوست
اس آخری فقرے میں معنی کا سمندر پنہاں ہے۔ یہاں تک کہ امریکا اور اس کے اتحادی بھی پریشان ہیں۔
ISLAMABAD:
حزب اللہ لبنان کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنے حالیہ انٹرویو میں داعش کے حوالے سے کہا ہے کہ جہاں بھی اس کے پیروکار موجود ہیں وہاں اس کے پھیلنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں اردن، سعودی عرب، کویت اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔ ان جنگجوئوں کی تعداد اور صلاحیتیں بڑی زیادہ اور وسیع ہیں۔ ہر کوئی پریشان ہے اور ہر کسی کو پریشان ہونا چاہیے۔
اس آخری فقرے میں معنی کا سمندر پنہاں ہے۔ یہاں تک کہ امریکا اور اس کے اتحادی بھی پریشان ہیں۔ یہ امریکا اور اس کے اتحادی ہی تھے جنہوں نے بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ڈیڑھ بلین ڈالر کی اسلحی اور مالی مدد کی اور ان جنگجوئوں کو اردن میں امریکی اڈوں پر ٹریننگ دی گئی۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ ایڈورڈ سنوڈن جو سی آئی اے کا سابق اہلکار ہے اس نے انکشاف کیا ہے کہ داعش کا سربراہ امریکا و اسرائیل کا ایجنٹ ہے اور اسے اسرائیل میں تربیت فراہم کی گئی ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن نے کہا کہ سی آئی اے اور برطانیہ کے انٹیلی جنس ادارے نے بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی تا کہ دنیا بھر کے شدت پسندوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکے تا کہ انھیں ایک جگہ سے کنٹرول کیا جا سکے اور عرب ممالک میں انتشار پھیلایا جا سکے تو دوسری طرف اسرائیل کا تحفظ کیا جا سکے وہ اس طرح کہ جب مذہب کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا جائے گا تو عرب مسلمان ممالک عدم استحکام کا شکار ہوں گے جس کا نتیجہ ان کی کمزوری کی شکل میں نکلے گا۔
عرب ممالک کی کمزوری کا نتیجہ اسرائیل کی مضبوطی کی شکل میں نکلے گا۔ اسے کہتے ہیں سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ڈیڑھ سو ارب روپے کی سرمایہ کاری اس مہم پر کی ۔مذہب کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ یہ بالکل اسی طرح کی سرمایہ کاری ہے جو آج سے تیس سال پیشتر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف سٹنگر میزائل اور دوسرے جدید ترین اسلحے سے لیس کیا اور پھر سوویت یونین کے خاتمے پر امریکی صدر ریگن نے مجاہدین کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا کہ ان کا رتبہ امریکا کے بانیان کے مساوی ہے۔
اس جنگ میں لاکھوں مسلمان تو ضرور مارے گئے لیکن امریکا کا ایک بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔ اسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے۔ سابق سی آئی اے اہلکار نے اسی ضمن میں مزید کہا کہ داعش کے سربراہ کو انتہائی سخت فوجی تربیت دلوائی گئی۔ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ بغدادی کو بولنے میں مہارت کی بھی تربیت دی گئی تا کہ وہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کو اپنے زور بیان سے متاثر کر سکے۔
داعش نے عراق شام میں جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق موصل پر قبضے کے بعد 700 لڑکیوں کو لونڈی بنا کر ایک دن میں فروخت کر دیا گیا۔ یہاں کے قدیم باشندوں کو مذہب تبدیل نہ کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جب کہ بہت سے لوگوں اور بچوں کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ اس طرح کے وحشیانہ اقدامات سے اسلام کی کونسی خدمت ہو رہی ہے۔
مغرب میں لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا خاص طور پر عورتوں میں کیونکہ وہاں بے پناہ جنسی آزادی نے عورتوں کو عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے۔ مغربی میڈیا ان واقعات کو جس طرح سے اچھالتا ہے تو مغربی لوگوں کی رائے اسلام کے بارے میں بدلنے لگی ہے۔ لیکن یہ مہربانی ہمارے دہشت گردوں کی ہے کسی اور کی نہیں۔ چاہے ان کا تعلق پاکستان افغانستان سے ہو یا عراق و شام سے۔
سوال یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی شام میں باغیوں کی مدد کر کے بشارالاشد کی حکومت کا تختہ کیوں الٹنا چاہتے ہیں۔ اس کا جرم کیا ہے؟ کیا اس کا جرم یہ ہے کہ وہاں آمریت ہے۔ نہ تحریرو تقریر کی آزادی ہے نہ جمہوریت۔ اگر یہ ہے تو یہ جرم امریکا کی اتحادی عرب بادشاہتیں و آمریتیں عرصے سے کر رہی ہے۔ وہاں تو امریکا کو کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ وہ وہاں ہر طرح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ تو پھر بشارالاسد کا جرم کیا ہے۔ تو پیارے قارئین سچ یہ ہے کہ شامی حکومت فلسطینیوں کی اسرائیل کے مقابلے میں طویل عرصے سے مدد کر رہی ہے۔
بشارالاسد اور ان کے والد حافظ الاسد نے فلسطینیوں کو شام میں محفوظ ٹھکانے مہیا کیے۔ ہر طرح کی اسلحی سفارتی اخلاقی اور مالی مدد مہیا کی جس کی وجہ سے آج بھی یہ اسرائیل کا خم ٹھونک کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہی بشار کا اصل جرم ہے۔ غزہ پر حالیہ حملے اس کی روشن مثال ہیں۔ یہی کام ایران بھی طویل عرصے سے کر رہا ہے۔ اگر ان دونوں ملکوں کی مکمل مدد حاصل نہ ہوتی تو مسئلہ فلسطین اسرائیل اپنی مرضی سے کبھی کا حل کر چکا ہوتا۔ فلسطینیوں کو غلام نہ بننے میں رکاوٹ یہی دو ملک بنے ہوئے ہیں۔
جس طرح سوویت یونین کے خاتمے کے لیے امریکا نے مذہب کا ہتھیار استعمال کیا بالکل اسی طرح مسلمانوں کا اتحاد ختم کرنے کے لیے عراق شام میں داعش کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کے تحفظ کے لیے لبنان شام عراق سے ایرانی اثرو رسوخ ختم کرنا چاہتا ہے۔
اس معاملے میں عرب بادشاہتیں بھی اس کی ہمنوا ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان دو ملکوں میں مذہبی جنونیت اس انتہا پر جا پہنچی کہ روزانہ سیکڑوں لوگوں کا مرنا ایک معمول کی خبر بن گئی لیکن عراق شام میں باغی گروہوں کی امریکی و عرب بادشاہتوں کی پشت پناہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی بادشاہتوں کی بقا کو داعش کے ہاتھوں شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
اس صورت حال پر امریکا سمیت تمام عرب بادشاہتیں بے حد پریشان ہیں۔ اگر سب نے مل کر اس آگ و خون کو نہ روکا تو پورا خطہ پاکستان سمیت خدانخواستہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ ایران سعودی عرب سے ہر ممکن حد تک تعاون کے لیے تیار ہے۔ اگر ایران امریکا مستقل ڈیل جوہری معاہدے کے حوالے سے ہو جاتی ہے تو خطے کا ناک نقشہ ہی بدل جائے گا۔ یعنی کل کے دشمن آج کے دوست۔
...موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے مزید اہم تاریخیں۔ 26,25 تا 28 اگست ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997